اعترافِ شکست اورایک اہم سوال

بدھ 12 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

اقتدار میں آنے سے پہلے دعوی تھا کہ”نیا پاکستان“ بنے گا اور وزیرِا عظم کا حلف اٹھاتے ہی ہر جانب”تبدیلی“ برپا ہو گی۔ اقتدار میں آ کر کہا کہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات نہیں دے سکتا،پھریہ رونا رویا کہ بیوروکریسی کام نہیں کرنے دے رہی۔ اب دُہائی دی جا رہی ہے کہ بلیک میل نہیں ہوں گا اور مہنگائی اور بے روزگاری اپوزیشن کا پراپیگنڈا ہے۔

اقتدار سے باہر نکالے جانے پر کہے گا جو ”سہولت کار“ اقتدار میں لائے تھے انہوں نے ہی ناکام کیا۔ آخر میں واپس برطانیہ جا کر کتاب لکھوائے گا کہ کس طرح دھوکے سے اقتدار میں لایا گیا اور میرا اور میری پی ٹی آئی کا ہمیشہ کے لیئے بیڑہ غرق کیا گیا۔ یوں بائیس سالہ سیاسی '' یّد و یہد '' کا خاتمہ ہو گا۔ 
طاقتور حلقوں نے پاکستان کا اقتدار ایک نشئی کے حوالے صرف اپنی اس خواہش پر کیا کہ اب کی بار اپنے کٹھ پتلی وزیرِ اعظم کے ذریعے نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا کیونکہ نواز شریف نے ان ناخداؤں کے آگے اپنا سر نہیں جھکایا تھا لہذا اس سے انتقام لینا، سزا دینا اور نشانِ عبرت بنانا مقصود تھا۔

(جاری ہے)

انہی طاقتور حلقوں کے حمایت یافتہ صرف جن چند افراد نے اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیئے اس سارے مکرہ کھیل میں ملک کو صرف اٹھارہ ماہ میں ہی ہر حوالے سے بدترین بحران کی نظر کر دیا۔ با الفاظِ چند طاقتور افراد کی انائیں پوری کرنے کے چکر میں ملکِ پاکستان کی چولیں اور بنیادیں بری طرح حل کر رہ گئیں۔
سر کش نوا زشریف کو منظر سے ہٹانے کے چکر میں ملکی معیشت کی تیزی سے تنزلی ہوئی، مقدمہِ کشمیر اور خارجہ پالیسی میں بری طرح ناکامی دیکھنا پڑی، بڑھتی مہنگائی، بدترین بے روز گاری اور بد امنی کا”جن“ جسے گزشتہ حکومت نے دن رات کی انتھک محنت سے بوتل میں بند کیا تھا وہ بوتل میں سے دوبارہ نکل آیا،اس حوالے اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے،اس لیئے دوبارہ نہیں دھراوں گا۔

اب جبکہ انہی طاقتور حلقوں کی جانب سے لائی گئی موجودہ حکومت اپنی اٹھارہ ماہ کی بد ترین ناکامی پر مبنی کارکردگی کے ساتھ مکمل طور پر بے بس اور عیاں ہو چکی ہے اور دوسری جانب ایسا کوئی بھی راستہ نہیں بچا جس پر چل کر کسی نہ کسی حد تک مذکورہ طاقتور حلقے اور ان سے وابسطہ وہی چند افراد اپنی ناکامی، اعترافِ شکست، ندامت اور شرمندگی کو چھپا یا فیس سیونگ سکیں تو باوثوق ا طلاعات کے مطابق اب انہی حلقوں نے باضابطہ طور پر ن لیگ، پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور مولانا فضل الرحمان سے براہِ راست رابطہ کیا ہے،گو کہ اس سے قبل بھی”رابطے“ ہوتے رہے ہیں لیکن ان رابطوں کا مقصد صرف کسی نہ کسی حوالے سے ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو ان کی سزاوں میں کسی قسم کا ریلیف دینے کی پیشکش ہوتی تھی لیکن اب ہونے والے باضابطہ رابطے صرف مستقبل قریب میں ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے کیئے جا رہے ہیں۔

آگے چلتے ہیں۔ طاقتور حلقوں کی جانب سے ایم کیو ایم،مینگل گروپ،ق لیگ اور آذاد ارکان کو اشارہ ملنے کے بعد اگر ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ رابطوں کے نتیجے میں موجودہ حکومت تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں فارغ ہو بھی جاتی ہے تو بھی جلد نئے عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ملک کا اقتدار مسلم لیگ ن کے پاس ہی واپس جائے گا۔

ن لیگی قیادت نے متوقع سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے بھی پارٹی کی سیکنڈ لائن کو آگاہ کر دیا ہے۔ مارچ اور اپریل اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہوں گے۔ عسکری قیادت کی لندن یاترا میں کس سے کس کی کیا بات ہوئی، اس سے قطع نظر یہاں یہ بات اچھی طرح واضع رہے کہ مذکورہ رابطے کسی ڈیل پر مبنی نہیں ہیں اور اسے قطع طور بھی”لندن پلان“ نہیں کہا جا سکتا بلکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس وقت سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے معاملات کو حل کرنے کے لیئے ان سے مشاورت اور مدد مانگی کی گئی ہے جس کے جواب میں نواز شریف کی جانب سے ملک میں ازسرِ نو انتخابات کو ہی ملک کو درپیش مشکلات اور مسائل کا حل قرار دیا گیا ہے اور ان کے پہلے سے ہی اس مطالبے کو اب من و عن تسلیم کر لیا گیا ہے۔

بلخصوص شبّر زیدی کے استعفے کے بعد اس حوالے سے طاقتور حلقوں کی سنجیدگی، گھبراہٹ یا پریشانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف ی بیماری اور متوقع آپریشن کے باوجود انتہائی درجہ کی بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورتِ حال کے جلد تدارک کے لیئے ہی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو جلد ملک واپس آنے کی درخواست کی گئی ہے،جبکہ اسحق ڈار کو بھی پاکستان واپس آ کر اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی لیکن انہوں نے یہ کہ کر معذرت کر لی کہ جب تک موجودہ حکومت تبدیل یا نئے الیکشن نہیں ہو جاتے وہ برطانیہ میں رہ کر بھی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں اوراس ضمن میں ان ہی کی سربراہی میں ن لیگ کی معاشی ٹیم نے آئندہ بجٹ کے حوالے سے اپنی تجاویز پہلے ہی مرتب کر رکھی ہیں بلکہ وہ آئندہ بھی بلا معاوضہ اپنے ملک کی خدمت کرتے رہیں گے۔

شنید ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف آئندہ چند روز میں پاکستان میں موجود ہوں گے۔ جس کے بعد فوری بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تبدیلی کے متوقع پلا ن پر مرحلہ وار عملدرآمد شروع ہونا ہو جائے گا۔ اب مذید تا خیر عمران خان کو لانے والوں کے لیئے مذید مشکلات پیدا کرے گی جس کا وہ سامنا کرنے کو ہرگز تیار نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ابھی مزید دو سو ارب کے شارٹ فال کو پورا کرنے کے لئے بجلی، گیس اور سیلز ٹیکس میں بھی اضافہ ہو گا جس باعث عوام کے سڑکوں پر نکلنے کے قوی امکانات ہیں اور اسی دوران مولانا فضل الرحمان بھی اپنے دھرنے کا آغاز کریں گے جس کے بعد ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز ہو گا جس میں عوام کے غصے اور غصب کا نشانہ حکومت نہیں اسے لانے والے ہوں گے۔

جو پہلے سے ہی عوامی تنقید کی زد میں آئے ہوئے طاقتور حلقوں کو کسی طور منظور نہیں۔ 
گو کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی ڈوبتی کشتی کو آخری سہارا دینے کے لیئے کل ہی یوٹیلٹی ا سٹورز پر پندرہ ارب روپے کی سبسڈی دینے کا علان کیا ہے لیکن عوام کی چیخیں اور دوہائیاں اس لالی پاپ سے کم یا ختم نہیں ہو سکیں گی۔ کیونکہ اگر خان صاحب کے مذکورہ اعلان پر عمل درآمد ہو بھی جاتا ہے توایک اندازے کے مطابق مذکورہ پندرہ ارب روپے کی سبسڈی سے بیس کروڑ عوام میں فی کس کو ہر ماہ صرف چھہ روپے کی بچت ہو سکے گی جو کسی سنگین مذاق سے کم نہیں اور ویسے بھی یوٹیلٹی اسٹورز پر پہلے سے ہی اشیائے خورد و نوش کی قلت کی بابت قومی اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی جا چکی ہے۔

عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے خان صاحب کے اس خصوصی اعلان کا ایک کرشمہ یہ بھی ہوا کہ ان کی تقریر کے ساتھ ہی یوٹیلٹی ا سٹورز پر گھی پانچ اور چینی دو روپے فی کلو مہنگی ہو گی۔ آج گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی کم کرنے کا اعلان فرمایا ہے،لہذا اب ان کی قیمتوں میں بھی اضافے کے لیئے بھی تیار رہیئے۔ 
حقیقتِ حال یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار اور غم و غصے سے بھری عوام اب حکومتِ عمرانیہ کی جانب سے مذید کسی بھی نوٹنگی یا ڈرامہ بازی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔

گزشتہ روز ممبرانِ پارلیمنٹ نے بھی بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کیا جسے اسلام آباد میں موجود مختلف سفارتخانوں نے اپنے اپنے ممالک کو رپورٹ کیا،یہ امر بہت اہم ہو جاتا ہے جب کسی بھی ملک کے ممبرانِ پارلیمنٹ کسی بھی حکومتی اقدام یا قومی معاملے پر احتجاج کریں،اس نوعیت کا احتجاج عالمی اداروں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے،جو حکومت کی سبکی کا باعث بنتا ہے۔

ایک مرتبہ پھر عرض کر دوں۔ واضع رہے کہ سابق وزیرِا عظم نواز شریف نے ملک کے اصل ذمہ داروں کے سامنے از سرِ نو الیکشن کروانے کے علاوہ اپنا کوئی بھی دوسرا مطالبہ نہیں رکھا بلکہ ان پر صاف طور پر واضع کیا ہے کہ خود ان پر،مریم نواز اور ان کے ساتھیوں پر قائم مقدمات پر وہ کسی قسم کا بھی ریلف نہیں لیں گے بلکہ پاکستان کی عدالتوں اپنی قانونی جنگ لڑیں گے جیسا کہ ابھی تک لڑتے آئے ہیں۔

انہوں نے واضع کیا کہ،اگر انہوں نے کسی قسم کا ریلیف لینا ہوتا تو وہ آج بھی ملک کے وزیرِ اعظم ہوتے اور موجودہ مصائب نہ جھیل رہے ہوتے۔ 
نواز شریف نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے بہت قریب ترین بلکہ نمائندے سمجھے جانے والے سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان سے گزشتہ روز لندن میں ملاقات کرنے سے صاف انکار کر کے ایک بار پھر کسی طاقتور حلقے سے ڈیل یا مفاہمت کرنے کے تاثر کو کامیابی سے زائل کیا تو دوسری جانب ملک کی مقتدرہ،اسٹبلشمنٹ اور عوام پر ایک بار پھر واضع کر دیا کہ ان کے ''ووٹ کو عزت دو'' کے بیانیئے پر کسی بھی کی سودے بازی یا سمجھوتہ نہیں ہو گاچاہے انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کری پڑے۔

آخر میں ایک اہم سوال جو ایک عرصہ تک موجود رہے گا کہ پاکستان جلد یا بدیر ایک نہ ایک دن دوبارہ رترقی کی شاہراہ پر ضرور گامزن ہو گا، ملک کے عوام پھر سے خوشحالی کا دور دیکھیں گے اور سازشیں مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوں گی لیکن ترقی کرتے پاکستان کو موجود مختلف سنگین ترین بحرانوں میں میں دھکیلنے میں،طاقتور حلقوں کی آشیر آباد سے جو چند کردار شامل ہیں وہ کون ہیں؟ تا کہ انہیں قوم کے سامنے لا کر کھڑا کیا جائے۔

امرواقع تو یہ ہے ملکِ پاکستان کی تاریخ میں جتنا نقصان ملک کو ان کرداروں نے صرف اپنی انا اور ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیئے پہنچایا ہے اتنا تو پاکستان کا کوئی دشمن بھی نہیں ابھی تک نہیں پہنچا سکا۔ آخر کون ان طاقت ور حلقوں سے اس اہم سوال کی جواب طلبی کرے گا؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :