پاکستان اور سعودی عرب مثبت تبدیلی میں ساتھ ساتھ

سعودی ولی عہد کا تاریخی دورہ پاکستان تاریخ سازسرمایہ کاری نے پاک سعودی تعلقات میں نئی روح پھونک دی

بدھ 20 فروری 2019

Pakistan aur Saudi arab musbet tabdeeli mein sath sath
 محمد انیس الرحمن
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اس لئے بھی تاریخی نوعیت کا حامل ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ وہ اپنے ساتھ پاکستان کے لئے جو معاشی پیکج لائے ہیں اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔
سعودی ولی عہد کو اس تاریخی دورے کے دوران پاکستان کا اعلیٰ ترین ایوارڈدیا گیا سعودی عرب پاکستان اور پاکستانی عوام کا اہم ترین دوست سمجھاجاتا ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی فراخد لانہ مدد کی ہے ۔

حالات کیسے ہی کیوں نہ رہے ہوں یا یہاں کسی بھی قسم کی حکومت ہو سعودی عرب نے ہمیشہ ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھا ہے ۔
ان تاریخی تعلقات کی جڑیں کہاں تک ہیں اس حوالے سے ایک واقعے سے ہی اس کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے پاکستان کے تعلقات قیام پاکستان سے پہلے سے قائم ہیں جس وقت اس مملکت خداداد کے قیام کے لئے مسلمانان ہند جدوجہد کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

یہ 1946ء کی بات ہے یعنی قیام پاکستان سے ایک برس قبل کی جب قائد اعظم کے ساتھی ابو الحسن اصفہانی کی قیادت میں تحریک پاکستان کا ایک وفد نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دروازے پر کھڑا تھا۔
اقوام متحدہ کے قیام کو ایک برس ہو چکا تھا یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945ء کو اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور اب وہاں اسرائیل کے ناجائز قیام کے سلسلے میں قرار داد پیش کی گئی تھی جس کی مخالفت میں شاہ فیصل شہید جو اس وقت شہزادے تھے اسرائیل کے اس ناجائز قیام کے خلاف دھواں دار تقریر کررہے تھے اس زمانے میں شاہ فیصل شہید کے والد شاہ عبدالعزیز سعودی عرب کے بادشاہ تھے ۔

تحریک پاکستان کے وفد کو اقوام متحدہ کی عمارت کے اندر جانے کے لئے اس لئے اجازت نہیں تھی کہ ادارہ ملکوں کے نمائندوں کے لئے تھا نہ کہ تحریکوں کے لئے ۔
اس لئے جس وقت شاہ فیصل کو اس بات کی خبر ہوئی کہ تحریک پاکستان کے وفد کو اقوام متحدہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی ہے تو انہوں نے نجی طور پر نیویارک کے اسٹوریا ہوٹل میں ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا اور اس میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہونے کے لئے مختلف ملکوں کے مندوبین کو بھی مدعو کیا تا کہ اس دعوت کے دوران دنیا بھر کے ملکوں کے نمائندوں سے تحریک پاکستان کے وفد کا تعارف کرایا جا سکے ۔


یہ وہ بے لوث محبت تھی جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے اس دعوت کے دوران ابو الحسن اصفہانی کی قیادت میں تحریک پاکستان کے وفد نے بھر پور انداز میں پاکستان کے قیام کے اغراض ومقاصد دنیا بھر کے نمائندوں کے سامنے پیش کئے تھے ۔اس لئے یہ دوستی اور تعلقات کی نوعیت انتہائی مضبوط بنیادوں پر استوار سمجھی جاتی ہے ۔اس کے بعد دوستی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہے جس کی بنیاد 1951ء میں ہونے والا پاک سعود ی معاہدہ بنا تھا۔


سعودی عرب نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کی خوب مدد کی جس وقت 1979ء میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کے وجود کو کئی قسم کے خطرات لاحق ہو چکے تھے اس پر آشوب دور میں بھی سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔
1998ء میں جس وقت پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اس وقت پاکستان کو بہت سی بین الالقوامی پابندیوں کا سامنا تھا تو سعودی عرب نے ایک سا ل تک پاکستان کو پچاس ہزار بیرل تیل یو میا ادھار فراہم کیا۔


2005ء کے تباہ کن زلزے اور 2010اور 2011کے سیلاب کے وقت بھی پاکستان کی بھر پور مدد کی ۔براہ راست امداد کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں تعلیم ،صحت،انفراسٹر کچر اور بہت سے سماجی منصوبوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا اس وقت بھی تقریباً 26لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں جو اپنا قیمتی سرمایہ پاکستان بھیج کر ایک طرح سے ملک کی خدمت کررہے ہیں ۔


موجودہ دور حکومت میں سعودی عرب نے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر پاکستانی اسٹیٹ بینک میں 3ارب ڈالر جمع کرائے ،تین برس تک ادھار تیل
 فراہم کرنے کا معاہد کیا جس کی مدت میں تو سیع بھی ہو سکتی ہے ۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 1982ء میں ہونے والے دفاعی تربیتی معاہدے کے تحت اس وقت پاک فوج کے 1680فوجی افسر اور جواب سعودی عرب میں تعینات ہیں جبکہ مزید 1490افسران اور جوانوں کی سعودی عرب روانگی کے لئے احکامات کا انتظار ہے دوسری جانب پاکستان کی ملٹری اکیڈمی کا کول میں اس وقت 77افسران فوجی تربیت حاصل کررہے ہیں ۔


جس وقت بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے اپنے ایٹمی دھما کے کئے تو امریکہ اور اس کے کئی اتحادی ممالک نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردی تھیں اور ہر طرف سے پاکستان کی امداد بند کردی گئی تھی اس دوران سعودی حکومت اور سعودی عوام نے پاکستان کی انتہائی فراخدلانہ اعانت کی پاکستانی عوام ان مشکل حالات میں سعودی عرب کی اس مدد کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔


سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی معاشی سمت تبدیل کردی ہے تیل پر انحصار کی معاشی پالیسی کو انہوں نے جدید معاشی ویژن سے تبدیل کرکے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سعودی عرب میں اصلاحات کرکے ایک نئی روایت ڈالی۔مملکت کے امور کے حوالے سے ان کا سب سے بڑا کارنامہ کرپشن پر آہنی ہاتھ ڈالنا تھا جس کی زد میں سعودی عرب کی بہت سی طاقتور شخصیات آئیں لیکن سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قوت ارادی کے سامنے سب کو جھکنا پڑا اور یوں تقریباً 160بلین ڈالر کی خطیر رقم وصول کی گئی ۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ عمل دیگر مسلم ملکوں کے لئے بھی ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے ۔
سعودی ولی عہد کے حالیہ دور پاکستان کو بھی سعودی ویژن 2030کا ایک حصہ کہہ سکتے ہیں جس میں وہ سعودی معیشت ،سیاحت ،ادب وثقافت ،سیاسی وعسکری مستحکم اور مالی سطح اور معیار کو قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب سرمایہ کاری ،تجارت اور تعلیم کو فروغ دیا جائے گا۔

پہلے بھی سعودی عرب بہت سے ممالک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا کر دار ادا کرتا رہا ہے لیکن اس حوالے سے پاکستان ایک اہم ملک ہے جہاں ولی عہد محمد بن سلمان کے اس دورے سے تقریباً بیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے ،معاہدوں میں تین یادداشتوں کا تعلق گوادر میں تیل کی ریفانری لگانے ،مائع وقدرتی گیس اور معدنی وسائل کی ترقی کے منصوبوں کے حوالے سے ہیں ۔


اس کے علاوہ ولی عہد کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم بڑھانے کے امکانات کے لئے دونوں ملکوں کے تاجروں کو قریب لانے پر بھی اتفاق ہوا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان کارو باری شعبے کے لئے معاون ثابت ہو گااس طرح دونوں ملک ایک دوسرے کے لئے ایک بہت بڑے معاشی انقلاب کا سبب بن سکتے ہیں ۔
صرف آئل ریفانری کی تعمیر کی لاگت کا تخمینہ آٹھ ارب ڈالر لگا یا گیا تھاجس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر رو ز گارکے خاصے مواقع پیدا ہوں گیا اور دونوں ملکوں کو اس سے معاشی فوائد حاصل ہوں گے ۔

اس سارے معاملے کا سب سے خون آئند پہلو یہ ہے کہ چین کو سعودی عرب کی اس سرمایہ کاری پرکوئی اعتراض نہیں ہے ۔
لیکن ان تمام معاملات کا حقیقی کریڈٹ پاکستان کے دفاعی اداروں کو جاتا ہے ۔کیونکہ نائن الیون کے بعد سے لیکر آج تک پاکستانی اداروں خصوصاً پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جو کامیاب جنگ لڑی ہے اس کی وجہ سے دنیا کا اعتماد پاکستان پر بحال ہو سکا ہے کیونکہ ایک ایسا ملک جس کے پڑوس میں ایک طویل اور خون ریز جنگ جاری ہو جی وجہ سے خطے کے دیگر ملک بھی متاثرہوتے ہوں وہاں کوئی بھی سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن پاکستان فو اور پاکستانی عوام نے لازوال قربانیاں دے کر اس جنگ میں کامیابی حاصل کی جس کی بنا پر دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ ان پر آشوب دور میں جو ملک اپنی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دے سکتا وہ سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ملک ہے ۔


اس کے بعد بلاشبہ اس بات کا کریڈٹ چین کو جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ ملک کرپاک چین اقتصادی راہ داری کی بنیاد ڈالی جس نے دیگر دنیا کو بھی پاکستان پر مزید توجہ دینے پر مجبور کر دیا۔آج نہ صرف خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب جیسے اہم ملک پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں بلکہ روس جیسی بڑی طاقت بھی پاک روس اقتصادی راہ داری کے قیام کے لئے منصوبے بنا رہی ہے اگر روس اس جانب آتا ہے تو وسطی ایشیائی ریاستیں خود بخوداس منصوبے میں شامل ہوجائیں گی پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ خطے اور خطے کے باہر کے اہم ممالک یہاں سرمایہ کاری کریں ۔


سعودی عرب چونکہ پاکستان کا چین کی طرح ایک آزمایا ہوا دوست ملک ہے اس لئے اس کی بھاری سرمایہ کاری سے پاکستان میں معاشی انقلاب کی راہ ہموار ہو چکی ہے اسی لئے کہا جارہا ہے کہ سعودی ولی عہد کے اس دورہ پاکستان سے مالی بحران کے شکار پاکستان کو نہ صرف یہ کہ یقینا ایک گونہ رئلیف ملے گا بلکہ پاک سعودی تعلقات میں تو سیع اور گہرائی سے پاکستان کو علاقائی جیو پو لیٹکل چیلنجز سے نمٹنے میں مدد حاصل ہو گی اور زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا ۔


سعودی عرب اس لئے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کو اہم سمجھتا ہے کہ گوادر پورٹ مستقبل قریب میں ایک صنعتی جب بننے جارہا ہے جس سے وسطی ایشیاء ،افغانستان،وسطی ایشیا اور افریقہ تک رسائی آسان ہو جاے گی جس سے سعودی عرب کو بھی گوں نہ گوں فوائد حاصل ہوں گے ۔اس سے پہلے بھی سعودی عرب کی عسکری قیادت اور تجارتی وفود پاکستان میں اہم منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے متعدد دورے کر چکے ہیں ۔

سعودی عرب گوادر میں دس ارب ڈالر سے جو آئل ریفانری قائم کرنے جارہا ہے اس کا پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہو گا۔
ہم جو خود تیل نکالتے ہیں وہ ہماری ضرورت کا 40فیصلہ ہے مگر ہم اس خام تیل میں سے پچیس فیصد خام تیل باہر بھیج دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس یہ خام تیل صاف کرنے کی اہلیت نہیں یعنی اس ریفائنری کے قیام کے بعد ہمیں اس پچیس فیصد تیل کی بھی بچت ہو گی جس کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

زراعت کے شعبے میں سعودی عرب کی پاکستان کی زراعت میں دلچسپی اسے ایک نئے دور میں داخل کر سکتی ہے ۔
اس تبدیلیوں کے بعد اب دنیا بھر میں پاکستان کے حق میں آوازیں بھی بلندہو رہی ہیں اس میں شک نہیں کہ آج کا پاکستان چند ماہ قبل کے پاکستان سے بہت مختلف اور مضبوط ہے کیونکہ اب پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھنے کے واضح امکانات روشن ہو چکے ہیں جبکہ بیرون ملک کی مارکیٹوں تک پاکستان کی رسائی اب صاف نظر آرہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan aur Saudi arab musbet tabdeeli mein sath sath is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.