تبدیلی لانے والے خود تبدیل ہورہے ہیں

وفاقی کابینہ میں ردوبدل حکمران جماعت کو نااہلی سے زیادہ دھڑنے بندی سے خطرہ ہے

جمعہ 26 اپریل 2019

tabdeeli laane wale khud tabdeel ho rahe hain
  محمد نعیم مرزا
ہمارے ہاں ہر حکومت نے یہ روایت بر قرار رکھی کہ وہ ہر ممکن حد تک اپنے فیصلے عوام سے چھپاتی ہے اور اس وقت تک جھوٹ بولا جاتا ہے جب تک کہ سچ بولنا نا گزیر نہیں ہو جاتا ۔ہماری حکومتیں جب کسی پیشرفت یا اپنے کیے ہوئے فیصلے کی پر زور انداز میں تردید کریں تو زیادہ تر حقیقت اس کے مکمل برعکس ہوتی ہے ۔ایسی ہی صورتحال موجود ہ کا بینہ میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کی صورت سامنے آئی جس کی اطلاع میڈیا تو کئی روز پہلے دے چکا تھا لیکن حکومتی ترجمان نہ صرف اس کو جھوٹ قرار دیتے رہے بلکہ اس حوالے سے خبر بریک کرنے والے میڈیا ہاؤس کو پیمرا کے ذریعے نوٹس بھی جاری کروادیا گیا تھا تاہم بعد میں سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے سوشل میڈیا کے ذریعے خود ہی اعلان کر دیا کہ انہیں وزیراعظم نے وزارت خزانہ کی بجائے وزارت پٹرولیم سنبھالنے کیلئے کہا تھا لیکن انہوں نے(اسد عمر نے)کسی بھی اور وزارت کے ذریعے کا بینہ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔

(جاری ہے)


اسد عمر کے بطور وزیرخزانہ کا بینہ سے الگ ہونے کے اعلان کو تجزیہ کاروں نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف بلکہ حکومت کیلئے بھی ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے ۔اسد عمر کو موجودہ حکومت کا ”شو بوائے “اور حکمران جماعت کا”دماغ“سمجھا جاتا تھا۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی اسد عمر کے بارے میں طے تھا کہ وہ ملک کے وزیر خزانہ ہونگے کیونکہ عمران خان کو ان کی صلاحیتوں پر بھر پور اعتماد تھا۔


حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور گڈگورنسس میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے ۔جو حکمران بروقت درست،اگر چہ بظاہر غیر مقبول ،فیصلہ نہیں کر سکتا وہ بہت جلد اقتدار میں رہنے کا جواز کھو بیٹھتا ہے ۔اسد عمر سمیت متعدد وزراء کی کابینہ سے علیحدگی یا ان کے محکمہ جات میں ردوبدل پر بدلتے ہوئے حکومتی موٴقف سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ
یا تو وزیراعظم نے یہ فیصلہ اچانک کیا اور اس سے قبل اپنے کسی قریب ترین ساتھی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا یا حکومتی ناقدین کے مطابق یہ فیصلہ کسی اور جگہ کیا گیا اور وزیر اعظم نے محض اعلان کیا تھا۔


ملک کی موجودہ معاشی واقتصادی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ بطور وزیر خزانہ اسد عمر کی کار کردگی کسی طور اطمینان بخش نہیں تھی اور معاملات پر ان کی گرفت بتدریج کمزور ہوتی جارہی تھی ۔تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ناقص کار کردگی کے علاوہ پارٹی کے اندر دھڑے بندی بھی ان کے کابینہ سے اخراج کے فیصلے کا سبب بنی ہے ۔

پارٹی کے ایک اہم ترین رہنما جہانگیر ترین،جو اگر چہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کے نتیجے میں کوئی بھی عوامی یا جماعتی عہدہ سنبھالنے کیلئے نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں ،کا گروپ اس وقت سب سے مضبوط اور موٴثر ہے اور اس گروپ کو وزیراعظم کا اعتماد بھی حاصل ہے ۔
کابینہ میں ہونے والے ردوبدل سے کچھ روز قبل جہانگیر ترین نے ایک پریس کا نفرنس میں اسد عمر کی وزارت کے حوالے سے اہم امور میں فیصلہ سازی کے عمل میں ہونے والی تاخیر پر تنقید کی تھی ۔

اس کے رد عمل میں اسد عمر نے جس پریس کا نفرنس میں اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اسی میں انہوں نے ان ”ارسطوؤں “کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو سمجھتے تھے کہ بطور وزیر خزانہ اسد عمر فیصلے کرنے میں غیر ضروری تاخیر کا شکار ہو جاتے تھے ۔
اسد عمر کی وزارت کی ناقص کار کردگی کے سبب حکومت دباؤ میں تھی کیونکہ ایک طرف مہنگائی بڑھ رہی تھی تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات فائنل ہونے میں تاخیر ہورہی تھی۔


تاہم بعض حلقے وفاقی کابینہ میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کو وفاقی حکومت کی ناقص کار کردگی کی بجائے پنجاب حکومت کی نااہلی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان اپنے ”وسیم اکرم پلس“یعنی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ہنوز نا امید نہیں ہوئے اور ان کے خیال میں وہ دن دور نہیں جب عثمان بزدار صوبے کے بہترین منتظم بن کر ابھریں گے تاہم اس وقت تک حکمران جماعت اور ملک کی معاشی واقتصادی صورتحال پر کیا قیامت گزر جائے اس کاکسی کو ادراک نہیں ہے کیونکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ اگر انتظامی ناکامی کا نمونہ بن جائے تو اس کے اثرات سے ملک محفوظ نہیں رہ سکتا۔


پاکستان تحریک انصاف قومی خزانہ لوٹنے والوں کے احتساب،ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی،غریبوں کیلئے 50لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایسے ہی دیگر کئی وعدوں کے ساتھ بر سرِ اقتدار آئی تھی لیکن حکومت میں آنے کے 8ماہ بعد اس کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے کیونکہ حکومت کی ناقص معاشی حکمت عملی اور غیر موٴثر کنٹرول کے باعث ڈالر،پٹرول ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات نے عوام کو حواس باختہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہی وجہ ہے کہ ملکی معاشی صورتحال پر عوام کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کے تحفظات نے حکومت کے پاس سوائے اسد عمر کو ہٹانے کے کوئی اور آپشن نہیں چھوڑا تھا۔


یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر سابق وزیر خزانہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے عوام کی مشکلات کم نہیں کر سکے تونئے مشیر خزانہ ،حفیظ شیخ ،کس حد تک کامیاب رہیں گے اور اس کا کافی حد تک جواب سابق وزیر خزانہ نے ہی دے دیا تھا کہ نئے وزیر یا مشیر خزانہ کو بھی معاشی چیلنجز در پیش ہونگے کیونکہ جب تک ملک کی معاشی مبادیات اور ترجیحات کو درست نہیں کیا جائے گااس وقت تک ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔

نئے وزیر خزانہ کو ایک کچھ مشکل فیصلے اور عوام کو صبر کرنا ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف جن لوگوں کا احتساب کرنے کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئی تھی اور پاکستان کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا،اب انہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر کاروبار حکومت چلا رہی ہے ۔موجودہ مشیر خزانہ کو وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل ملک کے معاشی مسائل کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیا کرتے تھے اب ملک کی معاشی تقدیر اسی عبدالحفیظ شیخ کے سپرد کردی گئی ہے ۔

دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ ٹیم ملک کو معاشی مسائل کے گرداب سے کس طرح نکالتی ہے اور عوام کو مزید کب تک صبر کی تلقین کی جاتی رہے گی ۔
رہی بات تحریک انصاف کے ذریعے ملک میں آنے والی تبدلی کی تو وہ تبدلی تو نہ جانے کہاں رہ گئی البتہ تحریک انصاف ضرور تبدیل ہو گئی ہے ۔عبدالحفیظ شیخ نے اپنا عہدسنبھالنے سے قبل ہی اپنے وزارت سے متعلقہ فیصلوں میں خود مختار ی اور پارٹی مفادات کی بجائے مجموعی قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی شرط عائد کی تھی اور ان کی تقرری اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعظم نے ان کی یہ شرائط تسلیم کرلی ہیں ۔

دیکھنا یہ ہے کہ جو کشتی اسد عمر بھنور میں چھوڑ گئے ہیں عبدالحفیظ شیخ اسے کیونکر کنارے تک لے جائیں گے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ کو تحریک انصاف نے اپنا مشیر خزانہ مقررکرکے کم از کم یہ بات تو تسلیم کرلی ہے کہ اس کی قیادت کی جانب سے پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسوں پر تنقید غلط تھی اور اگر ایسا نہیں ہے تو پاکستان تحریک انصاف کے پاس عبدالحفیظ شیخ کی تقرری کا کوئی جواز نہیں کیونکہ جو وزیر خزانہ ماضی میں ڈیلیور نہیں کر سکا وہ زمانہ حال میں کس طرح ڈیلیور کرے گا؟اس سوال سمیت متعدد دیگر سوالات کا جواب بہت جلد سامنے آجائے گا کیونکہ وفاقی بجٹ جون کے مہینے میں پیش کردیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

tabdeeli laane wale khud tabdeel ho rahe hain is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 April 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.