’’میڈیا پر پابندیاں لگانے کی وجوہات‘‘‎

بدھ 19 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر قد غن لگانے کے بعد اب سوشل میڈیا کوریگولیٹ کرنے کے نام پر مذید پابندیوں کا شکار کیا جا رہا ہے کیونکہ اب یہاں بھی چبھتے ہوئے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں مثلاً جیسے مندرجہ ذیل چند سوالات ۔ ۔ ۔
اگر پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ اور ان کے ساتھیوں کو پہلے غداری،بغاوت اور ملک دشمنی کے الزامات کے تحت اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا، اے آر وائے چینل کے ذریعے میڈیا ٹرائل ہوا،انہیں جیلوں ڈالا گیا لیکن پھر اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے خود ہی مذکورہ الزامات واپس لے گئے، ان سب کی ضمانتیں ہو گئیں اور ان’’ باغیوں ‘‘ کو رہا کر دیا گیا ۔

آخر کار یہ سارا ڈرامہ رچانے کا مقصد کیا تھا ؟ قومی میڈیا پر پاکستان میں دہشت گردی کرنے کا اقبالِ جرم کرنے والا دہشت گرد احسان اللہ احسان ملک کے سیکورٹی اداروں کے سخت ترین حصار سے کیونکر فرار ہوا ؟ مولانا مسعود اظہر کا فرار کیسے ممکن ہوا ؟ اقوامِ متحدہ میں تنازعہِ کشمیر کے حوالے سے جان بوجھ کر کیوں پسپائی اختیار کی گئی اور اب صرف آذاد کشمیر کو’’ بچانے‘‘ کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں ؟ اتنی کیا مجبوری تھی کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر نیا سوٹ پہنا کر پروٹوکول کے ساتھ واپس بھارت روانہ کر دیا گیا ؟
دو پاکستانیوں کے قاتل امریکی ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ’’ متاثرہ خاندان کسی طور بھی قصاص نہیں لینا چاہتا تھا‘‘،مقتولین کے لواحقین کو کس نے قصاص کی رقم لینے پر مجبور کیا، اورکس نے ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے باہر نکالنے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا ؟ جنرل ریٹائرڈ شاہد کی کتاب’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی کتاب’’دی سپائی کرونیکلز‘‘ اور دیگر کئی ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور فوجی افسران کی لکھی کتابوں اور ان کے انٹرویوز کا اگر قومی یا سوشل میڈیا پر میڈیا تذکرہ کیا جائے تو اس عمل کو کیوں ریاست یا کسی ایک ادارے کے مخالف تصور کیا جاتا ہے.
ریاست کے اپنے بنائے گئے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات پر اگر گفتگو کی جائے تو اسے بھی ملک دشمنوں کو خوش کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، چھوٹے صوبوں کے سیاسی و سماجی کارکن اگر اپنے حقوق مانگنے کے لیئے احتجاج کریں تو انہیں غداری اور ملک دشمنی کے طعنے ملتے ہیں لیکن اگر ملک کی عدلتوں کی جانب سے سنگین غداری کیس کے ملزم سابق ڈیکٹیڑ پرویز مشرف کو کوئی آئین شکن کہ دے تو پھر برہمی کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے؟ اسی ڈیکٹیٹر نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ اس نے کئی پاکستانیوں کو ڈالرز کے بدلے میں امریکہ کے حوالے کیا اور امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی لیکن ا س حقیقت پر سوال اٹھانا بھی سنگین جرم ٹھرتا ہے.
اگر قانون کو مطلوب سابق وزیرِ خزانہ اسحق ڈار کے گھر کو پناہ گاہ بنایا جاتا ہے تو پھر مذکورہ مفرور ڈیکٹیٹر کے اسلام آباد میں واقع فارم ہاوس کو کیوں نہیں ؟ نواز شریف سمیت اس ملک کا ایک بھی منتخب وزیرِا عظم اپنی آئینی مدت کیوں پوری نہیں کر سکا،کیا سارے کے سارے ہی غدار یا ملک دشمن تھے ؟ جس بات کا مطالبہ آج ایف اے ٹی ایف کر رہا ہے جب یہی بات نواز شریف سمجھا رہا تھا تو اس کے خلاف ملک دشمن ہونے کی باقاعدہ مہم کیوں چلوائی گئی. واضع رہے پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر نکلنے کے لیے پندرہ ووٹ درکار ہوں گے جبکہ اس وقت پاکستان کے حمایتی ارکان کی تعداد تین ہے جن میں چین ترکی اور ملائشیا شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

پانامہ لیکس کے ڈرامے میں میں نواز شریف کے علاوہ چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے ان کے خلاف اب تک کیا کاروائی ہو سکی ہے؟ کیا صرف نواز شریف ہی نشانہ تھا ؟ آرمی ایکٹ کا ذکر کرنے اور ملک کے دفاعی اداروں کے بجٹ کا آڈٹ کرنے کے مطالبے کو شک بھری نظروں سے کیوں دیکھا جاتا ہے ؟ حالانکہ ذکر اور مطالبہ کرنے والے اسی ملک کی پارلیمنٹ کے اراکین ہوتے ہیں.
سابق ایس ایس پی پشاور طاہر خان داوڑ کو اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور ان لاش افغانستان سے ملی،اس سنگین ترین معاملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ؟ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں آر ٹی ایس کیسے فیل ہوا ؟کلعدم تنظیموں کو دنیا کے سامنے کیوں کر سیاسی عمل میں شریک کیا گیا جس باعث ملک کو عالمی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔

فیض آباد دھرنا کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے اور واضع احکامات پر عمل درآمد کیوں نہ ہو سکا ؟ ملک کے اہم ترین دفاعی ادارے نے کس حیثیت میں کھلم کھلا طور پر موجودہ حکمران جماعت کی حمایت کرنے کا بار بار تاثر دیا،ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے دعوے کیوں پورے نہیں ہو رہے اور قبائیلی علاقوں میں دہشت گرد دوبارہ کیوں اور کیسے منظم ہو رہے ہیں ؟ عجیب حیرت ہے کہ اگر نوا ز شریف یا کسی اور سیاسی جماعت کا نمائندہ بھارت سے اچھے تعلق رکھنے کی بات کرے تو ناپسندیدہ ٹہرتا ہے جبکہ اگر کوئی ڈیکٹیٹر آمر بھارت کے آگرہ محل کی سیر کو جائے یا اس کے موجودہ کٹھ پتلی حکمران بھارت سے اچھے تعلقات بنانے کی خاطر کرتار پور کھولیں تو اس طرزِ عمل کو مکمل طور پر حب الوطنی سے تعبیر کیا جاتا ہے،آخر کیوں اور حقیقی سیاسی قوتوں سے کس بات کا بیر ہے؟
ادارے اپنی ساکھ کھو نہیں رہے بلکہ کھو چکے ہیں احتساب،احتساب کا راگ الاپنے والی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے اب خود عدالتوں کے اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپ رہی ہے ،اپنے آپ سے احتساب شروع کرنے کا دعوی کرنے والے وزیرِ اعظم عمران خان نے پہلے خیبر پختون خواہ میں احتساب سیل کا دفتر بند کروایا اور اب اپنے اور ساتھیوں پر قائم نیب کے مقدمات ختم کروائے جا رہے ہیں کیا یہی وہ احتساب ہے جس کا وعدہ کنٹینر سے عوام سے کیا جاتا رہا ۔

اگر حکمرانوں کو ان کا عوام سے کیا گیا ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات دینے کا وعدہ یاد دلایا جائے تو یہ سوال بھی اب ملکی سلامتی کے خلاف ٹہرتا ہے، اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں.
ملک دیوالیہ ہونے کو ہے تاریخی قرض لے کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے لیکن یہ سوال بھی پوچھنے پر پابندی ہے آخر ایسا کیوں؟عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اگر ملک کی معاشی صورتِ حال کچھ اور عرصہ اسی طرح برقرار رہی تو قوی امکان ہے کہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا ۔

جس ملک کے حوالے سے عالمی بینک ایسی رپورٹ جارہی کرے کہ اس ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو اس ملک میں کون اپنا سرمایہ لگاتا ہے ؟ لیکن اس تمام تر بدترین صورتِ حال کے ذمہ داروں کے نام لینے پر پابندی ہے بلکہ قومی سلامتی آڑے آتی ہے اوراگر یہ سب سابق وزیرِ خزانہ اسحق ڈار کا کیا دھرا ہے تو پھر اس سے بار بار معیشت کی بہتری کے مشورے کیوں مانگے جا رہے ہیں؟ اسے واپس آنے کی درخواستیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ جبکہ وہی اسحق ڈار آج بھی برطانیہ میں مختلف سیمینار اور معیشت سے متعلق کانفرنسوں سے خطاب کر رہا ہے ۔


 کھل کر اس حقیقت کا کیوں نہیں اقرار اور اعتراف کر لیا جاتا کہ موجودہ حکمران نظامِ حکومت چلانے میں بری طرح فیل ہو چکے ہیں ۔ اب تو صرف حکمرانوں کو لانے والے اپنی انا، تکبر اور گھمنڈ کے چکر میں وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور اپنی ناکامی کاغصہ اپوزیشن کے خلاف انتقام پر مبنی کاروائیاں کروا کر نکال رہے ہیں اور بس ۔

بائیس کروڑ عوام کے اس ملک میں یہ سوال کرنا ممنوع ہے آخر یہ سب کھلواڑ اس ملک سے کیوں ہو رہا ہے ؟ اپوزیشن کے ارکان جو اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں بند کروائے گئے اب باری باری عدم ثبوتوں کی بناء پر کیوں ضمانتوں پر رہا ہو رہے ہیں؟ کیا اس امر سے یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات محض سیاسی انتقام لینے کی خاطر بنائے گئے تھے جبکہ اب بھی اپوزیشن کے کئی راہنما بغیر کسی ٹھوس ثنوت کے جیلوں میں بند ہیں ۔

اس حوالے سے میڈیا پر سوال اٹھانا مثبت رپورٹنگ نہیں بلکہ اسے مایوسی پھیلانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
وہی میڈیا جس نے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، جھوٹ اور سچ میں کسی قسم کی تمیز کیئے بغیر دن رات نان سٹاپ خان صاحب کی کمنٹری نشر کی، لیکن آج حکومتی بیانیہ ہے کہ وہی میڈیا اب ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، آخر کیوں ؟ ماضیِ قریب میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے کی دھمکیاں دینے والوں کی جانب سے اب سوشل میڈیا پر سخت پابندیاں محض اس لیئے لگائی جا رہی ہیں کیوں کہ ان کے لیئے مثبت رپورٹنگ نہیں کی جا رہی، اس لیئے بھی کہ یہ سوال کیوں بار بار پوچھا جانے لگا ہے کہ دو ہزار سترہ میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک آج کیونکر مختلف اور سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ؟ پرانے پاکستان کی پانچ اعشارئیہ چھ والی معیشت اب صرف دو فیصد پربسترِ مرگ پر کیوں پڑی ہوئی ہے؟
یہی وہ چبھتے ہوئے صرف چند سوالات اور وجوہات ہیں جن کا جواب دینے سے گھبرا اور خوفزدہ ہو کر پہلے قومی میڈیا اور اب سوشل میڈیا ریگولیٹ ہونے نام پر حکمرانوں کے غضب کا شکار ہونے جا رہا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :