باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک

منگل 9 فروری 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ملک میں جمہور کی نہیں جتھوں کی حکومت ہے ۔ ہر اک جتھا اپنی اپنی جگہ استحصال میں مصروف ہے ۔ قانون و منصف اور عدل کی دیوی ہمیشہ ان جتھوں کے سامنے اندھی تھی اور اندھی نظر آئی ۔ بات ایک منصف کی بحالی سے طاقتور ہونے والے جتھے کی کروں یا ان سیاسی بھڑوں کی جن کو سدا سے ہی ستے خیراں ہیں ۔ وہ چوراہوں میں پولیس کانسٹیبل کا نشے کی حالت میں تیز رفتار جیپ میں قتل عام کر کے رہائی پائیں یا اسلام آباد میں کچلے جانے والے لاشوں کے جواب میں بغیر عدالت میں پیش ہوئے پچاس ہزار کے مچلکوں پہ ضمانت کے پروانے لے آئیں ۔

نہ گاڑی چلانے والے ڈرائیور کو پیش کریں اور نہ خود ہی پیش ہوں مگر پھر بھی ایک وفاقی محتسب اعلی کہلائیں ۔ واقعہ ماڈل ٹاون میں سترہ افراد کے قتل کا ہو یا ساہیوال کی رنگین اس سڑک کا جس میں حاکم اور ملکی ادارے ایک صفحے پہ نظر آئے ۔

(جاری ہے)

اگر ہم نظام عدل کی بات کریں تو ان پہ متعین منصفین کی پتلونیں اتاری گئیں ۔ ان کے چہروں کو تھپڑوں سے لہو لہان کیا گیا ۔

اک عدل کی نشست پہ براجمان بیٹی کا لکھا منصف اعلی کو خط کے جو ان جتھوں کے ظلم کے سامنے گھبراتے لکھتی گئیں کہ اے کاش وہ یہ عہدہ سنبھالنے کی بجائے گھر گرہستی سنبھالتی ۔ ان جتھوں نے جب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دھاوا بولا تھا کہ جس کے نتیجے میں مریضوں کی آکسیجن اتار کے شہید کیا گیا تو ایک خیال آیا کہ شاید اب قانون اور حکومت حرکت میں آئے گی لیکن ہم سب نے دیکھا کہ جتھوں میں نامور سیاست دانوں کے اپنے فرزند نکلے تو ایک دم چلتا پہیہ تھم گیا ۔

منصفوں نے آنکھیں بند کیں تو جتھوں کی سیاستدانوں نے مل کے صلح کروا دی لیکن اس صلح نامہ میں پھر مرنے والوں کو کب کس نے پوچھا اور یہ جتھوں کا ظلم یوں داخل دفتر ہوا کہ کسی نے بھی پھر ہوا نہ نکلنے دی کہ کیا ہوا ۔ یہ جتھے آج جب اسلام آباد میں منصف اعلی کی عدالت پہ چڑھ دوڑے تو اندھی دیوی کی آنکھیں کھلیں اور اسلام آباد کی عدالتیں تا حکم ثانی بند کر دی گئیں ۔

یوں تو اس ملک کی شاہراہیں بنی ہی جتھوں کے لئے ہیں لیکن حاکم ان جتھوں میں شامل لوگوں کی پہلے طاقت کا اندازہ لگاتا ہے پھر اداروں کو حرکت میں لاتا ہے ۔ جتھہ نابینا اساتذہ کا ہو یا کسانوں کا لاٹھی چارج بھی ہو گا اور سبق بھی سکھایا جائے گا لیکن اگر یہ جتھے طاقتوروں کے ہوں تو حاکم آنکھیں بند کر کے چین کی بنسی بجاتے حرکت میں آتے اتنا وقت لیتا ہے کہ معاملات ارمانوں کا خون کرتے قبروں کے کتبوں پہ سجتے جاتے ہیں ۔

اگر ایسا نہیں تو یہ جتھے قانون ساز اسمبلیوں میں اکٹھے ہوتے سب دیکھتے ہیں کہ کیسے یہ جتھے اس ملک کے ٹیکس سے ٹی اے ڈی اے بناتے مرکزی کنٹین سے ارزاں ترین روٹی بریانی کھاتے ایک دوسرے کو چور چور کہتے فلاح پاتے گھروں کو جاتے ہیں ۔ جس ملک میں اسمبلیوں کے وارثوں کے بک جانے کا یوں احتمال ہو کہ فیصلہ نہ ہو سکے کہ انتخابات کھلی یا خفیہ رائے شماری سے ہوں وہاں کوئی خیر کی خبر کیسے آئے ۔

ملکی وزیر اعظم ریاست مدینہ کے خواب دیکھے اور اس کے عمال کے بک جانے کی قیمت اور بولی لگے تو یہ سب کتنا مضحکہ خیز ڈرامہ لگتا ہے ۔ ان جتھوں کے بیٹےجب راؤ انوار ہوں یا ڈنڈا بردار  کردار تو پھر وہ اپنی طاقت کے زعم میں اداروں کو جوتے کی نوک پہ لکھے یا  برملآ کہے کہ ہے کسی کی جراءت کہ اس کی ہوا کو بھی کوئی چھو لے۔اگر ایسا نہیں تو اعلیٰ حکام کی ناک کے نیچے پلیٹلٹس کی انتہائی  کمی کے بعد کوئی مجرم لندن نہ ہوتا اور اس کے تیماردار ضمانتوں پہ رہائی نہ پاتے۔

کیا اس ضمانت کے پیچھے اور پلیٹلٹس کی کمی پہ لندن رسائی کے پیچھے اسلام آباد میں مکھنڈی حلوے کھاتا کوئی جتھا ہی نہیں تھا جو آج کل پھر مارچ میں دارلحکومت پہ چڑھائی کا عندیہ دے رہا ہے -  اگر وزیر اعظم صاحب کے ارد گرد دیکھوں تو گیس ۔ بجلی ۔ پٹرول ۔ چینی اور ٹھیکے لینے والے جتھوں کی صورت موجود اپنی لوٹ مار کو قانونی تحفظ دینے کے لئے سینٹ کے انتخابات میں اپنی اپنی نشست پہ نظر جمائے ہوئے ہیں ۔

    
لینڈ مافیا کےجتھوں نے کس طرح زمینوں پہ قبضے کئے ان کے سہولت کار اداروں میں سے بھی تھے اور باہر سے بھی لیکن شاید یہ جتھے قومی اداروں کے وقار پہ دولت اور اپنے مفادات کو سدا سے دوام بخشتے آئے ہیں اور ان جتھوں نے ان زمینوں کو بیچا اور ان پہ محل بنائے ہیں جو ان کے کبھی تھے ہی نہیں ۔ دفاتر میں فائلوں کو پہیے لگاتے یہ جتھے کبھی کسی کے بیٹے کے اخراجات اور بیرون ممالک خریداریوں میں کیش کارڈ دیتے نظر آئے تو کبھی ریٹائرڈ وردی والوں کے دانت دکھا کے کھاتے رہے ۔

ان جتھوں نے نہ تو غریب کے لئے انکم سپورٹ کے روپے پیسے کو چھوڑا اور نہ ہی محکمہ صحت کے لئے آئی کرونا ویکسینیشن پہ ہاتھ صاف کرنے پہ کچھ شرمندگی محسوس کی ۔ نظریہ ضرورت نے بھی ان جتھوں کو بقا بخشی ہے جو ہر وقت ان کے تحفظ میں پیش پیش رہا ہے
 لیکن اس دفعہ معاملہ مختلف ہے کیونکہ اس دفعہ جتھا ان  بلند و بالا عمارتوں سے جا ٹکرایا ہے جن کے سامنے وہ پیش ہوتا ہے ۔

شاید اب ہی اس تصادم سے کوئی ایسی رہ نکل آئے کہ جو روشن مستقبل کی راہ ہو ۔ وگرنہ تو یہ سچ ہے کہ ان جتھوں کو میری بطور عوام ضرورت صرف بریانی کے بدلے اپنے مخالفین کو عددی طاقت دکھانے کی بجائے کچھ نہیں ہے- میں بھی اپنی اہمیت سے یوں نابلد مہنگائی کے سمندر میں ڈبویا  غوطے لگاتا وہ نا فہم ہوں کہ ایک پلیٹ بریانی پہ دم ہلاتا خدمت کو بھاگتا جاتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :