مذہبی دہشت گردی کی انتہا۔۔ 6 نومبریوم شہدا ء جموں

جمعرات 5 نومبر 2020

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

کشمیر پر ناجائز قبضے کو دوام بخشنے کے علاوہ6 نومبر جموں میں بڑے پیمانے اور منصوبہ بند طریقے سے ،پھر لگاتار سرینگر، ، بجبہارہ، ، ہندوارہ، کپوارہ، پلوامہ، پونچھ، کشتواڈ، کے قتل عام اورموجودہ ہندوتا حکومت کی طرف سے 5اگست 1919کو کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنا ، غیر کشمیریوں کو کشمیری شہریت دینا،اصل میں کشمیر میں کشمیری اسلامی تشخص ختم کر کے یہاں ہندو کلچر کو فروغ دینے کی سازشوں کا تسلسل ہے، اس حوالے سے بین القوامی ماہرین نے عالمی پرنٹ میڈیا میں ان انسانی حقو ق کی پامالیوں کی نشاندہی کی ہے۔

یہی وہ عوامل ہیں کہ خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعدکشمیر ی سکتے میں آچکے ہیں اور بھارتی سورما اس طوفانی خاموشی کو ظلم و جبر کی فتح سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ آنے والے بھر پور انقلاب کے آمد کا سگنل ہے، جو افغان سمیت بر صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، اگر عالمی امن کے ٹھیکہ داروں، بھارتی پالیسی ساز اداروں ، اور پاک وکشمیر کے اکابرین نے کشمیریت اور آزادی کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ کشمیریوں کو مسائل و مصائب کے گرداب میں چھوڑا۔

(جاری ہے)

کشمیری کبھی فساد نہیں چاہتے، بحثیت ایک ہومن رضاکار انسانیت کیلئے ہماری خدمات گواہی کیلئے کافی ہیں اللہ کے فضل سے آر پارمسلمان اور غیر مسلم دونوں کی خدمت کی ہے، بھارتی فوجی کو بھی موت کے منہ سے بچا یا ہے، اسلئے ہمیں پوراخلاقی حق ہے کہ ہم ظالم اورعالمی دوہرے معیار کے خلاف احتجاج کریں، یہ کو نسا انصاف ہے، کہ فرانس میں ایک سکول ٹیچر کے قتل پر احتجاج اور اس قتل کے منصوبہ ساز گستاخ رسول ﷺ اور مسلم ممالک میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی ہو۔

لاکھوں یہودیوں کے قاتل ہٹلر کی لعن طعن ہو اور لاکھوں کشمیریوں کے قاتل کی حوصلہ افزائی۔مہاتما بدھ کے بت کو تباہ کر نے والوں کو نیست نابود کیا جا ئے اور برما میں مسلمانوں کے قتل عام اور مسلمانوں کی مقدس مقامات ، مساجد کو برباد کر نے والوں کو شاباشی۔اسلام فوبیا کا پروپگنڈہ کر نے والے اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہاء پسندی کا طعنہ دینے والے خود تجزیہ کریں کہ ان مسلم انتہاء و دہشت گردوں نے اللہ کی سرزمین کو انسانی خون سے زیادہ رنگین کیا یا ان نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں نے؟بھارتی وزیر اعظم مودی اور گودی میڈیا تمام اخلاقی ، روحانی اور انسانی حدود پار کر کے اپنے ہی پچیس فیصد بھارتی مسلمانوں اور چالیس فیصد سیلولر انسان دوست بھارتیوں کو لگاتار فرانس میں گستاخی کے بعد سے ذہنی و قلبی اذیت دے رہے ہیں، اس متعصب میڈیا سے کشمیری کیا شکوہ کرے، جو اپنوں کے نہیں بن سکے۔

پاک وطن میں بھی سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اداروں اور پاک فوج کو بدنام کررہے ہیں، ہند پاک میں موجودہ حکمران طبقہ فوج کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں اور اپوزیشن کے فوج کے خلاف بیانات میں زبان پھسل رہی ہے،ان نادانیوں کی وجہ سے دشمنون کو پاکستان کے خلاف پروپگیڈہ کر نے اور اسے عالمی جانبدار ایف اے ٹی ایف جیسے جال میں مزید پھنسانے کا جواز مل رہا ہے، اسکے باوجود کی عالمی امن کے نام جنگ میں پاکستان کی قربانیاں اور خدمات وسیع ہیں۔


 نظریہ پاکستان اسلام سے وفا کا نام ہے۔پاکستان کا مستقبل ان نادان سیاست دانوں کے بر عکس جدید علوم کے فروغ، سی پیک جیسے منصوبوں اورپاکستان کیلئے قر بانی دینے والوں اور نظریہ پاکستان کے فروغ دینے والے روشن ضمیر لوگوں کی وجہ سے بہت روشن ہے اورمضبوط پاکستان کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔ پاکستان کے فوج کے خلاف زہر پھیلانے والوں کو اس منطق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کئی مسلم ممالک کی تباہی کے بعد بہادر مضبوط پاک فوج اللہ کی نصرت ہے،اور دنیا اور نا عاقبت اندیش بھارتیوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دو قومی نظریہ کا مفہوم نفرت نہیں محبت و امن ہے خوشحالی ،مگر بد قسمتی سے بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے خلاف سازشوں اورکشمیر پر جابر انہ قبضہ کر کے ہندو امپیریل ازم کے تسلسل کو بر قرار رکھ کر قا ئد اعظم ْ کے محبت و خوشحالی کے تمام دروازے اس خطے کے بند کر دیئے ۔

بھارت میں موجودہ حکمران سیاسی فوائد کیلئے انتہاء پسندی کے خلاف پروپگنڈے کے نام پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف پروپگنڈے کی آڈ میں دہشت گردی اور ہندوتا انتہاء پسندی کو فروغ دے رہے ہیں،حالانکہ ہندوستان پر راج کر نے کیلئے مسلمان حکمرانوں نے سیکولر پالیسیوں سے سیکھیں کہ کس طرح مسلمان حکمرانوں نے مذہبی منافرت کو سازش کے طور استعمال کر نے سے تقریباپر ہیز ہی کیااسی مثبت پہلو کی بنیاد پر اکھنڈہندوستان کو ہزاروں سالوں تک کوئی آنچ نہ آسکی۔

انگریزسامراج کے خلاف تحریک آزادی میں محمد برادران نے خلفاء تحریک کے دوران آپسی بھائی چارگی کے فروغ کیلئے مسلمانوں کوگائے کا گوشت کھانے سے روکا، کئی اللہ کے ولی اپنے ہندو ہمسائیوں کو ذہنی کوفت سے بچانے کیلئے اور حق کی ترغیب کیلئے گوشت نہیں کھاتے تھے، مجھے یاد ہے کہ کشمیر میں بھی گائے زبح خانے نظروں سےء اوجھل ہوا کر تے تھے اور آپسی بھائی چارگی کے ماحول میں ایک دوسرے کے سماجی و روحانی اقدار کی قدر کی جا تی تھی، پنڈت ہمارے معاشرے میں تعلیم کے فروغ کیلئے سنجیدہ تھے اور مسلمان پنڈتوں کو تحفظ فراہم کر تے تھے۔

ایک دوسرے کے مذہبی تہوار ہندو مسلم مل جل کرمنایا کرتے تھے، تمام مذاہب خصوصا اسلام معاشروں میں بھائی چارگی کے ماحول کو قائم رکھناسکھاتا ہے ۔پیغمبروں اور اوتاروں کا پیغام بھی انسان دوستی اور آپسی محبت وپیا رہے ،مگر انگریز نے اپنے راج کوطول دینے کیلئے بر صغیر میں ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دست گریبان کر دیا۔جیو اور جینے دو کی بنیاد پر قائم پاکستان کے وجود سے اس خطے میں نفرتوں کا خاتمہ ہو نا چاہئے تھا،مگر حق کے مقابلے طاقت راج نے اپنی بالادستی قائم رکھنے ،دونوں ممالک ہند پاک کو بلیک میل کرانے کیلئے اور اپنے ہتھیاروں کے کاروبار کے فروغ کیلئے ہند پاک کے درمیان آپسی دشمنی کیلئے مسلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھا،ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان ایام میں ڈوگرہ و پٹیالہ کے فوجوں کے علاوہ ہندو انتہاء پسندوں کومسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔

اس حوالے سے 6نومبر 1947 جموں میں مسلمانوں کا قتل عام تاریخ کشمیر کا ایک سیاہ باب ہے، اس روز پاکستان لے جا نے کے بہانے لاکھوں مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور چاروں طرف سے ہندو دہشت گردوں نے گولیاں بر سا کر لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا۔اس ہولناک سانحہ میں ہزاروں مسلمان جان بچاتے ہوئے دریا میں بھی ڈوب گئے، اور مسلمان عورتوں نے اپنی عصمت بچانے کیلئے دریا مین چھلانگیں لگائی۔

انسان دشمنی کی اس انتہاء پر آج تک جموں سے وابستہ کسی فرد نے اس سانحہ پر دکھ یا ملامت کا اظہارنہیں کیا اور نہ ہی جموں وکشمیر سے ہجرت کر نے والوں کو واپس اپنے گھروں کو بلایا گیا،ان ایام میں بھی کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقہ وادی میں غیر مسلم بالکل محفوظ رہے،اور گاندھی جی نے بھی اس مثبت پہلو کا بر ملا اظہار کیا ،
موجودہ تحریک کے اوائل میں بھی مذہبی منافرت کی بنیاد پر ہزاروں مسلمانوں اور کشمیری پنڈتوں کو ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت بے گھر کیا گیا۔

مذہب کے نام پر منافرت میں صرف ایک فرقے کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف نہیں۔مگر تمام حوالہ جات اور موجودہ تناظر میں بحثیت غیر جانبدار تجزیہ نگارمیری تحقیق ہے کہ ماضی اور حال میں بدنام ہو نے کے با وجود مسلم معاشروں میں انتہاء پسندوں کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے اور انتہاء پسندی کومسلم سماج میں حوصلہ افزائی کے بر عکس حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جبکہ غیر مسلم معاشروں میں حالات اسکے بر عکس ہیں ۔

مذہب کے نام پر قائم پا کستان میںآ ج تک مذہبی اعتدال پسند مذہبی سیاسی تنظیموں کو عوام رد کر رہے ہیں۔ مذہبی انتہا ء پسندی کے خلاف جنگ میں پا ک فوج اور اہل پا کستان کی قر بانیاں وسیع ہیں، اسکے برعکس سیکولر ازم کے دعویٰ دار بھارت میں ہندو انتہاء پسند تنظیم بی جے پی کو نہ صرف اقتدار ملا بلکہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ملزم نریندر مودی کوبھارت پر راج کر نے کیلئے منتخب کیا گیا،مودی کے راج کے سایہ میں سیکولر بھارت میں نہ صرف ہندو انتہاء پسندوں کومضبوط کیا جا رہا ہے بلکہ ہندو دھرم کے نام پر ایسے قوانین لاگو کئے جا رہے ہیں جسے گاندھی جی کے ملک بھارت میں سیکولر روایات کا خاتمہ ہو تا جا رہا ہے، دھرم کے نام پر اس سیاسی دہشت گردی سے بھارت میں اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندو کے حقوق پا مال ہو رہے ہیں، بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہندو انتہاء پسندوں نے گائے کے گوشت کا بہانہ بناکر کئی مسلمانوں کو شہید کیا، سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی گئی، یو پی میں نچلی ذات کی ہندو اور اڈیسہ میں عیسائی پادریوں کو زندہ جلا دیاگیا، اس ہندو انتہاء پسندی سے بھارت میں انتشار اور بد نظمی کی وباپھیلنے سے بھارت کی سلامتی خطرے میں ہے۔

بھارت کا نام نہاد سیکولرازم کشمیر میں پہلے ہی داغدار ہو چکا تھا البتہ چند نادان جو بھارت کے حوالے سے غلط فہمی میں مبتلاء تھے بھارت کی مسلمان دشمن پالیسیوں سے غلط فہمی کا ازالہ ہوا۔حریت پسند کشمیریوں کے جذبہ حریت اور شوق شہادت پر خراج تحسین کے مستحق ہیں جلد کشمیریوں کی بے مثال قربانیاں رنگ لائیں گی اور صبح آزدی کا سورج طلوع ہوگا۔انشاء اللہ اسلئے کی دنیا کی تاریک گواہ ہے ظالم کے مقدر میں صرف رسوائی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :