لعنت ہے ایسی تبدیل پر

پیر 21 جنوری 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

سی ٹی ڈی(کاؤنٹرٹیررزم ڈیپارٹمنٹ)کی ساہیوال روڈپربہیمانہ اور ظالمانہ کاروائی جس میں ایک بے گناہ جوڑا اس کی تیرہ سالہ بیٹی اور کار کا ڈرائیورجاں بحق ہوئے نے ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی کو رنجیدہ اور افسردہ کر دیا کہ کس بے رحمی،بے دردی اور سفّاکی سے قانون کے محافظوں اور قوم کے نگہبانوں نے خلیل اور اس کے گلشن کو اجاڑ دیا معجزانہ طور پر تین بچے اس بے رحمانہ کاروائی میں بچ گئے پھر اپنے خونی کھیل کو جائز اور قانونی بنانے کے لئے ریاستی وردی میں ملبوس اہلکاروں نے جس طرح کے جھوٹے اور من گھڑت بیان دیے گئے پہلے ان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی پھر ان کو داعش کا حمایتی گردانا گیا مگر ظلم تو ظلم ہوتا ہے اس کو چھپانے کی جتنی بھی توجہیں ڈھونڈ لی جائیں سچائی کے خود ساختہ لبادے پہنا دیے جائیں مگر ظلم چھپ نہیں سکتا پوسٹ ماٹم کی ابتدائی رپورٹ بھی جاری ہو چکی ہے جس میں تیرہ سالہ بچی اریبہ کے جسم میں 6گولیاں پیوست کی گئیں بچوں کی ماں کی مامتا کو سلانے کی خاطر 4گولیاں کام آئیں کار ڈرائیور ذیشان کے جسم کو ٹھندا کرنے کے لئے 10گولیوں سے کام لیا گیا اور بڑے دہشت گرد اور داعش کے حمایتی خلیل کو ٹھکانے لگانے کی خاطر سی ٹی ڈی کے بہادر جوانوں نے 13گولیوں کا سہارا لیاگیا تب جا کر یہ دہشت گرد موت کی وادی میں پہنچاجب وحشت و بربریّت کی روداد مرنے والے کی ماں تک پہنچی تو وہ اپنے پیاروں کے ساتھ ہونے والی ا س خونی داستان کو سن کر اپنے آپ کو سنبھال نہ پائی اور اپنے کے پیچھے چلتی بنی ،،انّا للہ و انّا الیہ راجعوں،،ا س درد ناک اور دل دہلا دینے والے سانحہ کی جیسے جیسے خونچکاں داستان سامنے آ رہی ہے ویسے ویسے صاحب اولاد درد دل رکھنے والا پاکستانی اضطراب اور رنج و الم کی کیفیّت میں مبتلاء ہو رہا ہے وہ منظر کتنا دردناک اور اذیّت ناک ہو جب معصوم بچے پولیس کے بے رحم اور ظالم اہلکاروں سے اپنے ماما اور بابا کی زندگی کی بھیک مانگ رہے ہوں گے ان کی منت سماجت کر رہے ہوں گے اپنے والدین کی جان بخشی کی التجاء کر رہے ہوں گیاور کہہ رہے تھے ہمارا سب کچھ لے لو ہم سے پیسے لے لو مگر ہمارے ماں باپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رہنے دو یقینا وہ لمحے انتہائی بھیّانک ،دردناک اور المناک ہوں گے جب معصوم بچوں کے سامنے ان کے والد کو ناکردہ خطاؤں کی پاداش میں گولیوں سے بھون دیا گیا ان کو شفقت پدری سے محروم کر دیا گیا ان کے سر سے باپ جیسا سائبان چھین لیا گیا ان کی نظروں کے سامنے ان کے باپ کا لاشہ تڑپتا رہا باپ کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹتے رہے ناحق خون کے چھینٹے ان کے چہروں پر پڑتے رہے مگر وہ کچھ نہ کر پائے ماں جس کی مامتاجو ان کیلئے اللہ ربّ العزت کی رحیمی اور کریمی کا دوسرا روپ تھی جس کے پاؤں کے نیچے سے خالقِ کائنات نے ان کے لئے جنّت کے راستے بنائے تھے جس کی گود میں بیٹھ کر وہ اٹھکیلیاں کرتے تھے جو رات کو سونے سے پہلے ان کو لوریاں دیتی تھی ان کو کہانیاں سناتی تھی وہ جب کبھی رات کو ان کے ماتھے چومتی تھی تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے مالک ارض و سماوات خود زمین پران کی بلائیں لینے آ گئے ہیں جو اپنی باہوں میں ہم سب کو جھولے جھلاتی تھی اس ماں کو درندوں نے ان کے سامنے قتل کر دیا ان کی جنّت کو ان سے چھین کر ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا معصوموں کا سوال ہے اپنے حکمرانوں سے کہ ان کو یتیم کیا گیا کن گناہوں کی انہیں سزا دی گئی ہے کن خطاؤں کا ان سے اتنا کڑا حساب لیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اسلام میں تو جانوروں سے سامنے قربانی کا جانور ذبح کرنے کی ممانعت ہے تو پھر کلمہء طیّبہ کے نام پر قائم ہونے والی اس ریاست میں ان کے سامنے انسان نما ریاست بھیڑیوں نے کیوں اور کس لئے ان کی کل کائنات چھین لی۔
اس المناک سانحہ پر پوری سراپا احتجاج ہے پرنٹ میڈیا ،سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہر پاکستانی اس ظلم و بربریّت کی مذمت کر رہا ہے اور حاکم وقت سے ان اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ آئندہ کوئی اہلکار اس طرح کے قبیح اور قابل نفرت جرم کا ارتکاب نہ کر سکے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے اس سانحہ کے کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے قاتل اہلکاروں کی گرفت کے احکام صادر کئے ہیں اور آئی جی پنجاب نے جے آئی ٹی بنانے کے آڈر جاری کئے ہیں خان صاحب ،ہم یعنی پوری قوم ان احکامات اور اقدامات پر لعنت بھیجتے ہیں لعنت بھیجتے ہیں عثمان بزدار کے حکم پر لعنت بھیجتے ہیں آئی جی کے جے آئی ٹی بنانے کے آڈر پر لعنت ہے ان تحقیقات و تفشیش پر قوم چاہتی ہے کہ تفتیش ہو عثمان بزدار کی انکوائری ہو آئی جی پنجاب کی جے آئی ٹی بنے عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب کے خلاف جو پانچ ماہ سے پنجاب میں پرانے پاکستان کے طرز حکمرانی پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہیں جو تبدیلی کے نعرے جس کا مطلب قانون سب کے لئے یکساں ہو گا ظلم کا جو بھی مرتکب ہو گا اس سے ظلم کا حساب لیا جائے گا آئی جی پنجاب جو پانچ ماہ سے پولیس کی وردیاں تو تبدیل کر رہے ہیں مگر اپنی پولیس کی ذہنی سفّاکی اور دماغی درندگی کے خمار کو تبدیل نہیں کر سکے جو وردی پہننے کے بعد ان دماغوں میں در آتی ہے جو حق اور باطل کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں جو حق اور سچ کی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں جو اچھائی اور برائی کو بھول کر اپنے آقاؤں کی غلامی کرنے میں اپنا فخر مھسوس کرتے ہیں ۔


خان ساحب ۔آپ نے الیکشن سے قبل کہا کہ ہم اپنے تبدیلی کے نعرے سے ایسا انقلاب لائیں گے جہاں ہر کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی انصاف کا ترازو سب کے لئے ایک جیسا ہوگا ریاستی اہلکار عوام کے خادم ہوں گے اور اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے بعد بھی آپ نے کہا تھا کہ ہم نئے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنائیں گے خان صاحب کہاں گئے وہ آپ کے وعدے کہاں گئے وہ آپ کے دعوے کہاں کھو گیا نیا پاکستان کہاں چلی گئی وہ تبدیلی جس میں ہر پاکستانی یکساں نطام تعلیم تھا عدل و انساف کا پیمانہ سب کے لئے ایک ہونا تھا کہاں گم ہو گیا وہ تبدیل شدہ دیس جس میں سب کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہونا تھا جناب خان صاحب ،یہ کمیٹیاں تو پرانے پاکستان میں بنتی تھیں جے آئی ٹیز اور کمیشن کی تشکیل تو اولڈ پاکستان کی ہی دین ہے پرانے پاکستان میں بھی سانحات پر کمیشن بنتے تھے انکوائریاں ہوتی تھیں مگر آج تک نہ کسی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد ہوا نہ کسی کمیشن کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا خان صاحب قوم کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ہے یہ پبلک ہے سب جانتی ہے کہ کمیٹیاں بنانے کا مقصد کیا ہوتا ہے کمیشن تشکیل دیے جانے میں کونسی شرمناک سوچ کار فرما ہوتی ہیں یہی وجہ آج تک خان لیاقت خان کمیشن سے لیکر ایبٹ آباد کمیشن تک کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ۔


خان صاحب ۔یاد رکھو اور ڈرو اس دن سے جب میدان عرفات اللہ ربّ العزت کا دربا ر لگا ہو گا اور عدل و انصاف کا دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کے ربّ کا ہو گا اگر اس دن ان معصوم بچوں نے ،،جن کو جب ہسپتال میں لایا گیا تو نرس نے کہا کہ بیٹا آپ کے چہرے ہر خون کے دھبے ہیں لاؤ میں ان کو صاف کر دوں تو معصوم نے جواب دیا کہ آنٹی کوئی بات نہیں یہ میری ماں کے پاک خون کے دھبے ہیں جو تبدیلی کے دعویدارووں کے عہد اقتدار میں ہمارے چہروں پر جمے ہیں،
خان صاحب ،قوم کو کمیشن نہیں چاہییں قوم کمیٹیوں سے مطمئن نہیں ہو گی جے آئی ٹیز کی تشکیل نہیں چاہیے قوم چاہتی ہے کہ ان کے جذبات کی ترجمانی ہو انکے احساسات کو مقدم جانا جائے اور جو لوگ اس سانحہ کے ذمہ دار ہیں ان سر عام نشان عبرت بنایا جائے چہ جائے کہا انسانی روپ میں چھپے بھیڑیے راؤ انوار کی طرح یہ بھی مجرم عدل کے ایوانوں میں ملک سے باہر جانے کی استدعا کرتے پھریں۔


خان صاحب،قوم ایسا نیا پاکستان نہیں چاہتی۔
جہاں غریب کے بچے کو رزق کوڑے کے ڈھیر سے ملے ۔ امیر کا کتا امپورٹڈ خوراک پہ پلے
جہاں غریب کا بچہ زخم صاف کرنے کے لئے اسپرٹ کے ایک ایک قطرے کو ترسے اور امیر ہزاروں کی شراب انڈیل کر غریب پر برسے،
جہاں سماج دہرے ہوں
جہاں رواج دہرے ہوں
جہاں کردار دہرے ہوں
جہاں میعار دہرے ہوں
جہاں نظام دہرے ہوں
جہاں امام دہرے ہوں
 جہاں حساب دہرے ہوں
 جہاں نصاب دہرے ہوں
خان صاحب اگر آپ نے نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کے نظام کو ہی رائج رکھنا ہے تو ہم اس تبدیلی پر ہزار بار لعنت بھیجتے ہیں
آج یہ معصوم بچے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نگہبان نہیں قاتل ہیں کل پوری قوم کہے گی۔


 اب نہ درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے
 کیا زمانہ ہے کہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے
 عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں یہاں
 اب تو اپنے نگہبانوں سے بھی ڈر لگتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :