عجائب گھروں کی دنیا ۔۔ تیسرا حصہ

پرانے لاہور کے بھاٹی دروازے کے اندر داخل ہوں تو کچھ آگے چل کر دائیں ہاتھ پر ایک پرانی حویلی ''فقیر خانہ'' کے نام سے موجود ہے، یہی پاکستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم ''فقیر خانہ میوزیم'' ہے

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری جمعرات 3 ستمبر 2020

ajaib gharoon ki dunya - 3rd Part
33- وزیر مینشن کراچی
 کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع ہے اس عمارت کی وجہ شہرت یہ ہے کہ اسلام کے عظیم سپوت اور بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح، 25 دسمبر، 1876ء کو اس عمارت میں پیدا ہوئے۔ بانیٔ پاکستان کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی اور حکومت پاکستان نے اسے قومی اثاثہ قرار دے کر ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔


کراچی کے موسم کا مقابلہ کرنے کے لیئے چونے اور پٹ سن کے مصالحے سے بنائی گئی یہ خوبصورت عمارت 1860 سے 1870 کے بیچ بنائی گئی۔ یہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال تمام اشیاء جیسے فرنیچر، ملبوسات، سگار، جوتے اور روزمرہ استعمال کی چیزیں نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں۔
34- ٹھٹھہ میوزیم سندھ
ٹھٹھہ صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے جس کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

بہت سارے تاریخی مقامات کا گڑھ ہونے اور کراچی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے ہر سال اس جگہ سیاحت کے دلدادہ لوگوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی سچح پر اس شہر اور اسکی ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لیئے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کئے گئے۔
ابھی حال ہی میں ٹھٹھہ میں ایک میوزیم کی بنیاد رکھی گئی ہے جو غالباً اگست میں عوام کے لیئے گھولا گیا ہے۔

یہاں ٹھٹھہ شہر کی قدیم تاریخ، فنِ کاشی گری، مختلف پیشوں، اور سندھ کی دیہی زندگی کو خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے نیا بننے والا عجائب گھر ہے۔
35- فقیر خانہ میوزیم لاہور
پرانے لاہور کے بھاٹی دروازے کے اندر داخل ہوں تو کچھ آگے چل کر دائیں ہاتھ پر ایک پرانی حویلی ''فقیر خانہ'' کے نام سے موجود ہے، یہی پاکستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم ''فقیر خانہ میوزیم'' ہے جو پچھلی 6 نسلوں سے اندرون لاہور کے فقیر خاندان کے زیر انتظام قائم ہے۔


 اس عجائب گھر میں کم و بیش 30,000 تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں۔ اس کے موجودہ ڈائریکٹر فقیر سیف الدین ہیں جو اس عجائب گھر کا انتظام بخوبی چلا رہے ہیں۔
ان کے مطابق فقیرخانہ عجائب گھر میں 7000 لگ بھگ  نوادرات موجود ہیں جو ایک خاندانی ورثہ کی طرح اولاد میں تقسیم ہوتے رہے  ہیں۔ اس دوران اس میں سے کچھ انمول خزانہ ضائع بھی ہوا۔ جو کتابیں، نوادرات اور تبرکات بچے انہیں فقیرخانہ میں جمع کر دیا گیا ہے۔

دو منزلہ خوبصورت عمارت پر مشتمل اس عجائب گھر کے نچلے مرکزی کمرے میں مختلف قسم کی تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان، پستول اور خنجر نمائش کے لیئے رکھے گئے ہیں جبکہ یہی کمرہ فقیر سیف الدین کے بیٹھنے اور تحقیق کے لیئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
اوپرکے مرکزی کمرے میں رکھی گئی نایاب اشیاء میں بدھا کا مجسمہ، خطاطی کے نمونے، چھوٹی تصاویر، قالین کا وہ ٹکڑا جس میں ایک چہرہ نظر آتا ہے، پیتل کے مجسمے، لکڑی کا خوبصورت فرنیچر اور قیمتی گلدان شامل ہیں۔


یہاں سے ایک گیلری نکلتی ہے جہاں لکڑی کے خانوں میں چینی پورسلین کے خوبصورت ظروف اور گندھارا تہزیب کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ یہاں سے ایک اور کمرہ نکلتا ہے جہاں مختلف الماریوں میں کئی قسم کی نادر اشیاء کو محفوظ کیا گیا ہے۔
 فقیر سید نور الدین نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں پینٹنگز کی ایک نمائش کروائی تھی، جس میں لکھنؤ، کانگڑہ اور جموں و کشمیر کے علاقہ سے بیشمار مصوروں کی پینٹنگز لائی گئیں۔

آج بھی کئی پینٹنگز انہی سے منسوب ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں اور پورسلین کے بنے ظروف بہت اہم شاہکار ہیں۔ گندھارا تہذیب کے نوادرات میں تاریخی سکے بھی موجود ہیں۔ لکڑی کے شاہکار، ہاتھی دانت کی مصنوعات، پیتل اور تانبے کے کئی شاہکار بھی موجود ہیں، فرنیچر کے علاوہ اسلامک آرٹ یا کیلی گرافی کے بہت سے نمونے بھی اس عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔


فقیرخانہ عجائب گھر ہر خاص و عام کے لیے کھلا ہے۔ سکالر، محقق، سیاح، طالب علم اور مورخ سبھی اس عجائب گھر کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ذاتی نوعیت کا واحد عجائب گھر ہے، جہاں تبرکات کے علاوہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔
36- خواجہ فرید میوزیم کوٹ مٹھن
نجی عجائب گھروں میں ایک منفرد مقام کا حامل یہ میوزیم پاکستان کا سب سے بڑا ''نجی صوفی میوزیم'' ہے جو سرائیکی، پنجابی، فارسی اور سندھی کے عظٰم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی درگاہ کے ساتھ واقع ہے۔

اس میوزیم کا نظم و نسق درگاہ کے متولین چلا رہے ہیں جس کے ساتھ ایک لائبریری بھی منسلک ہے۔
خواجہ فریدؒ میوزیم ولائبریری کی قطار اندر قطار کئی گیلریوں میں آپؒ کے خطوط، لباس، کتابیں ، گھریلواستعمال کی اشیاء، بستر ،قرآن پاک، آخری غسل کا صابن، فریدی رومال، کنگھی،کچھ سکے اور کرنسی نوٹ وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں دیگر اشیاء موجود ہیں۔

آخری گیلری میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطے کی مختلف ثقافتی اشیاء نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں۔ ہر سال خواجہ صاحب سے عقیدت رکھنے والے ہزاروں افراد اس میوزیم کو دیکھنے آتے ہیں اور عرس کے دنوں میں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیئے کہ اس میوزیم کو کسی نئی عمارت میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی سرپرستی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔


37- علامہ اقبال میوزیم لاہور
یہ بات ہے 1977 ک جب پاکستان میں علامہ محمد اقبال کا صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا تھا تو حکومت نے اقبال منزل سیالکوٹ، اقبال کی میکلوڈ روڈ والی رہائش گاہ اور جاوید منزل کو تحویل میں لے کر محفوظ کرنے کا سوچا۔ ان تینوں عمارتوں کو خرید کر میوزیم میں بدل دیا گیا۔
مئی 1935ء میں علامہ اقبال اور ان کے اہل خانہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے جاوید منزل میں منتقل ہو گئے ۔

آخری عمر میں ملنے والے اس خوبصورت گھر کو علامہ اقبال نے اپنے صاحبزادے جاوید کے نام سے موسوم کر دیا اور آج اسی جاوید منزل کو ''علامہ اقبال میوزیم'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حکومت جاپان نے اس ضمن میں ایک احسن اقدام اٹھاتے ہوئے  اقبال میوزیم کے لیے جاپان کے ثقافتی فنڈ سے شوکیسوں اور ائیر کنڈیشنروں کے علاوہ متعلقہ سامان اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے ایک بڑی رقم مہیا کی۔

میوزیم کی تیاری کے بعد اسے محکمہ آثار قدیمہ حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا گیا ،جو اب بھی اس کی تحویل میں ہے۔
 اقبال میوزیم، 9 گیلریوں پر مشتمل ہے۔ میوزیم میں علامہ کی کئی اشیا موجود ہیں، جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال نے میوزیم کو عطیہ کی تھیں۔ ان اشیاء میں اقبال کا پاسپورٹ، دستخط کی مہر، ملاقاتی کارڈوں والا بٹوا، بنک کی کتاب، عینکیں ، انگوٹھیاں، کف لنکس، پگڑی، قمیض، جوتے، کوٹ، تولیے ، چھڑیاں، ٹائیاں، کالر، دستانے، وکالتی کوٹ ، جناح کیپس، گرم سوٹ جو لندن کی ریجنٹ سٹریٹ سے سلوائے گئے تھے۔

پشمینہ شیروانی، حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجا سرکرشن پرشاد کی جانب سے ارسال کردہ قالین، قلم، مسودے،خطوط، دستاویزات، تصاویر اور متعدد دیگر اشیاء شامل ہیں۔ میوزیم کا رقبہ تقریباً سات کنال ہے۔
38- فلیگ سٹاف ہاؤس میوزیم کراچی
قائد اعظم ہاؤس جو فلیگ سٹاف ہاؤس بھی کہلاتا ہے، پاکستان کے بانی، قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے جدید پاکستان پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا جانے والا میوزیم ہے۔

کراچی میں فاطمی جناح روڈ پہ واقع اس عمارت کو برطانوی ماہر تعمیرات، موسیس سوماک نے تعمیر کیا تھا ۔
یہ عمارت محمد علی جناح کی سابقہ رہائش گاہ ہے، جو یہاں 1944ء سے اپنی وفات یعنی 1948ء تک رہائش پزیر رہے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح یہاں 1964ء تک رہائش پزیر رہیں۔ یہ عمارت حکومت پاکستان نے 1985ء میں اپنی تحویل میں لے لی اور اس عمارت کو بطور میوزیم محفوظ کر دیا گیا۔


سبز و سرمئی رنگ کے حسین امتزاج والی اس عمارت کے اندر بابائے قوم کے زیر استعمال اشیاء، کاروں، ملبوسات اور فرنیچر کی نمائش کی گئی ہے۔
39- قلعہ بالا حصار میوزیم، پشاور
 بالا حصار، پشاور میں واقع ایک قدیم قلعہ اور تاریخی مقام ہے ۔
 تیمور شاہ درانی نے اس قلعے کا نام بالاحصار رکھا جس کے لفظی معنی بلند قلعہ کے ہیں۔

یہ قلعہ ایک طویل عرصے تک درانیوں کا زیر استعمال رہا، 19ویں صدی میں جب سکھوں نے پشاور پر حملہ کیا تو یہ قلعہ ان کے زیر استعمال آیا اور انہوں نے اس کا نام سمیر گڑھ رکھا لیکن مقامی طور پر سمیر گڑھ کا نام مشہور نہ ہو سکا۔
اس وقت قلعے کو بطور فرنٹیئر کورپس ہیڈکوارٹر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں قلعہ کی اندرونی دیوار کی بلندی 50فٹ ہے۔

دوہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جبکہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔ اس خوبصورت قلعے کے اندر ایک خوبصورت میوزیم بنایا گیا ہے جہاں مختلف کمروں میں فرنٹیئر کورپس کی مختلف شاخوں کی نمائندگی کی گئی ہے جن میں خیبر رائفلز، سوات سکاؤٹس، مہمند رائفلز، چترال سکاؤٹس، کُرم ملٹری، باجوڑ سکاؤٹس، شوال رائفلز، دیر سکاؤٹس، جنوبی وزیرستان و ٹوچی سکاؤٹس اور خٹک سکاؤٹس شامل ہیں۔

یہاں ان علاقوں میں مختلف آپریشنز سے بازیاب کیئے گئے آلاتِ حرب، نقشے، سپاہوں کی وردیاں، تصاویر، تلواریں، پستول، جھنڈے، مختلف علاقوں کی ثقافتیں، ٹرک آرٹ،  اور چھوٹی توپیں شامل ہیں۔ یہاں ایک پھانسی گھاٹ اور خوبصورت چھوٹی سی سووینیئر شاپ بھی ہے جہاں سے آپ پشاور کی مشہور پشاوری چپل اور درہ خیبر کے ماڈل خرید سکتے ہیں۔
یہاں موجود ایک تختی پہ روڈیارڈ کپلنگ کے وہ مشہور الفاظ بھی درج ہیں جو انہوں نے اس فورس کے بارے میں کہے تھے ؛
‘’You must know that along the North-West frontier of India spread a force who move up and down from one little desolate post to another, they are ready to take the field at ten minutes notice, they are always half in and half out of a difficulty somewhere along the monotonous line, their lives are as hard as their muscles and papers never say anything about them.’’
40- شاکر علی میوزیم لاہور
لاہور شہر میں واقع یہ چھوٹا سا نجی عجائب گھر آرٹسٹ شاکرعلی صاحب کے گھر میں واقع ہے۔

شاکر علی نہ صرف ایک پینٹر بلکہ آرٹ کے استاد اور نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل بھی تھے۔ بنیادی طور پر تو اس میوزیم  کا افتتاح ان کی وفات کے بعد 1975 میں کیا گیا لیکن اس کی عمارت خود انکی اپنی بنائی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عمارت میں استعمال کی گئی اینٹیں جلی ہوئی تھیں، وہ جو بھٹے کے بالکل بیچ میں پکائی جاتی ہیں۔ ہر ایک اینٹ اور دروازہ انہوں نے خود پسند کر کے لگوایا تھا تبھی اس عمارت کو بنانے میں دس سال لگ گئے۔


جیسے ہی آپ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں آپ کی نظر سب سے پہلے ہال میں لگی بلیک اینڈ وائیٹ تصاویر پر پڑتی ہے جو شاکر علی صاحب اور دیگر اہم ہستیوں کی ہیں۔ یہیں ایک طرف ان کی ڈگریاں اور سندیں بھی لگائی گئی ہیں۔ دوسری سمت گھر کے مختلف کمروں (جنہیں میوزیم کی شکل دی گئی ہے) میں شاکر علی صاحب اور انکے شاگردوں کی تصاویر، ان کے اکٹھے کیئے گئے نوادرات اور خریدی گئی نایاب اشیاء نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں۔

ایک گیلری میں شاکر علی کے علاوہ پاکستان کے دیگر مشہور آرٹسٹ حضرات کا کام رکھا گیا ہے۔
تہہ خانے مین ایک ریسرچ لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں آرٹ کی کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان میں 3737 کتابیں، جرائد اور پورٹ فولیوز شامل ہیں۔ یہ گھر نہ صرف ایک میوزیم بلکہ آرٹ سینٹر بھی ہے جہاں نمائشیں، موسیقی کے پروگرام، مختلف سیمینار اور اداکاری کی کلاسیں بھی لگائی جاتی ہیں۔

لاہور کے گارڈن ٹاؤن میں موجود یہ شاندار میوزیم پاکستان بھر سے فنونِ لطیفہ سے محبت رکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔  
41- کوئٹہ جیولوجیکل میوزیم
علمِ ارضیات اور پیش قیمت معدنیات پر مشتمل جیولوجیکل سروے آف پاکستان میوزیم، پاکستان میں اپنی طرز کا واحد میوزیم ہے جو کوئٹہ میں پر سریاب روڈ پر واقع ہے۔

اس میوزیم میں زمین، چٹانوں، پتھروں، معدنیات اور تمام قیمتی و تعمیراتی پتھروں سے متعلق تمام اہم چیزیں نمائش کے لیئے رکھی گئی ہیں اور اسی مناسبت سے اسے معدنیات کے گڑھ بلوچستان میں بنایا گیا ہے۔  سب سے اہم چیز 500 ملین سال قدیم فاسلز اور 47 ملین سال پرانی وہیل مچھلی کا ڈھانچہ ہے۔
یہ میوزیم پانچ گیلریوں پر مشتمل ہے
چٹانی و معدنیاتی گیلری
اس گیلری میں 2000 سے بھی زیادہ دستاویزات موجود ہیں جو دنیا بھر سے یہاں لا کر رکھی گئی ہیں۔

یہ گیلری تعلیم و تحقیق کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
معدنیاتِ بلوچستان گیلری
پاکستان بھر سے اور خصوصاً بلوچستان سے نکالی جانے والی قیمتی معدنیات اس گیلری کی زینت بنائی گئی ہیں جن میں لوہا، تنبا، جست، نمک، ماربل، گندھک، سونا اور  شامل ہیں۔
ایسٹروجیولوجیکل گیلری
جواہرات گیلری
ملک بھر سے نکالے جانے والے قیمتی پتھر و جواہرات یہاں رکھے گئے ہیں جن میں زمرد، فیروزہ، نیلم، پکھراج اور شامل ہیں۔


تعمیراتی پتھر گیلری
اس گیلری میں آپ مختلف عمارتوں میں استعمال ہونے والا پہاڑی پتھر دیکھ سکتے ہیں۔
یہ کوئٹہ کا ایک ایسا میوزیم ہے جسے اب دیکھنے کوئی نہیں جاتا۔ اس جیسے میوزیم جو دوسرے ملکوں میں ھیں انکی کئ کئ ڈالر ٹکٹ ھے اور ھزاروں ٹورسٹ انکو روزانہ وزٹ کرتے ھیں اسکے تالے سپیشل ھمارے لئے کھولے گئے اس میں قیمتی پتھر لاکھوں سال پرانے فوسلز بلوچستان کی معدنیات اور بلوچستان کے پہاڑوں سے متعلق بے بہا معلومات موجود ہی۔


42- پاکستان ریلوے ہریٹیج میوزیم گولڑہ شریف
برسوں سے ریل گاڑی ملکوں کی معیشتوں کا پہیہ چلاتی آئی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو آرم دہ سفر اور بیش بہا خوبصورت نظاروں سے مستفید کرتی آءی ہیں۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ ان ریل گاڑیوں کو کسی میوزیم میں بھی رکھا جائے گا۔
گولڑہ شریف ریلوے عجائب گھر جو ''پاکستان ریلویز ورثاتی عجائب گھر'' بھی کہلاتا ہے اسلام آباد میں واقع پاکستان کا واحد ریلوے عجائب گھر ہے۔

یہ عجائب گھر گولڑہ شریف جنکشن ریلوے اسٹیشن میں قائم ہے جو اسلام آباد کے جنوب مغرب میں سطح سمندر سے 1,994 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ عجائب گھر اور ریلوے اسٹیشن سیاحوں اور خاص طور پر ریلوے اور ٹرین کے شیدائیوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔
اس اسٹیشن کو انگریز دور میں 1882 میں بنایا گیا جبکہ 1912 میں اسے جنکشن بنا دیا گیا۔ افغانیوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران برطانوی افاج کے لیئے اس اسٹیشن کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ۔


ریلوے کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیئے اکتوبر 2003 میں یہاں ایک عجائب گھر کی بنیاد رکھی گئی۔
اس عجائب گھر میں تین مختلف ہال ہیں جہاں 150 سال سے بھی زیادہ پرانا سامان رکھا گیا ہے جس میں سے زیادہ تر متحدہ ہندوستان کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ میوزیم کے ساتھ ہی ایک یارڈ میں ریلوے کی کرینیں، ٹرالیاں، انجن، ڈبے، سیلون اور ٹریک خوبصورتی سے نمائش کے لیئے رکھے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف مشینیں، سگنل سسٹم اور ذرائع ابلاغ کا سامان بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ میوزیم 2002 میں راولپنڈی ڈویژن کے ڈی ایس اشفاق خٹک کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان کے کہنے پر ہی پاکستان ریلوے کے تمام ڈویژنوں سے تنگ پٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کا مختلف پرانا سامان جیسے کراکری، فرنیچر، انجن اور سیلون اکٹھا کیا گیا۔ 2003 کے آخر تک اس پراجیکٹ کو بغیر حکومتی مدد اور کام کرنے والے آفیسرز کی دلچسپی کی بدولت مکمل کیا گیا اور اس کا باقاعدہ افتتاح مارچ 2007 میں کیا گیا۔


اس عجائب گھر میں پاکستان ریلویز سے متعلق پرانے ریلوے انجنوں، ڈبوں اور نادر اور تاریخی اشیاء کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ ریلوے سے متعلق پرانی اور نادر اشیاء کو دو ہالوں جبکہ پرانے انجنوں اور ڈبوں کو اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور احاطَہ میں رکھا گیا ہے۔
اپنی خوبصورت لوکیشن اور خوبصورتی کی بدولت یہ اسٹیشن اور میوزیم فلم، ٹی وی، فوٹوگرافی اور قلم قبیلے کا پسندیدہ ترین رہا ہے۔

یہاں نہ صرف کئی فلموں ، ڈراموں اور کمرشلز کی شوٹنگز ہو چکی ہیں جبکہ اکثر فوٹوگرافر حضرات بھی صبح سویرے اس کی خوبصورتی کو کیمرے میں قید کرتے پائے جاتے ہیں۔
43- پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری، اسلام آباد
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا قیام 1976ء میں پاکستان سائنس فاونڈیشن اور وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر انتظام عمل میں لایا گیا۔

یہ 4 مختلف شعبہ جات پر مشتمل ہے، جن میں نباتات، حیوانات، ارضیات اور عوامی خدمت شامل ہیں۔ پہلے تین شعبہ جات کا مقصد پاکستان میں موجود پودوں، جانوروں، معدنیات، چٹانوں اور فاسلز کے نمونے اکٹھے کرنا ان کی پہچان اور ان پر تحقیق کرنا ہے، جبکہ چوتھا شعبہ ترتیب و تشہیر سے متعلق ہے۔ ایک ادازے کے مطابق اس میوزیم میں تین لاکھ اشیاء موجود ہیں۔

نیچرل ہسٹری میوزیم ایک تحقیقی ادارہ بھی ہے جو لوک ورثہ میوزیم کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے زیرِانتظام ہے۔ اس کی گیلریوں کی تعداد 6 ہے۔
حیاتیائی گیلری ؛ مختلف علاقوں کے پودے، درخت، جانور اور پرندوں کے لیئے۔
قیمتی پتھروں کی گیلری ؛ اس میں تراشے ہوئی اور خام حالت میں قیمتی پتھر و جواہرات رکھے گئے ہیں۔

جبکہ حکومتِ جاپان کی طرف سے صدرِ پاکستان کو تحفتاً بھیجا گیا ''ہیروشیما کا پتھر'' بھی یہاں رکھا گیا ہے۔ گرینائٹ کا یہ پتھر تاریخ کے سب سے بڑے المیے کا گواہ ہے۔
فاسلز گیلری ؛ جہاں آپ مختلف قدیم جانوروں کے فاسلز، انکی تصاویر، مخطوطوت، اندھی ڈولفن کے فاسلز، ہاتھی کی ٹانگ کا فاسل، خوشاب سے ملنے والے مگر مچھ کے گاسلز بھی یہاں محفوظ کیئے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں کینیا کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی ابتدائی انسان کی وہ کھوپڑی بھی ہے جو تقریباً 29 لاکھ سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مشرقی افریقہ سے برآمد ہوئی تھی۔
ماحولیاتی گیلری ؛ جہاں ماحولیات کے طالبعلم ماحولیاتی سائیکل اور مظام کا بغور مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
ارضیاتی گیلری ؛ اس گیلری میں پاکستان کے سمندروں اور معدنیاتوں سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں ایک وہیل مچھلی کا ڈھانچہ بھی شامل ہے۔

کوہِ نمک کی مختلف پرتوں اور طبعی خصوصیات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
ورچول ٹور گیلری ؛ اور اس گیلری میں آپ تمام گیلریوں کی چیدہ چیدہ خصوصیات دیکھ سکتے ہیں۔ ٹائم کی کمی کے باعث یہ گیلری آپ کو پورے میوزیم کی سیر کروا سکتی ہے۔  
44- مہوٹہ پیلس میوزیم
کراچی کے ایک مشہور مارواڑی تاجر شیو رتن مہوٹہ نے  1927 میں کلفٹن کے ساح کے قریب اپنے لیئے  ایک شاندارمحل تعمیر کروایا تھا جس کے انجینیئر جئے پور سے تعلق رکھنے والے برصغیر کے پہلے مسلمان انجینیئر احمد حسین آغا تھے جو کراچی میونسپلٹی کے لیئے بھی کام کرتے تھے۔

یوں تو انہوں نے کراچی میں کئی عمارتوں کو ڈیزائین کیا لیکن مہوٹہ پیلس انکا لازوال شاہکار قرار پایا۔ عمارت کے چاروں طرف چار گنبد، جبکہ چھت پر 5 گنبد بنائے گئے ہیں جو اس عمارت کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں۔ قطار اندر قطار دروازے اور ایک شاندار زینہ محل کی رونق میں خاطر خواہ اضآفہ کرتے ہیں۔
مغل طرزِ تعمیر اور کراچی کے ریتلے پیلے اور گلابی پتھر کو استعمال میں لا کر  انہوں نے وہ عمارت کھڑی کی جو راجستھان کی کسی راجپوت ملکہ کے محل سے کم نہ تھی۔


پاکستان بننے کے بعد مہوٹہ پیلس وزارتِ خارجہ کا دفتر قرار پایا۔ دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد یہ محل محترمہ فاطمہ جناح کو دے دیا گیا۔ 1964 میں آپ کی وفات کے بعد یہ محل آپ کی بہن شیریں بائی کے استعمال میں رہا جنکی وفات کے بعد یہ 1995 تک سیل کر دیا گیا۔ 1995 میں اسے حکومتِ سندھ نے میوزیم بنانے کے وعدے پر وفاق سے خرید لیا۔ ضرورمرمت کے کام کے بعد اسے 1999 میں عوام کے لیئے کھول دیا گیا۔

تب سے لی کر اب تک یہاں درجنوں شاندار نمائشیں منعقد کی جا چکی ہیں اور تین گیلریوں پر مشتمل یہ میوزیم آج چوالیس گیلریوں پر محیط ہے جہاں مختلف نوادرات رکھے گئے ہیں۔
مرکزی عمارت کے ساتھ ہی کراچی کی مرکزی لوکیشنز سے اٹھا کر لائے گئے انگریز دور کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ کچھ نادر مجسمے (جیسے ملکہ وکٹوریہ اور برطانوی سپاہیوں کے مجسمے) اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔


45- یادگارِ پاکستان میوزیم
یادگارِ پاکستان یا پاکستان مونومنٹ کا تو آپ سب کو پتہ ہی ہو گا، یہ اسلام آباد کی ایک خوبصورت قومی یادگار ہے جو وفاق اور چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے سامنے ایک خوبصورت عجائب گھر بنایا گیا ہے جو پاکستان کے ماضی کا عکاس ہے۔ یادگارِ پاکستان عجائب گھر 2010 میں  ان تمام لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے  قائم کیا گیا جنہوں نے پاکستان کی آزادی لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

  عجائب گھر قدیم   تہذیبوں، پاکستان کی آزادی کی جدوجہد، پاکستان کی پیدائش اور ملک کی بڑی کامیابیوں کو دکھاتا ہے۔  اس میں ایک  ریفرنس لائبریری، قیمتی آڈیوز و ویڈیوز کا خزانہ اور  کانفرنس ہال کی سہولیات موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق روزانہ پندرہ سو کے قریب افراد اسے دیکھنے آتے ہیں۔ اس میوزیم کی ایک خاص بات یہاں موجود بابائے قوم اور دیگر اہم لیڈران کے مومی مجسمے ہیں۔


46- سٹیٹ بینک میوزیم کراچی
پاکستان کے واحد کرنسی میوزیم کا قیام پاکستانی کرنسی اور سکوں کو محفوظ رکھنے کے لیئے 2004 میں سٹیٹ بینک کی بلڈنگ میں عمل میں لایا گیا جو پہلے ''ایمپیریل بینک آف انڈیا'' کی عمارت تھی۔ یونانی و رومن طرزِ تعمیر کی حامل یہ عمارت 1920 میں برطانوی سامراج نے تعمیر کروائی تھی جسے سٹیٹ بینک  میوزیم کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

یہاں کی دو گیلریوں میں کرنسی نوٹوں اور سِکوں کی گیلری شامل ہے۔
کرنسی نوٹ گیلری ؛ یہ گیلری کاغزی کرنسی کی ابتدا اور ارتقاء سے متعلق معلومات مر مشتمل ہے جس میں کاغزی کرنسی کا آغاز، پاکستانی کاغزی کرنسی اور دنیا کے بیشتر ممالک کی کرنسی شامل ہے۔ 1947 سے اب تک جاری ہونے والے تمام پاکستانی نوٹ یہاں محفوظ ہیں۔
سِکہ جات کی گیلری ؛ یہ گیلری سکوں سے محبت رکھنے والوں کے لیئے ہے جہاں سِکہ ڈھالنے کا عمل دکھانے سے لے کر پرانی مشینیں، اوزار اور سکوں کا میٹیریل شامل ہے۔

یہاں سکے بنانے کے پورے عمل کا احاطہ کرتی ڈاکیومینٹری بھی دیکھی جا سکتی ہے۔یہاں وادئ سندھ کے قدیم سکوں سے لے کر ورب، مغل، برٹش اور برصغیر کے ادوار کے سکے بھی نمائش کے لیئے رکھے گئے ہیں۔ 1947 سے لی کر اب تک کے تمام پاکستانی سِکوں کی کلیکشن بھی موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ajaib gharoon ki dunya - 3rd Part is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 September 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.