نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے‎‎

ہفتہ 7 اگست 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

  سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی کتاب”اقتدار کی مجبوریاں“، سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کی کتب”اسپائی کرونیکلز“ اور ”ہانر امنگ سپایئز“، پرویز مشرف کے رشتہ دار اور قریبی ساتھی سابق جنرل شاہد عزیز کی کتاب”یہ خاموشی کہاں تک“ اور دیگر کئی ریٹائرڈفوجی افسران کی کتابوں کو متنازعہ قرار دے کر انہیں بین اور مذکورہ افسران کو ناپسندیدہ شخصیات سمجھا جا رہا ہے۔

مذکورہ کتب میں پاکستانی اشٹبلشمنٹ کو مختصر الفاظ میں امریکہ کی باندی قرار دیا گیا ہے اور اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ بھٹو کو امریکی ایماء پر پھانسی دی گئی، ملک میں تمامتر مارشل لاء امریکی حکومت کے اشارے پر لگائے گئے،مذہبی اور شدت پسند تنظیموں کا وجود بھی امریکہ کی ضرورت کے لیئے عمل میں لایا گیا، امریکی پالیسی کے تحت ہی افغان سرد جنگ سے لے کر نو گیارہ کے بعد کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان پر امریکہ حملے کے لیئے پاکستان کا بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا۔

(جاری ہے)

اشٹبلشمنٹ کی جانب سے ملکی سیاست اور حکومتی امور میں بے جا اور بار بار مداخلت اور ملک کی تمام تر اہم پالیسیاں بھی امریکی اشٹبلشمنٹ کی ہدایات پر بنتی رہیں اور تا حال بن رہی ہیں۔پاکستان کے گیم چینجر سی پیک چینی منصوبے کو جس طرح امریکہ ایماء پر بند کرنے کی کوششیں کی گئیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور یقینا ان کوششوں کی ماسٹر مائنڈ سولین قیادت نہیں بلکہ امریکن نواز لوکل اشٹبلشمنٹ تھی۔

امریکہ کیسے اپنی واردات ڈالتا اور کھیل کھیلتا ہے، اس کی ایک مذید ادنیٰ مثال ملاحظہ فرمائیں۔ مرزا اسلم بیگ اپنی کتاب”اقتدار کی مجبوریاں“ میں ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ”امریکیوں نے مشرف کو یہ غلط اطلاع دی کہ 2005 میں ان پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود وزیرستان میں ہے،مشرف نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے وزیرستان پر فوج کشی کر دی،اور2007میں جامعہ حفضہ میں احتجاج کرنے والی بچیوں کو کچل دیا،جس سے باغی عناصر دور دراز علاقوں میں پھیل گے اور تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی جنہوں نے افغانستان اور پاکستان کہ ملحقہ علاقوں میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیمشرف کی اس ایک غلطی نے اپنوں کو ہی دشمن بنا دیا“
حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ بھی اٹھا کر دیکھ لیجیئے جس میں ملک دو لخت ہونے کی تمامتر ذمہ داری اس وقت کے ذمہ دار فوجی افسران پر ڈالی گئی ہے اور یقینا بنگلہ دیش کے قیام کے پیچھے اگر بھارتی پالیسی کارفرما تھی تو اس ضمن میں امریکی عمل دخل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ کہ سولین یا کسی سیاست دان نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے سابق افسران کی جانب سے ان کی اپنی کتب میں درج کیئے گئے خوفناک حقائق اور ہولناک انکشافات کے بعد یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملکِ خداداد اپنے قیام کے فوری بعد امریکہ کے اثر میں چلا گیا اور اس امریکی اور لوکل اشٹبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کا بھیانک نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔


لاکھ انتخابات کروا لیں، ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ ہو یا پرویز مشرف کا سات نکاتی ایجنڈا۔ ایوب خان کے صدارتی نظام سے پارلیمانی نظام اور پھر کوئی صدارتی نظام لانے کی کوشش بھی کر کے ہم نے دیکھ لیا کچھ نہیں بگڑا۔ موجودہ ڈاکٹرائن کا حال بھی ہمارے سامنے ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ پاکستان کو تختہِ مشق بنانے کے بجائے اگر ملک و قوم کو دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی فہرست میں لانا مقصود ہے تو امریکی سامراج کے زیرِ اثر موجودہ پاکستانی غلامانہ نظام کو بدلنا ہو گا۔

امریکہ کی کالونیئل اسٹیٹ بنے رہنے اور اس کی ستّر سالہ غلامی سے باہر نکلنا ہو گا۔ گو کہ ملک کو عالمی اشٹبلشمنٹ کے چنگل سے آذاد کروانے کی پاداش اور کوشش میں زلفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا، بے نظیر بھٹو امریکہ کا نشانہ بنیں اور پھر نواز شریف امریکیء غضب کا شکار ہوئے لیکن سیاست دانوں کو ابھی مذید قربانیاں دینا ہوں گی جیسے نواز شریف دے رہے ہیں۔

ایٹمی صلاحیت کا حامل پاکستان ایک آذاد اور خودمختار ملک تبھی کہلائے جانے کے لائق ہوگا جب دنیا کے تمام مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے طرح ہمارے ملکی فیصلے اور قومی پالیسیاں بھی آذادی اور خودمختاری سے بنائی جائیں اور یہ کام عوام کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کریں نہ کہ اشٹبلشمنٹ اور یہ خواب تبھی حقیقت کا روپ دھارے گا جب ملک میں اشٹبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک آذادانہ اور منصفانہ الیکشن منعقد ہوں، ملک میں حقیقی معنوں میں کوئی جمہوری حکومت قائم اور ووٹ کو عزت دینے اور سول سپر میسی کا علم بلند ہو۔


ہماری اشٹبلشمنٹ کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ بڑھتے ہوئے عوامی سیاسی و سماجی شعور اور غضب کے باعث اور امریکہ کی بے رحم پالیسیوں کے نتیجے میں کہیں بہت جلد ایسا نہ ہو کہ ایک دن پاکستان میں بھی ترکی کے حالیہ انقلاب کی کیسٹ چلنی شروع ہو جائے،جس کے نتیجے میں اشٹبلشمنٹ کے ہاتھ سوائے زلت اور رسوائی کے کچھ نہیں آئے گا۔ امریکہ اس خطہ میں پاکستان کو بے دریغ استعمال کرنے کے بعد اب بھارتی بالا دستی کو ہر ممکن کامیاب بنانے کے لیئے یہی ارادے لیئے دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستانی عوام کے سروں پر اشٹبلشمنٹ کے مسلط شدہ، منظورِ نظر اورچہیتے پاکستانی وزیرِا عظم عمران خان کا فون بھارتی وزیرِا عظم نریندرا مودی کی جانب سے نہ اٹھانا اور امریکہ صدر جوبائیڈن کا فون نہ کرنا، پاکستان میں ترکی کے عوامی انقلاب والی کیسٹ کا مستقبل قریب میں چلنے کا ایک اہم اور واضع اشارہ ہے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :