دوستی کا دعویٰ ہے ،دشمنوں سا لہجہ ہے

1991 میں سویت یونین کے ٹکرے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ دنیاکی واحد سپر پاور اور تھانیدار بن گیااور ہر جگہ پر اپنی من مانیاں کرنے لگ گیا۔جارج ہربرٹ بش کے ایک مشیر نے 1990 میں ہفتہ روزہ ٹائم کوانٹرویودیتے ہوئے کہاکوئی گدھا بھی سمجھ سکتاہے کہ ہم جوکچھ مشرق سطی میں کررہے ہیں اس کا مقصد صرف ایک ہے ہمیں تیل دیا جائے

Atiq Chaudhry عتیق چوہدری بدھ 22 جنوری 2020

dosti ka daawa hai, dushmanon sa lehja hai
معروف امریکی تاریخ نویس ،مصنف ہاورڈزن (Howard Zinn )نے ویت نام میں امریکی جارحیت کے حوالے سے کتا ب Vietnam :The Logic of Withdrawal لکھی یہ کتاب 1968 میں شائع ہوئی یہ امریکہ میں چھپنے والی اولین کتابوں میں سے ایک ہے جس میں امریکی فوج کوویت نام سے نکل جانے کا مشورہ دیا گیا تھا ۔اس کتاب میں ہاورڈزن نے ویتنام کی جنگ میں امریکی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بے بس لوگوں کی اذیت وکرب کو بیان کیا ہے جواپنے پیاروں کوجنگ میں کھوچکے ہیں یامعذوری کی زندگی گزار رہے تھے ۔

اس کتاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اندر رہنے والے امن پسند دانشور پوری دنیامیں امریکہ کی جارحیت وجنگوں سے انسانی حقوق کی پامالی وانسانی المیہ کی ناصرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اپنے طور پر پوری دنیاکو امریکی عزائم کے آگے بند باندھنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔

(جاری ہے)


اسی طرح ہاورڈزن نے 1970 میں ایک اور کتاب THE Politics of History بھی لکھی جس میں امریکی نظام کے اندر ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے خلاف جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔

مشرق وسطی میں بڑھتی ہوئی حالیہ کشیدگی اور امریکہ کی جانب سے ایران کے اہم جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے منظر کوہمیں معاشی ،سیاسی ،سفارتی و سماجی پس منظر وپیش منظر میں رکھ کرتجزیہ کریں تو بہت سے تلخ حقائق و شوہد سامنے آتے ہیں۔سب سے پہلے اس کے معاشی پہلووٴں کوزیربحث لاتے ہیں اس کے بعد امریکہ کے حملوں اور اس کے نتائج ودنیا پر اثرات اورآخر میں ہم پاکستان پر اسکے اثرات و ممکنہ لائحہ عمل وحکمت عملی زیر بحث لائیں گے ۔

اس وقت مشرق وسطی میں دو گروپ ہیں پہلے گروپ کو ہم امریکہ کے حامی واتحادی ٹیم کہہ سکتے ہیں جس میں سعودی عرب اور اسرائیل سب سے بڑے کھلاڑی ہیں جبکہ دوسری ٹیم جس کو ہم ایران کی ٹیم کہہ سکتے ہیں جس میں عراق ،مصر،شام جن کوحزب اللہ کی حمایت حاصل ہے اور درپردہ روس وچین کی کسی حد تک حمایت حاصل ہے ۔
1991 میں سویت یونین کے ٹکرے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ دنیاکی واحد سپر پاور اور تھانیدار بن گیااور ہر جگہ پر اپنی من مانیاں کرنے لگ گیا۔

جارج ہربرٹ بش کے ایک مشیر نے 1990 میں ہفتہ روزہ ٹائم کوانٹرویودیتے ہوئے کہاکوئی گدھا بھی سمجھ سکتاہے کہ ہم جوکچھ مشرق سطی میں کررہے ہیں اس کا مقصد صرف ایک ہے ہمیں تیل دیا جائے ۔اس بیان کواگر ہم مشرق وسطی کی شورشوں وخانہ جنگیوں ولڑائیوں سے جوڑیں تو اصل جڑ تک پہنچنے میں مدد ملے گی ۔اس وقت دنیامیں جتنابھی تیل ہے اس کا65 فیصد سے زائد حصہ مشرق وسطی میں ہے ۔

امریکہ ان ذخائر پر مکمل کنٹرول حاصل کرکے اس پر اجارہ داری چاہتا ہے ۔ایک اور وجہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت ،اس کے معاشی اثرات ،اس کی دفاعی اہلیت کے ہاتھوں بہت پریشان ہے ۔
امریکہ کے پالیسی سازچین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اپنی سپرپاوروتھانیداری کے لئے ایک چیلنج سمجھتے ہیں ۔جیسا کہ سویت یونین روس کو امریکہ نے گھٹنوں کے بل گرایا تھا اب چین کے لئے بھی ایسے ہی خفیہ عزائم رکھتا ہے ۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلیسن کی کتاب (Destined for war:Can America and China Avoid Thucydides Trap) ایک ایسی کتاب ہے جو لازمی پڑھنی چاہئے ۔جس میں پروفیسر گراہم کہتا ہے کہ توسیڈائڑزٹریپ ایک ایسے خطرناک عمل کانام ہے جس میں ایک پرانی طاقت یہ خطرہ محسوس کرتی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت اس کی جگہ لے لے گی ۔قدیم یونان میں جب سپارٹا کوایتھنزسے خطرہ محسوس ہوا توجنگ ہوئی۔

انیسویں صدی میں برطانیہ کوجرمنی سے خطرہ ہوا،آج چین امریکہ کوچیلنج کررہا ہے۔امریکہ وروس سرد جنگ کے برعکس چین وامریکہ کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں جس سے سرد جنگ کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے وہ ہے ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں برتری ۔اس معاشی جنگ کی ایک جھلک چند ماہ پہلے امریکہ میں چینی موبائل کمپنی پر پابندی و دیگر واقعات سے نظر آتی ہے ۔

دوسرا مشرق وسطی میں روس کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے جس کوکم کرنے کے لئے امریکہ اپنی ہر ممکن کوشش کررہا ہے اس کی وجہ روس و چین کا فطری اتحاد اور چین اور ایران کے درمیان اقتصادی ،عسکری ،اور سیاسی روابط ہیں ۔
چین وہ واحد ملک ہے جوایرانی تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔اسکے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ پچیس برسوں تک 4 سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا سمجھوتہ بھی طے پا چکا ہے ۔

یونانی تاریخ دان توسیڈائڈزکی نام کی مناسبت سے جانے والے ماڈل ”توسیڈائڈزٹریپ “ کا ذکر امریکی تھنک ٹینکوں و دانشوروں میں آجکل کثرت سے ہورہا ہے۔ 
دل نے آنکھوں سے کہی آنکھوں نے ان سے کہہ دی 
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے 
امریکہ معاشی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے جو حربے آزما رہا ہے ان کو سمجھنے کے لئے Frederic Pierucci کی کتاب The American Trap :My battle to expose America s secret economic war against the rest of the world اس کتاب میں مصنف نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ امریکہ کارپوریٹ لا کو کس طرح باقی ممالک کی کمپنیوں کو زیراعتاب لانے کے لئے استعمال کرتاہے تاکہ ان کمپنیوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچا کر امریکہ کی کمپنیوں کو بلواسطہ فائدہ پہنچایا جائے ۔

اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔
امریکہ ایران کشیدگی کو اگر ہم معاشی نقطہ نظر سے دیکھیں تواصل جنگ تیل کی نظر آتی ہے ۔آبنائے ہرمز اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے آبنائے ہرمز ایران اور عمان کے بیچ 39 کلومیٹر طویل راستہ ہے جوخلیج عرب ،خلیج عمان اور بحیرہ عرب کو ملاتا ہے ۔آبنائے ہرمز کے ذریعے مشرق وسطی کی زیادہ تر تیل کی تجارت ہوتی ہے ۔

امریکہ کا ایک خفیہ مقصد اس اہم آبی تجارتی گزرگاہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا بھی ہوسکتا ہے ۔عالمی طاقتوں کی ترقی پذیر ملکوں میں اپنے اثرورسوخ کے شکنجے کو کس طرح مضبوط کرتاہے اس کو دنیا کے مشہور ہٹ مین جان پرکنز نے اپنی کتاب Confessions of an Economic Hitman میں انکشافات کیے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کوقرضے دیکر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور ان کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں ۔

جان پرکنز کے بقول عالمی بنک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے قدرتی وسائل سے مالا مال پسماندہ ممالک کے لئے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں ایسی صورتحال میں ان ممالک کے قدرتی وسائل ،تیل ،گیس اور معدنی وسائل پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کرلیتی ہیں جبکہ ان ممالک کو مغربی ممالک اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور ان کے راستے دفاعی اشیا کی آمدورفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں ۔

پاکستان کے ارباب اختیار کو اس تناظر میں ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کو پڑھ کر سبق حاصل کرنا چاہئے جس میں وہ لکھتے ہیں ” امریکہ پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار رکھناچاہتا ہے تاکہ ہم اس کے رحم وکرم پر رہیں ۔
امریکہ کی سوچ فریب و بددیانتی پر مبنی ہے ۔سابق وزیراعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو نے کہاتھا کہ” سفید ہاتھی میرے خون کا پیاسا ہے“۔

جب سے امریکہ ایران کشیدگی میں اضافہ ہواہے امریکہ نے پاکستان کی طرف پھر دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے پاکستان کی فوجی امداد بحال کی ،مائیک پومپیو کا جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون ،ایلس ویلز کا دورہ پاکستان اور ورلڈ اکنامک فورم میں ٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان سے تیسری ملاقات ۔تجزیہ کاروں کے بقول امریکہ کو پاکستان کی جب بھی ضرورت پڑی اس وقت امریکہ نے پاکستانی قیادت کی خوب آؤ بگھت کی مگر وقت گزرنے کے بعد ایک لمحے میں بدل گیا ۔

امریکی وزیرخارجہ ہنری کسینجر جن کو1971 میں پاکستان نے چین کے خفیہ دورے کی تاریخی سہولت فراہم کی ،جس سے دنیامیں ایک نیا سفارتی نظام قائم ہوا ،انہی کسینجر نے 1972 میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کودھمکی دی کہ اگر ایٹمی پروگرام بند نہ کیاتو تمہیں عبرتناک مثال بنادیا جائے گا ۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن آسمان اس کا کیا ہو
امریکہ نے پاکستان سے معاملات میں ہمیشہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دی ہے جب بھی پاکستان پر نازک وقت آیا تو اس نے غیر جانبداری اختیار کرلی ۔

1965 کی جنگ ہو یا 1971 میں ساتویں بحری بیڑے کی مدد کا وعدہ ،امریکہ نے پاکستان کی نسبت بھارت کو ترجیح دی۔ پاکستان کو ہمیشہ امریکہ کی طرف سے ”ڈومور“ کے مطالبے کا سامنا رہا ہے ۔آجکل اقتصادیات سیاسیات پر غالب ہے ۔وزیراعظم کے دورہ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلہ پر ثالث بننے کے لئے آمادگی ظاہر کی مگر مودی کے پریشر کے بعد اس سے پیچھے ہٹ گئے۔

کشمیر میں جاری 6 ماہ سے ظلم وستم ،کرفیو،لاک ڈاؤن ،انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ختم کرنے لئے بھارت پر پریشر نہیں ڈالا ،یوں کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی ،صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعے پاکستانی قیادت کو خوش کررہا ہے ۔اب امریکہ کو افغانستان سے نکلنے ،طالبان سے مذاکرات اور ایران امریکہ کشیدگی میں پاکستان کو ایران سے دور کرنے کے لئے امریکہ دوبارہ سر توڑ کوششیں کررہا ہے ۔

پاکستانی قیادت کوماضی سے سبق سیکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے آخرکب تک ہم غیروں کی جنگیں لڑتے رہیں گے ؟آخرکب تک ہم غیروں کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہیں گے ؟ ڈالروں کی خاطر ہم کب تک اپنے آپ کو نت نئی آزمائشوں میں ڈالتے رہیں گے ؟ پاکستان کے لئے سب سے پہلے ہمارا اپناقومی مفاد ہے باقی سب ملک بعد میں آتے ہیں ۔

ہمیں دنیا میں ہونے والی نئی صف بندیوں کوسمجھنا ہوگا اور نئی معاشی ،سیاسی ،عسکری اور مالیاتی سرد جنگ کے Dynamics کو سمجھنا ہوگا ۔امریکا ہندوستان کا اسٹریٹیجک اتحادی ہے امریکہ پاکستان کا اتحادی کبھی نہیں بن سکتا ۔مگر اس کی دوستی فائدہ مند جبکہ دشمنی نقصان دہ ہے ۔پاک امریکہ تعلقات کو اب چین بھی بہت گہری نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ سی پیک اور OBOR منصوبہ کی وجہ سے چین کے اس خطے میں بہت سے اسٹریٹجک مفادات وابسطہ ہیں اور چین نے ہر مشکل میں پاکستان کاساتھ دیا ہے پاکستان کے لئے ایک اہم چیلنج چین اور امریکہ تعلقات میں بیلنس رکھنا بھی ہے ۔

اسی طرح پاکستانی قیادت وپالیسی سازوں کے لئے ایران و سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بیلنس رکھنا سب سے اہم چیلنج بنتا جارہا ہے ۔ پاکستان امریکہ ایران میں ثالثی کی کوشش بھی کررہا ہے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقاتیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان اس پوزیشن میں بھی ہے کہ وہ ثالثی کرواسکے ؟ یانہیں ؟ ایک اور اہم سوال اس مسئلہ پر جب پاکستان داخلی طور پر بہت سے بحرانوں کا شکار ہے ایسے میں اس معاملے پر کب تک غیر جانبدار رہ سکتا ہے ؟وزیراعظم عمران خان پاکستان کے امریکی جنگوں میں اتحادی بننے کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں اب عنان اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے تو دیکھنا ہوگا کہ وہ اس اہم معاملے پر بھی باقی بہت سے معاملات کی طرح یوٹرن تو نہیں لے لیں گے اس سوال کا جواب توآنے والا وقت ہی دے گا ۔

کسی شاعر نے امریکہ کی دوستی پر کیا خوب شعر لکھے ہیں 
دوستی کادعوی ہے ،دشمنوں سا لہجہ ہے 
حد بھی پارکرتے ہو،روز وار کرتے ہو
سازشوں کے عادی ہو،کیسے اتحادی ہو؟
خون بھی بہاتے ہو،پیار بھی جتاتے ہو
کتنے گھر گرائے ہیں ،کتنے ظلم ڈھائے ہیں 
نفرتوں کے عادی ہو،کیسے اتحادی ہو؟ 
سیکڑوں جواں لاشے ،ملک بھر میں ہیں بکھرے 
دشمنوں سے جنگوں میں ،کھوئی تھیں نہ یوں جانیں 
وحشتوں کے عادی ہو،کیسے اتحادی ہو؟ 
مانگتے مدد بھی ہو،چاہتے رسد بھی ہو
دھونس بھی جماتے ہو،حکم بھی چلاتے ہو
دھمکیوں کے عادی ہو،کیسے اتحادی ہو؟
چین اپنا غارت ہے ،کیسی یہ شراکت ہے ؟ 
دہر بھر میں رسوابھی ،طعنوں کا نشانہ بھی 
تہمتوں کے عادی ہو،کیسے اتحادی ہو؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

dosti ka daawa hai, dushmanon sa lehja hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 January 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.