انقلابی مراث نہیں مرتی

مقبول بٹ نے ایک عدالت میں پیش کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ میں کشمیر میں ظلم، جبر، جہالت فرسودگی، دولت پسندی، غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں

 Rashid baghi راشد باغی ہفتہ 8 فروری 2020

inqalabi meraas nahi marti
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں سرمایہ دارنہ نظام کی ناکامی اور نامرادی نے عیاں ہونے کے ساتھ جہاں کہیں تھوڑے استحکام کے بعد جو پرولتاریہ پچھلی ایک صدی کی بار بار بغاوتوں سے اپنے جینے اور بڑھنے کے خواب بھی تخلیق کر رہا تھا وہ عالمی طور پر پہلے سے زیادہ اپنے حقوق کے لیے سنجیدہ اور لڑاکا پرت میں بھی نمودار ہو رہا تھا ایک طرف جہاں 1917ء کا روس انقلاب اور پھر 1949ء چین کا انقلاب محکوموں, مظلوموں اور محنت کشوں کے لیے عالمی طور پر ایک حوصلہ, ہمت اور رجائیت کا باعث بنا تھا اس لیے جب عالمی طور پر کسی ایک ملک میں بڑی انقلابی تحریک جنم لیتی ہے تو وہ پھر سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ سرحدوں کے آر پار منصوعی دشمنیاں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں اور محنت کشوں کے ساتھ سرحد پر کھڑے سپاہی بھی ان انقلابی تحریکوں کی تازہ ہواؤں کی یکجہتی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور جب محنت کش طبقے کے اندر تحرک موجود ہو اور اُس تحرک کو جب انقلابی پارٹی انقلابی قیادت میسر ہوں تو انقلاب نہ صرف برپا ہوتے ہیں بلکہ کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتے ہیں اور انقلابی تحریکیں اپنی قیادتیں جو خود تراش رہی ہوتی ہیں اور وہ انقلابی قیادتیں بھی عموما محض حادثہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ قیادتیں اُسی طبقے سے ہوتے معروض کو سمجھتے طبقے کے متحرک ہونے سے پہلے بھی اُسی طبقے کی جانب دار ہوتی ہیں جو ظلم, ناانصافی عدم تحفظ کے خلاف لڑ رہی ہوتی ہے اُن کی آواز بن رہی ہوتی ہے اور کوئی بڑی قربانی دینا اغزاز سمجھتی ہے اور انقلاب جب کامیاب یا ناکام ہو جاتے ہیں اِن انقلابات میں قیادت کرنے والوں کی تکلیفیں, مصائب اور نظریات کے لیے کٹ مرنے والوں کی جدوجہد محنت کش, اور نوجوان کے لیے جوش جذبہ ہمت اور نظریات پر چلنے کا حوصلہ ہوتی ہے اور بعض و اوقات جب محنت کش طبقہ اور نوجوان رد انقلاب کے بعد مایوس ہو جاتے ہیں تو وہی انقلابیوں کے درست نظریات لاشعور میں پردہ کیے محض عقیدت میں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر اُنقلابیوں کے انقلابی کردار کو مسخ کرتے شخصیت پرستی جاری رہتی ہے۔

(جاری ہے)


 پچھلی صدی نے جہاں بے شمار انقلابیوں کو جنم دیا جو مختلف خطوں میں ہوتے ہوئے بھی اپنی جدوجہد اور انقلابی نظریات کی حامل اتنی لازوال جدوجہد اور قربانیاں ورثے میں چھوڑ گے جو کسی ایک خطے میں نسل,علاقے,قوم,مذہب سے بالاتر تمام دنیا کے انسانوں کے انقلابی شعور کے ترجمان بنے اُن میں چائے ہندوستان سے بھگت سنگھ ہو روس سے لینن،ٹراٹسکی، ارجنٹائن جیسے ملک سے چی گیوریا ہو ان جیسے بے شمار ناموں کے ساتھ مقبول بٹ بھی جو اِسی خطے بر صغیر کی ایک ریاست کشمیر سے ہے یہ تمام انقلابی تمام دنیا کے انقلابیوں کے حوصلوں کے لیے آج بھی مشعل راہ ہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جہاں پوری دنیا میں تحریکیں موجود تھی ان تحریکوں کے اثرات جہاں ہر شخص پر پڑ رہے تھے اِن تحریکوں کی موجوں کی حرارت نے ایک شخص جس کو بہت زیادہ متاثر کیا جو ان دنیا بھر کی تحریکوں کے علاوہ بھی ہندوستان کے بٹوارے کا عینی شائد تھا جس کی آنکھ کھلنے کی چند ہی سالوں بعد سات ہزار سال کی تہذیب کو خونی لکریں کھینج کر تقیسم کیا گیا تھا اور غربت,بھوک,نا انصافی لاقانوینت آج کی طرح اِس خطے کی مقدر بن چکی تھی یہی ہونے والے واقعات اُس شَخص کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑ رہے تھے انہی کھٹنائیوں اور دنیا بھر کے انقلابیوں کے حوصلوں نے اِس شخص کی زندگی میں ایک انقلابی روح پھونک دی تھی جس نے اپنی زندگی میں بے پناہ مصائب,تشدد کے ساتھ سچے آدرشوں کے لیے جان کا نظزانہ پیش کرتے نہ صرف اپنی دھرتی کے انسانوں بلکہ دنیا بھر کے انقلابیوں کو اپنی باک جرتممنداہ جدوجہد کا پیغام دے کر انقلابیوں کے حوصلوں کو جلا بخشی وہ عظیم انقلابی مقبول بٹ تھا مقبول بٹ شہید 1938ء کو کشمیر کے ایک گاوں ہندواڑہ میں پیدا ہوا اور جدید سرمایہ درانہ نظام کی غلامی کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا مقبول بٹ ایک کسان غلام احمد بٹ کے گھر پیدا ہوا 1954ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اُس نے بارہمولہ کے سینٹ جوزف کالج میں داخلہ لیا تعلیم کیساتھ ساتھ مقبول بٹ ملکی سیاست کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کرتے رہے سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونے پر اُن کے وارنٹ گرفتاری ہوئے اور ساتھ بی اے امتحان بھی تھے چھپ چھپا کر امتحان دیے پہلی باراپنے چچا عبدالعزیز بٹ کیساتھ پاکستانی مقبوضہ کشمیر آیا اُس کے چچا محنت مزدوری کیلئے آیا کرتے تھے 1947ء سے پہلے آر پار کشمیر آنا جانا کوئی بڑی اور مشکل بات نہیں تھی سیز فائر لائن پر سختی نہیں تھی کچھ دن مظفر آباد اور ایبٹ آباد گزارنے کے بعد لاہور چلا گیا اپنی تعلیمی معاملات کو ساتھ رکھا اور ایم اے کی ڈگری 1960 میں پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔

 1961 میں کے ایچ خورشید کی صدارت کے دوران آزاد کشمیر میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہوے اور مقبول بٹ جیت گیا 1963 میں کشمیر کی تقسیم کی تجویز پاکستان اور بھارت کی طرف سے آئی جس پر آپ نے بڑے غصہ کا مظاہرہ کیا اور اس سازش کے خلاف کشمیر انڈیپنڈنس کمیٹی قائم کی بعد میں مقبول بٹ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حق خودارادیت کے حصول کیلئے منظم مطالبہ اور جدوجہد کرنے کی ضرورت محسوس کی لہذا اس مطالبے کے پیش نظر محاذ رائے شماری کے نام سے بننے والی تنظیم کا پبلسٹی سیکرٹری منتحب کیا گیا سوشلزم کے بنیادی اصولوں پر بننے والی یہ تنظیم ابتدائی چند سالوں میں ہی بہت زیادہ مقبول ہو گئی مقبول بٹ نے ایک عدالت میں پیش کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ میں کشمیر میں ظلم، جبر، جہالت فرسودگی، دولت پسندی، غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں بعض میں ایک تقریر میں مقبول بٹ نے بہت واضح الفاظ میں کہا آزادی سے ہمارا مطلب کشمیر کی مقدس دھرتی سے غیر ملکی تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بھوک، پیاس، افلاس، جہالت اور سماجی و معاشی ناہمواری کو شکست دینا بھی ہے۔

عالمی طور پر جہاں روس اور چین کے انقلاب اپنی نظریاتی زوال پذیری اور افسر شاہانہ مزاج کے باعث قومیائی ہوئی معشیتیں افسر شاہانہ ریاستیں بن چکی تھی جن کا کردار بھی عالمی سرمایہ دارنہ نظام میں خصوصا 1946ء کے یالٹا معاہدے کے بعد پوری دنیا کی بندر بانٹ رہا گی تھی قومیائی گئی ریاستوں کی تشکیل کے ماڈل کے ہوتے ہوئے بھی مقبول بٹ کے بنیادی نظریات کے پرچار میں تنگ نظری نہیں تھی بلکہ اُس کا کہنا تھا ہم اپنی آزادی کی جدوجہد میں دونوں ریاستوں پاکستان اور ہندوستان کے عیار حکمرانوں کے اعصاب پر سوار رہیں گے اور ہماری سیاست میں یہ واضح ہے ہم پوری دنیا کے محکوم مظلوم انسانوں کی بھی آواز ہیں اور اُن سے رابطے،تعلق بنانا ہمایت لینا دینا ہماری جدوجہد میں جاری رہے گا مقبول بٹ سمجھتا تھا دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو اُس میں ظالم اور مظلوم برسرپیکار رہتے ہیں استحصال کرنے والے اور اسحتصال ذدہ میں ہمارا تعاون اور ہمایت استحصال ذدؤں کے لیے ہمیشہ اور کھلے دل سے رہے گا ایک موقع پر ایسے ہی مقبول بٹ نے 
پاکستان کے اسپیشل کورٹ میں یہ للکار کر کہا میں نے زندگی کے ہر موڑ پر حق و انصاف کا ساتھ دیا ہے اور ظلم و استحصال کے خلاف مصروفِ جنگ عوام کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس جنگ میں مظلوم عوام کا نقیب اور مدعی رہا جہاں مقبول بٹ نے اپنے زندگی کے پندرہ سال پاکستان اور ہندوستان کے جیل خانوں میں قید با مشقت اور جبر میں گزارے ہیں وہاں مقبول بٹ کو دونوں ریاستوں کے اعلی عدلیہ میں غداری کے الزام اور بے شمار تہمتوں کا سامنا تھا جو دونوں پاکستانی اور ہندوستانی ریاستیں ہندوستاتی ریاست پاکستان کا ایجنٹ اور پاکستانی ریاست ہندوستان کا ایجنٹ سمجھتی تھی لیکن مقبول بٹ بار بار واشگاف الفاظ میں وضاحت کرتے رہے میں تماری کسی ایک ریاست یا دونوں ریاستوں کا ایجنٹ نہیں بلکہ مجھے کہنے میں کوئی باک نہیں میں مظلوموں, محکوموں اور کشمیری عوام کا نمائندہ ہوں جہاں تماری ریاستیں غیر قانونی قبضہ جمائے ہوئی ہیں میں اس عمل کی مخالفت میں با آواز بلند ہوں جہاں وہ عہد مختلف ریاستوں میں سیاسی سماجی جکڑ سے آزادی اور انقلاب کے لیے سوشلسٹ نظریات کی مکمل پختگی نہ ہونے کے باعث انقلابیوں کو مہم جوہی اور گوریلا وار جیسی جدوجہد کے لیے بھی اُکسا رہا تھا جو ایک عہد مختلف خطوں میں مختلف سماجی سیاسی کیفیت میں کہیں درست یا نقصان دہ عمل بھی ہو سکتا ہے ۔

گوریلا وار اور سوشلزم کے نظریات کے ساتھ جس طرح چی گیوریہ نے ایک انقلاب کی قیادت کی اور انقلاب برپا کیا ایسے مقبول بٹ بھی گوریلا وار اور انقلابی نظریات سے متاثر نظر آتا ہے اِسی ضمن اُس نے بھی ایک وقت میں ایسا راستہ ٹھانے کی کوشش کی 10 جون 1966ء کو مقبول بٹ گلگت کے ایک طالب علم اورنگزیب، عامر احمد اور کالا خان کے ساتھ گوریلا جنگ کی تیاری اور رضاکاروں کی بھرتی کے لیے کیل سیکٹر سے جنگ بندی لائن کے سے پار بھارتی مقبوضہ چلے گے سرینگر میں اپنے قیام کے دوران مقبول بٹ وجی احمد اندرابی کے گھر پر قیام پذیر رہے اور اسی دوران وہ وزیراعظم غلام محمد بخشی سے بھی ملے جنہوں نے مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔

 غلام محمد بخشی سے خون کی سیاہی سے کاغذ پر عہد لیا گیا۔ بھارتی سیکورٹی فورسز کو مقبول بٹ کی سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور انہوں نے مقبول بٹ کے خفیہ ٹھکانے کو تلاش کر لیا۔ 14 ستمبر 1966ء کو سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں اُس کا ساتھی اورنگزیب شہید ہو گیا جبکہ کرائم برانچ سی آئی ڈی کا انسپکٹر امر چند بھی اس جھڑپ میں مارا گیا۔

مقبول بٹ کو دو ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور سری نگر سنٹرل جیل میں قید کر کے مقبول بٹ پر بغاوت اور امر چند کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ انڈین پینل کوڈ کے دشمنی ایکٹ 1943ء کے تحت قائم کیا گیا۔ اگست 1968 میں کشمیر ہائیکورٹ نے مقبول بٹ کو اس مقدمے میں سزائے موت سنائی۔
مقبول بٹ نے عدالت کے فیصلے کے بعد جج کو مخاطب کر کے کہا ”جج صاحب! وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کے لئے پھانسی کا پھندہ بن سکے پھر کچھ ہی عرصے بعد مقبول بٹ جیل کی دیوار توڑ بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور وہاں سے ہوتے برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے 23 دسمبر 1968ء کو چھمب کے مقام سے پاکستانی کشمیر میں داخل ہوئے۔

مگر 25 دسمبر 1968ء کو اُس کو گرفتار کر کے مظفرآباد کے بلیک فورٹ میں قید کر دیا گیا جہاں آپ پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ تاہم محاذ رائے شماری، این ایل ایف اور این ایس ایف کے زبردست مظاہروں کے بعد آپ کو 8 مارچ 1969ء کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد آپ نے سیاسی سرگرمیوں پر تمام تر توجہ مرکوز کی اور نومبر 1969ء میں آپ کو محاذ رائے شماری کا مرکزی صدر بنا دیا۔

30 جنوری 1971ء کو تربیت حاصل کر کے دو نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے بھارت کا طیارہ اغواء کیا اور اسے لاہور لے 
آئے۔ ہائی جیکروں نے بھارتی جیلوں میں قید این ایل ایف کے دو درجن کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر بھارت نے اس مطالبے کو تسلیم نہ کیا چنانچہ مسافروں کو کو رہا کرنے کے بعد یکم فروری 1971ء کو طیارے کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔

 مقبول بٹ کے اس اقدام نے مسئلہ کشمیر کو نہ صرف نئی زندگی عطا کی بلکہ دنیا کے سامنے نہایت طاقتور انداز میں پیش بھی کیانام پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں سردار قیوم خان کی حکومت تھی۔ سردار قیوم نے اپنے بھائی غفار خان کو مقبول بٹ کے پاس یہ تجویز دے کے بھیجا کہ آپ اعلان کریں کہ یہ طیارہ المجاہد فورس کے مجاہدین نے اغواء کیا ہے۔

اس کے بدلے میں آپ کو منہ مانگی دولت اور آزادکشمیر کے اقتدار میں حصہ دینے کی پیشکش کی گئی مگر مقبول بٹ نے اس سودا بازی کو ٹھکرا دیا۔ اور پھرحکومتِ پاکستان نے کوہاٹ میں مقبول بٹ کے ساتھ مذاکرات کیئے اور مقبول بٹ کو پاکستان کی شرائط کے مطابق کام کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کی گئی مگر مقبول بٹ نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔
جب پاکستان کی جیل سے مقبول بٹ اور اِن کے ساتھیوں کی رہائی ہوئی تو پاکستان میں پاکستان پپیلزپارٹی کی حکومت بن چکی تھی رہائی کے بعد مقبول بٹ کی ملاقات ذولفقار بھٹو سے بھی منگلا کے مقام پر ہوئی جس ملاقات میں مقبول بٹ کو بھٹو نینام پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی وزارت عظمی کی پیشکش کی لیکن مقبول بٹ یہ کہہ کر پیشکش مسترد کر دی جب تک ہمارے درمیان آر پار باڑ کو ختم نہیں کیا جاتا ایک منقسم ریاست جوڑ کر کشمیر نہیں بن جاتی اُس وقت تک میری دھرتی آزاد نہیں میں آزاد نہیں یہ کشمیری عوام آزاد نہیں جب تک یہ غیر ملکی فوج یہاں سے نہیں نکل جاتی مجھے ایسی وزارت کی کوئی ضرورت نہیں اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی مقبوضہ آزاد کشمیر میں اپنا وجود بنا چکی تھی ایک طرف این ایل این اور محاز رائے شماری ٹوٹ کر بکھر چکی تھی جنہیں جلدی منظم کرنا ممکن نہیں تھا اور مقبوضہ کشمیر میں پہلی بار ریاستی الیکشن پیچھلی آمرانہ حکومت جو کبھی بھی وہاں کی عوام کے نمائندے نہیں رہے اُن کے مقابلے میں ایک جمہوری الیکشن کے طریقے کار کا آغاز ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار بھی میدان عمل تھے یہاں مقبول بٹ نے بھی محاز رائے شماری کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا لیکن محاز رائے شماری کے پسپا ہونے کے باعث اور ایک منظم دھاندلی کے ذریعے مقبول بٹ کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔

مسلسل کوششوں کے باوجود محاز رائے شماری میں وہ جان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں مقبول بٹ اور اس کے ساتھی دوبارہ عوامی رابطہ بحال کرنے میں ناکام ہو رہے تھے اس دوران مقبول بٹ نے ایک بارپھر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں جانے کا فیصلہ کر لیا اور چنانچہ 1976ء میں مقبول بٹ چند ساتھیوں سمیت پھر جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔

مگر چند دن بعد ہی اُس کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور سابقہ مقدمے کی فائل دوبارہ کھول دی گئی۔ عدالت نے آپ کی سزائے موت کو برقرار رکھا یوں آپ کو سرینگر سے تہاڑ جیل دہلی منتقل کر دیا گیا۔
آٹھ سال بامشقت قید اور جان لیوا اذیتوں میں مقبول بٹ جو سلاخوں کے پیچھے بھی اپنی جدوجہد آزادی سے انکار نہیں کیا اِسی دوران کچھ آزادی پسند نوجوانوں نے برطانیہ کے شہر برمنگھم میں بھارتی قونصل خانے کے ایک کلرک رویندرا مہاترے کو اغوء کر کے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر تین دن بعد ہی مہاترے کی لاش ایک کھیت سے ملی۔

بھارتی حکومت نے فی الفور مقبول بٹ شہید کو پھانسی دینے کا اعلان کر دیا۔ میاں سرور، مظفربیگ، ظفر معراج اور کپل سیبل نے مقبول بٹ کو بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ یوں گیارہ فروری 1984ئکی صبح مقبول بٹ شہید کو تختہ دار پر جھلا دیا گیا۔
 مقبول بٹ نے ہمیشہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت پر زور دیا وہ سمجھتا تھا بغیر نظریات اور منظم جدوجہد کے نہ کوئی آزادی کی جنگ لڑی جا سکتی ہے اور نہ ہی جیتی جا سکتی ہے مقبول بٹ کشمیر کے روایتی سیاست دانوں کی طرح دودھ پینے والے مجنوں نہ تھا بلکہ لیلیٰ کی آزادی کیلئے جان نثار کرنے والے رہنما تھا اس لیے کشمیر کی تحریک آزادی میں اُن کا ایک واضح مقام ہے اور تمام کشمیری ماسوائے چند ایک گمراہ سیاستدانوں یا اُن کے دام میں آئے ہوئے لوگوں کے سیاسی نظریات کی تخفیف کے بغیر مقبول بٹ کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کا ہیرو مانتے ہیں۔

 اُس نے تحریک آزادی کشمیر کی خاطر نہ صرف اپنی جوانی بلکہ اپنے بال بچے اور اپنا مستقبل بھی قربان کر دیا جبکہ آج اکثر سیاسی رہنماؤں اور موجودہ عسکری تنظیموں کے لیڈروں نے تحریک آزادی کشمیر کو اپنا ذریعہ آمدن بنایا ہوا ہے۔ کچھ لوگ تو ”کشمیر بنے گا پاکستان“ اور کچھ ”کشمیر بنے گا ہندوستان“ کا نعرہ لگا کر کشمیریوں، پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے جذبات سے کھیل نفرتیں پیدا کر رہء ہیں اور اپنا پیٹ پال رہے ہیں لیکن مقبول بٹ نے نہ تو ہندوستانی یا پاکستانی عوام سے دھوکہ کیا اور نہ ہی کشمیریوں کا استحصال کیا۔

وہ صرف اور صرف ظلم اور ظالم کے خلاف تھے۔ 
مقبول بٹ اُن سے کھلی جنگ لڑنے کا داعی تھا لیکن اِس آزادی کے داعی کو پاکستان ہندوستانی میڈیا چینلوں,اخبارات نے کبھی جگہ نہیں دی اگر دی بھی ہے تو مقبول بٹ کی جدوجہد اور نظریہ مسخ کر کے مذہبی رنگ دینے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے گمراہ ہی کیا ہے لیکن کشمیری عوام جب بھی عوامی تحریکیں ابھری ہیں وہ وادی میں جموں,لداخ یا پھر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں جو نوجوان سیاسی شعور رکھتے ہیں چھوٹی بڑی تحریک میں نوجوان محنت کش مقبول بٹ کی جدوجہد اور قربانی کو نہیں بھولے کوئی ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں ’شہید مقبول بٹ‘ کے نعرے نہیں گونجتے گلی کوچوں سے جموں وکشمیر کے ہر ایک شہر اور قصبے سے ہر چوراہوں سے’زندہ باد مقبول بٹ زندہ باد‘ کے فلک شگاف نعرے ایک آزادی پسند استعماریت جبر سرمایہ داری کے خلاف سچاہی کی گواہی دیتے ہیں سچے آدرش کتابوں سے تو مٹائے جا سکتے ہیں لیکن انسان کی سوچ اور لبوں سے ہمیشہ ہمیشہ اوجھل اور چھینے نہیں جا سکتے آج عالمی طور پر سرمایہ دارنہ نظام کی زوال پذیری بڑھتے ہوئے بحرانات میں دنیا بھر کی کل کی مستحکم ریاستیں بھی بھوک,افلاس,اور خون فشار کیفیت سے دور چار انسانیت پہلے سیزیادہ سسک رہی ہے۔

 اِس کیفیت میں کشمیر کی آزادی اور دنیا بھر کے انسانوں کے مستقبل کا سوال پہلے سے زیادہ سنجیدہ پُر پیج نویت کا معمہ بن چکا ہے ایک نظام کی بین الاقوامیت میں جہاں سیاست,ثقافت اور جنگیں بین الاقومیت کا روپ دار چکی ہیں اقلیت اکثریت کے مقدر کے فیصلے کر رہی ہے وہاں کشمیر کی آزادی وحدت,پہچان کے ساتھ عالمی طور اِس نظام کی خونی دلدل سے چھٹکارے کے لیے تمام انسانیت کی آزادی طبقاتی جڑت میں مضمر ہے اور طبقاتی جڑت کے ذریعے ہی بر صغیر اور دنیا سے استحصال مٹانے کے ساتھ مقبول بٹ اور دنیا بھر کے انقلابیوں کی قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے آخر میں مقبول بٹ شہید کے الفاظ میں تم مجھے پھانسی پر لٹکا کر آزادی کی جدوجہد نہیں روک سکتے اصل جدوجہد میرے مرنے کے بعد شروع ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

inqalabi meraas nahi marti is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.