
امریکہ بھارت دفاعی معاہدات
اوبامہ کے بھارت سے 68 دفاعی معاہدے‘جوبائیڈن نے بطور نائب صدر کشمیر نظر انداز کیا‘ٹرمپ نے بھی مودی سے جنگی تعاون بڑھایا
جمعہ 13 نومبر 2020

بھارت اور امریکہ کے درمیان چند روز قبل بنیادی تعاون کا معاہدہ (بی ای سی اے)‘طے پایا ہے۔یہ معاہدہ خطے کے دیگر ممالک اور پاکستان کیلئے تشویشناک ہے۔اس معاہدے کے تحت امریکہ بھارت کو جو سپیشل انٹیلی جنس،یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات فوراً فراہم کرے گا۔یہ پیش رفت بھارت کے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔بی ای سی اے آٹو میٹیڈ یعنی خود کار میزائل اور مسلح ڈرون جیسے ہتھیاروں کے نشانوں کی وضاحت اور درستگی کو بڑھا سکتا ہے اور اس کے تحت بھارت کو جدید ترین نقشے اور سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر بھی فراہم کی جائیں گی۔اگرچہ اس سے قبل بھی بھارت کے پاس سیٹلائٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا نظام موجود ہے تاہم یہ ابھی مکمل طور پر فعال نہیں اور ہدف بنانے کی صلاحیت درست نہیں۔
(جاری ہے)
معاہدہ ایک اعلیٰ سطحی ملاقات میں طے پایا گیا اور جس کیلئے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور سیکرٹری دفاع مارک ایسپر بھارت آئے۔یہ حالیہ برسوں میں بھارت اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے چار بنیادی معاہدوں کے سلسلے کا یہ آخری معاہدہ ہے۔بی ای سی اے سے پہلے دونوں ممالک کی جانب سے 2016ء میں لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ،2018ء کمیونیکیشن کا مپیٹیبیلٹی اینڈ سکیورٹی ایگزیمنٹ اور 2019ء میں انڈسٹریل سکیورٹی اینیکس جو 2019ء پر دستخط کیے گئے۔یہ آخری معاہدہ 2002ء میں طے پانے والے جنرل سکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگزیمنٹ کی توسیع ہے۔اس معاہدے کے تحت ایک ملک کی فوج کو دوسرے کی سہولیات،ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں سے فراہمی اور دیگر خدمات کے لئے ایک دوسرے کے دفاعی ٹھکانوں کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔اس معاہدے نے انڈو بحر الکاہل خطے میں بحریہ کے مابین تعاون کو آسان بنا دیا ہے۔
اس کے علاوہ انڈیا اور امریکہ نے ایک اور دفاعی معاہدہ کیا ہے جس کو ’کاسا‘یا ’مواصلات مطابقت اور سلامتی معاہدہ‘کہا جاتا ہے۔اس پر ستمبر 2018ء میں دہلی میں پہلے’ٹوپلس ٹو مکالمے‘کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔اس معاہدے سے انڈین اور امریکی فوجی کمانڈروں، اُن کے طیاروں اور دیگر سازو سامان کے لئے خفیہ اور محفوظ مواصلاتی نیٹ ورکس پر معلومات کا تبادلہ کرنا آسان ہو جاتاہے۔نیا معاہدہ بھارت کے لئے کس طرح اہم ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم روز مرہ زندگی میں سمارٹ فون کے ذریعے اپنی لوکیشن تلاش کرنے یا راستہ ڈھونڈنے کے لئے جو جی پی ایس لوکیشن سسٹم استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بھی آپ کو بالکل درست نتیجہ نہیں دے پاتا اور آپ کو اکثر اپنے حقیقی مقام یا لوکیشن سے دائیں بائیں ظاہر کرتا ہے۔جی پی ایس کے ذریعے کسی کی لوکیشن جاننے کے لئے عام طورپر تین سے چار سیٹلائٹ کا استعمال ہوتاہے۔
عالمی سطح پر امریکہ،روس،یورپ اور چین کے پاس اپنے جیو انٹیلی جنس سیٹلائٹ نظام ہیں جن کی مدد سے وہ دنیا پر نظر رکھ سکتے ہیں۔یہ چاروں ایک دوسرے سے سائنسی اور تکنیکی معلومات بانٹتے ہیں لیکن کوئی خاص معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی رازوں کا تبادلہ نہیں کیا جاتا۔بھارتی ماہرین کے مطابق بھارت کے سیٹلائٹ اور ریڈار نظاموں میں بہتر ربطہ کے لئے’ہر نظام کو ایک ہی زبان میں بات کرنی چاہیے۔‘امریکہ اپنا نظام دفاعی منڈی میں فروخت کرنے کے لئے کچھ علاقوں میں سکیورٹی مسائل پیدا کرتا رہا ہے، چین کا آس پاس کے سمندر پر پھیلتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے بھارت اور بہت سے دوسرے ممالک سمندر میں چینی نقل وحر ہیں کت پر گہری نظر رکھنے کے خواہاں ہیں۔امریکہ ان کی جیو انٹیلی جنس نظام فروخت کرنے کی کوشش میں ہے۔معاہدہ یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ سرحد پر کیا ہو رہا ہے اور زمینی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔یہی امور بھارت پاکستان سرحد پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔بھارت نے امریکہ کے ساتھ جو دفاعی تعاون بڑھانے کی منصوبہ بندی کی ہے اس کی بنیادی وجہ امریکی مفادات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صدارتی انتخابات سے ایک ہفتہ قبل یہ معاہدہ کیوں کیا گیا ہے؟۔سابق امریکی صدر اوبامہ نے بھی بھارت پر نوازشوں کے سلسلے جاری رکھے اور اس کے ساتھ 68 دفاعی معاہدات کر ڈالے۔ٹرمپ نے بھی مودی سے جنگی تعاون بڑھایا اور الیکشن سے قبل کیا گیا (بی ای سی اے)سیٹلائٹ معاہدہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ میں جو بھی برسر اقتدار آئے وائٹ ہاؤس کا مکین کوئی بھی ہو اس کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہی رہے گا۔رواں سال اب تک امریکہ نے انڈیاکو 20 ارب ڈالر سے زیادہ کا دفاعی سازو سامان فروخت کیا ہے۔یہ امر توجہ طلب ہے کہ دہلی کے حکمرانوں نے گزشتہ دس برس میں سو ارب ڈالر سے زیادہ نئے ہتھیاروں اور دفاعی نظام کی خرید پر صرف کیے۔ اس مدت میں نئے جنگی جہازوں،میزائل،آبدوزوں،ٹینکوں،ہاویٹزر توپوں،سپیشل طیاروں اور دوسرے ہتھیاروں کی خرید کے لئے سودے کیے گئے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ دہلی کے حکمرانوں کے جنگی جنون کا نام دیا جائے یا کچھ اور کہا جائے مگر یہ اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے خصوصاً جموں کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور دہلی سرکار کافی عرصے سے عالمی قوانین اور ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہر قسم کی معاندانہ روش اختیار کیے ہوئے ہے۔آزادی کے تہتر سالوں میں جو جنگی جنونیت بھارت دکھاتا آرہا ہے اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔آزاد ہوتے ہی کشمیر پر قابض ہو گیا۔حیدر آباد دکن دبوچ لیا۔پاکستان سے جنگیں شروع کر دیں۔نیز گزرتے وقت کے ساتھ بھارتی شدت پسندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔شمال میں چین اور نیپال سے الجھا رہا،جنوب میں سری لنکا کے لئے درد سر بنا رہا اور مشرق و مغرب میں پاکستان سے اپنا بغض نکالتا رہا۔65ء کی جنگ ہو یا71ء کی ،بھارت نے سوائے زہر اگلنے کہ اور کچھ نہ کیا۔
بھارت کے بالادستی کے مذموم عزائم نے علاقے کا امن برباد کرکے رکھا ہوا ہے۔ضروری ہے کہ قوام متحدہ،علاقائی تنظیموں و عالمی برادری کو بھارتی جنگی عزائم سے آگاہ کیا جائے،امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ بی ای سی اے سے خطے میں سٹریٹجک توازن متاثر ہو گا۔معاہدے کی بدولت بھارت کی ڈرون،میزائل اور ایرو سپیس ٹیکنالوجی میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔مذکورہ معاہدے نے پاکستان و چین سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لئے ایک مستقل خطرہ میں ڈال دیا ہے۔معاہدے کا مقصد بھارت کا پاکستان اور چین کے خلاف مذموم عزائم کی تکمیل کی طرف بڑھنا ہے۔ٹرمپ مودی کی قیادت میں بی جے پی کو جنوبی ایشیاء میں تھانیداری کا ٹھیکہ دینے کے چکر میں رہیں۔امریکہ کی جنوبی ایشیاء پر بھی اعلانیہ پالیسی برصغیر کے ہندوستانی غلبے پر مشتمل ہے جس کیلئے امریکہ نے چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مودی کو پہلے ہی اپنا اسٹریٹجک پارٹنر منتخب کر لیا تھا اور بھارت کو جدید ترین اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنے میں مصروف ہیں۔بھارت کی فوجی طاقت میں اضافے سے پاکستان کے ساتھ اسلحے کا توازن بدترین حد تک بگڑ رہا ہے جس کے باعث بھارتی جارحیت کو ہوا ملے گی اور پاک بھارت تنازع میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی نہج تک پہنچنا پہلے کے مقابلے میں مشکل نہیں ہو گا۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی دھمکیوں اور سی پیک کی مخالفت کے پیچھے امریکہ اور بھارت مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔اس میں کوئی شک وشعبے کی گنجائش نہیں ہے کہ دنیا بھرمیں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت ملوث ہیں۔مشرق وسطیٰ پر امریکی قبضے کا خواب کوئی نیا نہیں کیونکہ عالمی استعمار نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی دنیا بھر میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں چلانا شروع کر دئیے تھے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح امریکہ اور برطانیہ سمیت فرانس اور دیگر یورپی قوتوں نے مشرق وسطیٰ سمیت شمالی افریقہ کے علاقوں کی بندر بانٹ کی۔امریکہ،بھارت اور دیگر ملک دشمن عناصر کو پاکستان کے ساتھ دیگر ممالک کی دوستی اور پاکستان کی ترقی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔ایشیاء پر اپنی معاشی،فوجی اور سیاسی قوت سے بالا دستی قائم کرنے کی پالیسی اپنا کر امریکہ چین کے لئے کئی مسائل پیدا کر رہا ہے اور چین کے دنیا میں بڑھتے معاشی اور سیاسی اثر ورسوخ کو روکنے کے لئے ایک گریٹ گیم جاری ہے۔چین اور پاکستان کی انمول دوستی،اقتصادی اور دفاعی ترقی کے اقدامات کئی ممالک کو کھٹک رہے ہیں،لہٰذا چین کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے جو معاہدات طے پائے ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکنے کیلئے نت نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔جبکہ امریکہ اور مغرب بھارت سے جو کام لینا چاہتے ہیں اس کے حوالے سے خود امریکی تھنک ٹینک کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اس میں ناکام ہو جائے گا کیونکہ بھارت اتنی صلاحیت نہیں رکھتاکہ وہ خطے میں امریکی خواب پورے کر سکے۔
چین کے جنوبی ایشیائی ممالک میں سبق دفاعی اتاشی اور اقوام متحدہ کے سابق سینئر فوجی مبصر چینگ ڑیونگ نے کہا ہے کہ بھارت اور امریکہ کا فوجی گٹھ جوڑ علاقائی امن کے لئے نیک شگون نہیں اور ان دونوں ممالک کے عسکری تعلقات ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں امن و استحکام کے لئے مفید نہیں ہو سکتے ۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ میری رائے میں امریکہ اور بھارت کی طرف سے بنیادی تبادلہ اور تعاون کے معاہدے(بی ای سی اے)پر دستخط کوئی خاص اہمیت نہیں کرتے۔بی ای سی اے 2002ء کے بعد دونوں ممالک کا چوتھا بنیادی فوجی معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ملک سیٹلائٹ سمیت دیگر سنسر کے اعداد و شمار شیئر کریں گے۔سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے تاہم اس کا دارو مدار دونوں ملکوں کے سٹریٹجک تعاون پر ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ کتنی معلومات اور ٹیکنالوجی شیئر کرے گا۔امریکہ دوسروں کو ٹیکنالوجی دینے میں فیاضی نہیں کرتا۔پروفیسر چینگ ڑیونگ نے کہا کہ اس وقت امریکہ اور بھارت کے دفاعی تعلقات زیادہ عمل یا حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔امریکہ بھارت سے بحر الکاہل کے حوالے سے سٹریٹجی شیئر کرنے کا تقاضا کرتا ہے جبکہ بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ اسے جدید اسلحہ اور فوجی ٹیکنالوجی فراہم کرے۔تاحال امریکہ نے بھارت کے لئے صرف 20 بین امریکی ڈالر کے اسلحہ کی منطور دی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خیا ل میں دونوں ملک ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں۔ پروفیسر چینگ ڑیونگ نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں اگر کوئی بات مشترک ہے تو وہ یہی ہے کہ پریشانی پیدا کرنا اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔مزید کہا کہ امریکہ اور بھارت کا فوجی تعاون خطے میں امن و استحکام کے لئے مناسب نہیں کیونکہ اس سے ہمالیائی خطے کے حالات میں پیچیدگیاں بڑھیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
America India Difai Muahidat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.