امریکہ پاکستان کیخلاف اقتصادی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے

کینیڈا ، ترکی اور ایران کے بعدامریکہ پاکستان کیخلاف اقتصادی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر امریکہ کے معاشی حملے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

جمعرات 16 اگست 2018

America Pakistan kay khilaaf iqtisadi hathyaar istemaal kar sakta hai
محمد انیس الرحمن
جس وقت جنگ عظیم دوم کا اختتام ہوا تو جرمنی کو شکست دینے کے بعد امریکہ اور یورپ بھی اس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ دنیا میں اپنے نوآبادیاتی نظام پر کنٹرول برقرار رکھ سکیں اس لئے نئے دجالی نظام کی طرح ڈالی گئی جو جمہوریت اور اقتصادیات کی شکل میں تھا تا کہ باقی دنیا کو وہاں کے مقامی حکمرانوں کے ذریعے چلایا جا سکے اور اقتصادی پھندے سے انہیں قابو میں رکھا جا سکے۔


جس وقت سعودی عرب اور کینیڈا میں تنازع کھڑا ہوا تو اس وقت دنیا کو یہی تاثر دیا گیا تھا کہ کینیڈا نے سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں چونکہ مداخلت کی ہے اور وہاں رونما ہونے والے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس لئے سعودی عرب نے کینیڈاسے سفارتی تعلقات منقطع کر کے باقی کا دنیاوی لین دین بند کردیا ہے۔

(جاری ہے)

بہر حال ہی سب کچھ کینیڈا جیسے ملک کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ اس سارے بحران کے پیچھے بھی امریکہ کی صہیونی دجالی انتظامیہ تھی۔

اس قسم کے معاملات صرف کینیڈا جیسے ملک کے حوالے سے ہی سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ اس سے پہلے وینزویلا اور حال ہی میں ترکی کو اس کا شکار بنادیا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں معاشی جنگ جس میں ڈالر کو” ہتھیار “کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا ٹریلر پاکستان کے عام انتخابات سے پہلے یہاں بھی چلایا گیا تھا جس میں ڈالر یکدم130 روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔

اس” ہلکے جھٹکے“ نے پاکستان کی پہلے سے تباہ حال اقتصادیات کو مزید بری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا اور بیٹھے بٹھائے بیرونی قر ضے کئی ارب ڈالر بڑھ گئے تھے لیکن پھر انتخابات کے بعد سعودی عرب سمیت چند دوست ممالک کی مدد سے ڈالر کو دوبارہ پہلے والی پوزیشن میں لانے کی کامیاب کوشش کی گئی لیکن ابھی یہ تلوار پاکستان کی معاشی صورتحال پر اسی طرح لٹکی رہے گی۔


اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم عالمی دجالی معاشی سیسہ گر اور مالیاتی ادارے روس، ترکی اور ایران کے خلاف معاشی ہتھیار کو پوری طرح حرکت دے چکے ہیں، اس سارے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ یورپ کو بھی خاطر میں نہیں لارہے۔ یورپ کی جانب سے مزاحمت کے باوجودیہ مما لک اس میدان میں امریکہ کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پرمجبور ہیں۔

نوے کی دہائی میں جس وقت سوویت یونین کی تحلیل عمل میں لائی گئی تھی اس میں بھی سب سے بڑا عامل یہی معاشی ہتھیار تھا۔ اس معاشی ہتھیارکو استعمال کرنے کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کی گئی تھی تاکہ سوویت یونین کی قاہرانہ عسکری قوت کو افغانستان میں شکست سے دوچار کر کے معاشی طور پر ماسکو کو زبردست زک پہنچائی جائے اور ایسا کرنے میں امریکہ اور اس کی دجالی صہیونی اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر کامیاب رہی تھی۔

اس کی وجہ سے ماسکو میں روٹیوں کے لالے پڑگئے جس کی وجہ سے نہ صرف اسے افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی بلکہ ستر برس سے قائم وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ پر بھی اس کا کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔ سوویت یونین کے اس ملبے سے پرانے تاریخی روس نے دوبارہ جنم لیا اور اگلے دس برسوں میں اسے معاشی طور پر مستحکم کرنے کی غرض سے کسی بھی عالمی تنازعے میں ٹانگ اڑانے سے گریز کیا گیا۔

دوسری جانب بالکل یہی پالیسی چین نے اختیار کر رکھی تھی اور کسی عالمی تنازعے میں الجھے بغیر وہ اپنی اقتصادی پیش قدمی کے لئے راستے تلاش کرتا رہا اور افریقہ تک جا پہنچا۔
اس اثنا میں ایک طرف مشرق وسطی کے تنازعات نے سراٹھانا شروع کیا تو دوسری جانب تر کی بڑی تبدیلیوں کی لپیٹ میں آگیا جس کی مغرب کو توقع نہ تھی ترکی میں اردگان کی پارٹی کی فتوحات اور ترک عوام میں دوبارہ اسلامی نشاة ثانیہ کی آرزو انگڑائی لینے گی۔

یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ مغرب بھی تعجب کے بغیر نہ رہ سکا۔ ترکی میں یہ حالات اس وقت رونما ہورہے تھے جب اس کے جنوب میں پڑوسی عراق اور شام کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی تھی اور شام کی جنگ کی آڑ میں روس اور امریکہ جیسی بڑی قوتیں براہ راست اس میں دخیل ہو چکی تھیں۔ ان پر آشوب حالات میں ترکی کو ان علاقائی اثرات سے محفوظ رکھنا ترکی کے اسلام پسند رہنماوٴں کی بڑی کامیابی ہے ورنہ
کردوں کے حوالے سے تر کی براہ راست اس کی زد میں آ سکتا تھا جبکہ جنوبی ترکی میں انجرلیک کے مقام پر نیٹو کا بڑا اڈہ بھی موجود ہے۔

اس ساری صورتحال کے تناظر میں ایران اور ترکی کے درمیان تاریخی دشمنی کو دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ دجالی کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئیں۔ جبکہ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی تنازعے کو ہوا دے کر عربوں اور ایرانیوں کے درمیان بڑی وسیع خلیج پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی گئی تھی۔ عراق میں صدام حکومت کے خاتے
کے بعد تہران انتظامیہ اس غلط فہی میں مبتلا ہوگئی کہ اب باقی مشرق وسطی میں راستہ صاف ہے۔

یہی غلط فکر اسے شام میں مداخلت کرنے پر آمادہ کرتی ہے عراق، شام اور لبنان میں ایران اور حزب اللہ جیسی شیعہ ملیشیا کی مداخلت دیکھ کر عربوں کو اس سے خوفزدہ کیا گیا کہ اگر اس بڑھتے ہوئے ایرانی رسوخ کو نہ روکا گیا تو یہ آگے چل کر باتی عرب ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس خوف نے عربوں کوخصوصاََ خلیجی ملکوں کو امریکہ سے بھاری قیمت پراسلحہ خریدنے پر مجبور کر دیا۔

یوں امریکہ اور اس کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کی چاندی ہوگئی ایک طرف وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے دجالی ورلڈ آرڈر کی ابتدا کررہے تھے تو دوسری جانب انہیں عربوں کو اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کر رہے تھے۔ اس ساری صورتحال میں جلتی پر تیل کا کام یمن میں ایرانی مداخلت نے کیا جس کے بعد عرب عسکری اتحاد اس خطرے کو روکنے کے لئے یمن کی جنگ میں عملا کود گیا۔

اب ایک طرف عربوں اور ایران کی پراکسی جنگ تھی تو دوسری جانب عراق اور شام میں براہ راست ٹکراوٴ کی صورتحال رونما ہوئی۔ اس ساری صورتحال کا فائدہ امریکہ اور اسرائیل اٹھارہے تھے۔ ایران نے مسلک کے نام پر خطے کی اس جنگ میں اپنا رہا سہا سرمایا بھی جھونک دیا جس کی وجہ سے وہ صورتحال میں مبتلا ہونے لگا جس کی متحمل سوویت یونین جیسی بڑی طاقت بھی نہیں ہوسکی تھی اس کے عوام میں معاشی بدحالی روز بروز مزید جڑ پکڑنے گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ وہاں کئی شہروں میں حکومتی پالیسی کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔

ایرانی ریال تاریخ کی اسفل ترین پر آچکا ہے بلکہ لایا جا چکا ہے۔ اس سارے معاملے میں اب یورپ کہاں کھڑا ہے؟
 اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے میں تجارتی محصولات بڑھانے میں اور عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدے سے نکلنے میں امریکہ نے یورپ کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ ایک طرح سے آمرانہ انداز میں یورپ کو امریکہ نے صرف اپنا فیصلہ سنایا ہے یہ ایسا ہی رویہ ہے جیسا کہ وہ باقی دنیا سے روارکھے ہوئے ہے۔

اس حوالے سے یورپ نے امریکہ کے ان فیصلوں کی سخت مزاحمت کی لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہ کر سکا بلکہ ان فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ یورپی ممالک کا موقف تھا کہ ایران پر پابندیاں اقوام متحدہ کی بجائے امریکہ نے لگائی ہیں اس لئے وہ ان کا پابندنہیں ہوسکتا لیکن پھر اسے خاموشی سے امریکی بالادستی تسلیم کرنا پڑی اور یورپی کمپنیوں نے ایران سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا۔

اس سارے معاملے میں کینیڈا نے یورپ کا ساتھ دیا تھا اس لئے امریکہ نے اسے بھی سبق سکھا دیا۔ سعودی عرب کے ساتھ تنازعہ پر جب کینیڈا نے امریکہ سے مدد چاہی تو امریکیوں نے کمال تکبر سے اس اپیل کوٹھکرا دیا۔ سعودی عرب کے معاملے میں کینیڈا کو سبق سکھانے کی اصل وجہ کینیڈا کا یورپ کا ساتھ دینا تھا ور نہ خود امریکہ اور اس کے یور پی دم چھلے برطانیہ میں سعودی اپوزیشن کے افراد بیٹھے ہوئے ہیں جو سعودی عرب کے خلاف وہاں آرام سے بیٹھ کر پراپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔

اب جبکہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں اور اقتصادی اصلاحات اور لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کی بات کررہے ہیں تو انہیں اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔ جن افراد نے ملکی اور قومی دولت لوٹ کر یورپ میں بینک بھرے ہیں وہ یہاں ہی ہیں ان سے یہ دولت نکلوانے میں سعودی فارمولہ استعمال کیا جانا چاہئے ورنہ جس گھسے پٹے نظام کے تحت یہ معاملات طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں بہت دیر ہوسکتی ہے۔

اداروں نے اگر آج اپنی قوت کا مظاہرہ نہ کیا تو لوگ اس نظام کو لپیٹ دینے کے موڈ میں آجائیں گے۔ کیونکہ امریکہ ننگی قوت کے مظاہرے پر اتر آیا ہے روس، وینزویلا، کینیڈا، ایران اور ترکی کی تازہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا کے حالات تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں جنگ کا میدان مزید گرم ہوگیا ہے، افغان طالبان غزنی میں بیٹھ کر کابل اورقندھار کے درمیان راستہ کاٹ چکے ہیں۔

امریکہ افغانستان میں مزید خفت اٹھانے جا رہا ہے اس لئے خطرہ ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی طور پر بدحال کرنے کے لئے ترکی اور ایران والی پالیسی اختیار کر لے۔اس سے پہلے پاکستان میں موجود چوروں اور لٹیروں پر آہنی ہاتھ ڈال کر ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیکر ملکی معیشت کو سنبھالا دے دیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America Pakistan kay khilaaf iqtisadi hathyaar istemaal kar sakta hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.