سوال اٹھانا، ریاست کی مضبوطی کے لئے ناگزیر

پیر 11 جنوری 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام اوّل درجہ کا ہے، ہمارا تعلیمی نظام سب سے بہتر ہے، ہمارے ادارے دنیا بھر میں نمبر ون ہیں ، ہم دنیا میں سب سے زیادہ عقلمند اور دانا قوم ہیں ۔ پہلے چار اور اب بارہ موسموں کا بھی خوب چرچا کرتے ہیں ۔ اپنی ہی بنائی دنیا میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ہیں لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہمارا کوئی بھی نظریہ سچائی اور حقائق پر مبنی نہیں اور اس کا پرچار ہمارے بنیادی تعلیمی نصاب سے شروع ہوتا ہے کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں ، مدارس اور معاشرے میں سوال کرنا نہیں سکھایا جاتا ۔

جو ہمت کر کے سوال کر لیتا ہے وہ مشکوک قرار پاتا ہے کیونکہ سوال اٹھانا منع ہے ۔
ہمارے اصل حکمران ملک کے آئین پر عمل درآمد کرنے کو اپنی خود کشی کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں کیونکہ ریاست کے شہریوں کے لیئے آئین میں درج حقوق دینے سے ان کے مفادات متاثر ہوتے ہیں اور ان کی اجارہ داری ختم ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

اس لیئے قوم کو خود فریبی میں رکھنے کے لیئے اہتمام کیئے جاتے ہیں کبھی مذہب اور کبھی دشمن کا خوف کا استعمال کیا جاتا ہے عوام کے سامنے جواب دہی سے بچنے کے لیئے یہ دو آزمودہ نسخے ہیں جو ابھی تک کامیابی سے استعمال ہو رہے ہیں ۔

جبکہ سوال کرنے کی صورت میں غداری اور ملک دشمنی کے فتوے ہمہ وقت تیار پڑے رہتے ہیں ۔ ستر برسوں میں جب بھی عوام اور سیاسی قوتوں بنیادی حقوق مانگے اسے دشمنوں کا بیانیہ سمجھا گیا ۔ ملکِ خداداد بھی اسی بیانیہ کے باعث دو لخت ہوا لیکن ملک کے اصل مالکان پھر بھی آئینہ میں اپنا آپ کو دیکھنے کو تیار نہیں کیونکہ سوال پوچھنا منع ہے ۔
کبھی روٹی کپڑا ور مکان،کبھی صدارتی نظام،کبھی نوّے دن بعد ملک میں شریعت کا نفاذ،کبھی سب سے پہلے پاکستان کا سات نکاتی ایجنڈا،کبھی ڈاکٹرائن، کبھی نیا پاکستان اور نیو ریاستِ مدینہ کا تجربہ لیکن د قوم پھر بھی مذید تجربات کی چکی میں پسنے کو تیار ہے ۔

انگریز سامراج خود تو چلا گیا لیکن اس قوم کو اپنے نامزد کردہ پیادوں کی غلامی میں دے گیا،اس لیئے قوم کو ابھی بھی ریاستی حکمتِ عملی کے نام پر غلامی میں رہنے کے فائدے گنوائے جا رہے ہیں اور قوم بھی لبیک کہ رہی ہے شاید کہ غلامی میں رہنے کا بھی اپنا مزہ ہوتا ہو اس لیئے کہ سوال اٹھانا منع ہے ۔
ہم کنوئیں کے مینڈک کی مانند اپنی الگ سی کسی دنیا میں جی رہے ہیں شائد قوم کو فریب اور دھوکے میں جینا سکھایا گیا ہے یا پھرقوم کے زہنوں میں یہ تاثر بھر دیا گیا ہے حقائق تسلیم کر لینے سے ہماری خود ساختہ بہادری ختم ہو جائے گی ۔

،ہم سوال اس لیئے بھی نہیں پوچھیں گے کیونکہ اس میں کوئی حکمت اور دانائی پوشیدہ ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایوبی دورِ حکومت میں بانیِ پاکستان پر تحقیق کرنے کی لگائی جانے والی پابندی آج بھی برقرار ہے ۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سوال کا جواب نہ دینے یا حکم عدولی کی ابتدا ء سرکاری طور پر آذادی کے فوری بعد اس وقت شروع ہوئی جب ملک کے پہلے سامراجی سپہ سالار نے بانیِ پاکستان کی حکم عدولی کی ۔

گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستانی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو کشمیر کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا مگر جنرل گریسی نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا، جس پر قبائلی لشکر کی کشمیر آمد کے بعد مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا جسے بنیاد بنا کر بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اُتار دیں اور آج تک ہماری شہ رگ پر بھارت کا قبضہ برقرار ہے ۔


ستّر برسوں میں اس قوم کو یہی سبق سکھایا گیا ہے کہ سوچوں کو لامحدود کرنے کی کوششیں نہ کی جائیں اور نہ سوال پوچھیں جائیں کہ اس میں ملکی سلامتی کا راز پوشیدہ ہے ۔
پوشیدہ اور پردوں میں چھپائے گئے حقائق کو منظرِ عام پر آنے سے روکنے اور اٹھتی سوچوں کی کو ورکنے کے لیئے سامراجی پیادوں کے زریعے بھاری سرمایہ کاری بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے اور ان سوچوں اور خیالات کی آبیاری پر کامیاب سرمایہ کاری کی گئی جس باعث قوم حقائق اور سچائیوں سے دور ہوتی چلی گئی شائد کہ قوم کے مزاج میں ہی سوال نہ پوچھنا اور حقائق سے دور رہنا رچا بسا دیا ہے ۔


مذہبی،سیاسی،ثقافتی اور معاشرتی نظریات کے اس قدر ٹکڑے اور حصے کر دیئے گئے کہ اب ایک عام آدمی ذہنی طور پر کنفیوز اور بے یقینی کی اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہو کر رہ گیا ہے ۔ کون کتنا اچھا مسلمان ہے،کس کا سیاسی نظریہ زیادہ بہتر ہے،ہماری اپنی ثقافت کیا ہے اور معاشرے کے ایک فرد کے طور پر ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ، ہم سب اس سے لاعلم ہیں ۔

یہ اس کیفیت کا نام ہے جسے عام الفاظ میں غلامانہ معاشرہ کہا جاتا ہے،ظاہر ہے جب ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ملک کے کل بجٹ میں سے محض دو فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے، جس باعث شرعِ خواندگی چالیس فیصد سے بھی کم ہو تو وہاں کیا امید کی جا سکتی ہے کہ معاشرے کے اکثریتی افراد کسی ایک مضبوط اور حقیقی نظریئے کے گرد جمع ہو سکیں ۔ یہ سب سوال نہ پوچھنے کے سبب ہے ۔


آج بھی ملکِ خداداد میں قومی، مذہبی اور معاشرتی نظریات کی بڑی تقسیم کی وہی وجہ یعنی سوال کا نہ پوچھا جانا ہے اس سرکاری حکمتِ عملی کا جو بیج برسوں پہلے بویا گیا تھا اس کی فصل ابھی تک کاٹی جا رہی ہے ۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ آئین کی بالا دستی اورسول عوامی بالا دستی کا سوال کرنے والی قوتوں پر عرصہِ حیات ہی تنگ کر دیا جائے جبکہ آئین کی دھجیاں اڑانے والوں کو سلامیاں دی جائیں ۔

اداروں کو ان کی حدود میں رہ کر کام کرنے والے کو غدار کہ دیا جائے لیکن اداروں کو متنازع بنانے والے پھر بھی محبِ وطن ٹہریں ۔
دنیا کے سامنے دھونس اور دھاندلی کے زریعے اقتدار میں آنے والے کو بھر پور تحفظ فراہم کیا جائے اور اس ناجائز عمل پر سوال اور آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے ۔ اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے بوڑھے ایٹمی سائنسدان کو گھر میں نظر بند کر دیا جائے،ایٹمی دھماکے کرنے والے کو جلا وطن کر دیا جائے ۔

کشمیر پر معزت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والا محب ِ وطن ٹہرے اور اقوامِ متحدہ میں دنیا بھر کے سامنے برہان وانی شہید کو ہیرو کہنے والے کو مودی کے یار ہونے ہونے کا طعنہ ملے ۔ پارلیمننٹ کو مظبوط کرنے کے لیئے بطور صدر اپنے صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو سوپنے والا جیلیں کاٹے اور پارلیمنٹ پر لعنتیں بھیجنے ملک کو لاک ڈاون کرنے عوام کو سول نافرمانی پر اکسانے،چین کے سربراہ کو ملک میں آنے سے روکنے اور سرکاری اداروں پر حملے کروانے والے کو پارلیمنٹ اور ملک کا خیر سمجھا جائے ۔

لیکن سوال اٹھانے والے پھر کو ریاست کا دشمن گردانا جاتا ہے ۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے جنہوں نے سوال اٹھائے وہ نشانِ عبرت بنے ۔ وہ حسین شہید سہر وردی ہوں ، لیاقت علی خان ہوں ، زلفقار علی بھٹو، ِ محمد خان جونیجو،ِ بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی ہوں ، اکبر بگٹی ہوں ،شاہد خاقان عباسی ہوں یا نواز شریف ۔
عوامی حقوق کے لیئے سوال اٹھانے والوں کو اب بھی ریاست کے مخالف سمجھا جاتا ہے خواہ وہ علی وزیر ہو،منظور پشتین ہو،محسن داوڑ ہو،محمود خان اچکزئی ہو،حاصل بزنجو ہو یا رضا ربانی،اختر مینگل یا عثمان کاکٹر ہوں ۔


جب تک اس ملک میں سوال پوچھنے پر پابندی نہیں ختم ہو گی اور عوام کو ان کے سوالوں کے جواب ملنا نہیں شروع ہوں گے ، اس ملک کے عوام مختلف نظاموں کے لیئے تختہِ مشق بنے رہیں گے اور سامراج کے مفادات کی تکمیل اس کے پیادوں کے زریعے پوری ہوتی رہے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :