مودی کی عالمی دہشت گردی

”کرونا“ کی آڑ‘میں قتل و غارت اور خواتین کی آبرو ریزی معمول بن چکی ہے

بدھ 18 نومبر 2020

Modi Ki Aalmi Dehshaat Gardi
زاہد شفیق طیب
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019ء کو آئین کے آرٹیکل 35-A (370) کو لوک سبھا کی منظوری کے بعد ترمیم کرتے ہوئے ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کرکے مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہوئے کشمیریوں پر 10 لاکھ بھارتی فوج کی شکل میں موت کا پہرہ لگا دیا جس سے ریاست جموں و کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو گئی۔

85 ہزار مربع میل پر مشتمل ریاست جموں و کشمیر میں امن کے ٹھیکیدار عالمی سامراج کے گماشتوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ریاست کی تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رکھا ہے،4 ہزار مربع میل پر نیم خود مختار آزاد کشمیر حکومت 28 ہزار مربع میل پر مشتمل،گلگت بلتستان 13 ہزار،لداخ،اقصائے چن جو 1960ء سے چین کے زیر تسلط جبکہ 40 ہزار مربع میل پر بھارت کا جبری قبضہ برقرار ہے۔

(جاری ہے)

ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے حالات ہمیشہ ان کے مخالف رہے لیکن یہ دن بدن گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔
آر ایس ایس کے غنڈوں نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانا روز کا معمول بنایا ہوا ہے،علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے کے باعث جموں وادی،لداخ میں کرونا وائرس کا شکار 935 کشمیری لقمہ اجل بن گئے جبکہ 60 ہزار کے لگ بھگ شدید متاثر ہوئے ہیں۔

نریندر مودی کو گجرات میں ہندو مسلم فسادات کا ذمہ دار قرار دے کر امریکہ نے ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا،واضح رہے کہ ان فسادات میں 28 ہزار مسلمانوں کو دن دیہاڑے قتل کروایا گیا تھا۔مودی کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کیلئے اب عالمی سطح پر آواز بلند ہو رہی ہیں لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کی محافظ بڑی طاقتوں نے ناصرف خاموشی اختیار کی ہوئی ہے بلکہ مودی کو وزیراعظم بنانے کیلئے بھاری سرمایہ کاری بھی کی۔


بھارتی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر میں 1 لاکھ گورکھ فوجیوں کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کیلئے بھارتی حکوت جہاں ریاست میں لاک ڈاؤن کے نام پر اغواء ماروائے عدالت قتل،خواتین کی آبرو ریزی،لوٹ مار کشمیری املاک کو دن دیہاڑے نذر آتش کرکے اسرائیلی ماڈل کی طرز پر کام کرکے نہتے کشمیریوں پر ظلم وجبر کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے۔

بھارتی فوج کی فائرنگ سے کئی بار معصوم بے گناہ بچے سکول جاتے ہوئے شہری آفس جاتے ہوئے،گھروں میں کھانا پکاتی عورتیں شہید ہو گئیں۔مودی حکومت نے یہ نعرہ عام کر دیا ہے کہ ”جموں و کشمیر میں شادی کرو اور مستقل شہریت حاصل کرو“۔ریاست میں تمام مساجد و مدارس کو شہید کرکے بھارتی سرکار نے 50 ہزار مندروں کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے فنڈز مختص کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

14 اگست 1947 ء سے 2000ء تک 179 ممالک آزاد و خود مختار ہو کر دنیا کے نقشے پر ابھرے لیکن فلسطین، ریاست جموں و کشمیر 2 ایسی ریاستیں ہیں جہاں عالمی امن کے علمبرداروں کی پشت پناہی پر وہاں کی حکومتیں انسانی حقوق کی پامالی کیلئے دہشت گردی کا ناچ نچا رہی ہیں لیکن کوئی بھی ان کی آواز سننے کیلئے تیار نہیں،الٹا آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے۔


1995ء میں ریاست جموں و کشمیر کی کل آبادی کا تخمینہ 1 کروڑ 34 لاکھ لگایا گیا جس کے مطابق ہندوستانی مقبوضہ کشمیر 80 لاکھ،آزاد کشمیر و گلگت بلتستان 35 لاکھ مہاجرین جموں و کشمیر مقیم،پاکستان 15 لاکھ،برطانیہ میں رہائش پذیر کشمیری 3 لاکھ،امریکہ عرب ممالک افریقہ میں 11 لاکھ کشمیری موجود ہیں۔کشمیریوں کی کل آبادی 1 کروڑ 34 لاکھ بنتی ہے۔دریائے گلگت کے کنارے ایک خوبصورت سیرگاہ خیار باغ ہے جہاں 1947-48ء کے شہدا کی یادگاریں ہیں جبکہ فاتح گلگت بلتستان کرنل مرزا حسن خان جرال کی آخری آرام گاہ بھی یہیں موجود ہے جن کے خاندان کو گلگت بلتستان سے زبردستی بدر کرکے ان کو املاک کو مسمار کر دیا گیا۔

گلگت بلتستان بلند ترین چوٹیوں کی تعداد 150 ہیں جو 23000 سے لے کر 28000 تک بلند ہیں۔ جموں و کشمیر میں گلیشیر کی تعداد 86قطبین کو چھوڑ کر سیاچین گلیشیر دنیا دوسرا بڑا گلیشیر ہے، لمبائی 60 میل رقبہ 450 مربع میل ،اور اس کا راستہ بلتستان کی وادی خپلو سے ہو جا کر جاتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق گلگت کا اصل نام گل گد تھا جو ترکی کی زبان کے الفاظ ہیں جن کے معنی آتا جاتا،یہ ایسا پڑاؤ تھا جہاں بہت زیادہ آمد ورفت رہتی تھی،تجارتی قافلے یہیں پڑاؤ کرتے،یہی نام بدل کر گلگت ہو گیا،اصل نام گلیت،شینا ادب میں گلگت کیسے آج بھی گلیت استعمال ہوتا ہے۔

بلتستان جس کے ا یک حصے کو بلور کالان،دوسرے کوبلور خورد کہا جاتا تھا پانچویں صدی سے یہی نام رائج تھا۔36 قبل از مسیح میں معروف چینی سیاح فاہین نے سنکیانگ سے اسکردو کا سفر کیا تواس علاقے کا نام پلول تھا،اسلامی دور میں اس کو بلتستان کا نام دیا گی۔مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے دوران 60 سے زائد بھارتی فوجیوں نے خود کشی کی ۔سکیورٹی فورسز نے 175 آپریشنز میں 180 حریت لیڈروں کو قتل کیا جبکہ جھڑپوں میں 19 پولیس اہلکاروں سمیت 55 فوجی بھی جہنم واصل ہوئے۔

ریاست جموں کشمیر کے 3 ہزار سکھوں نے بری طرح نظر انداز کرنے پر مودی حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے کئے،سکھ لیڈر بلدیو سنگھ رانا کا کہنا تھا ریاست میں باہر سے آنے والوں کو ہر سطح پر تعلیم سمیت تمام مراعات دی جا رہی ہیں۔ریاست میں صدیوں سے رہنے والے سکھوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Modi Ki Aalmi Dehshaat Gardi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.