شاخ ِگل میں پھول آنے سے پہلے خار آتے ہیں !!

جمعہ 25 دسمبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اپوزیشن جو اپنی ذات میں ہے وہی کچھ وزیرِ اعظم عمران خان کو سمجھ رہی ہے چور کی نظر میں ہر کوئی چور ہوتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ لوگ مجھے جانتے ہیں پاکستان میں جمہوریت کی بنیادی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جسے اپنے دور کے جابر حکمران ضیاءالحق اور ان کے درباری دفن نہ کرسکے اس کو دفنانے کے لئے آصف علی زرداری نے قبر کھودی اور بلاول زرداری دفنا رہا ہے۔

بلاول زرداری ان جماعتوں کے ساتھ کھڑا ہے جن کے آباواجداد نے گلے میں قرآن لٹکا کر ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف تحریک چلائی اور اسے ماورائے عدالت قتل کروایا۔ جس کے خاندان کے بڑوں نے اس کی ماں شہید بے نظیر بھٹو کو اس کی زندگی میں زندہ درگور رکھا تھا ہم اہل ِ قلم کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں لیکن ہمارا جینا مرنا پاکستان میں اس لئے ان زندہ ضمیر لو گوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو پاکستان اور افواجِ پاکستان سے محبت کرتے ہیں!
 پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری کہتے ہیں کہ لانگ مارچ ضرور ہو گا کسی سے مذاکرات نہیں چل رہے مذاکرات تب ہوں گے جب عمران خان وزیراعظم نہیں ہوگا، شو آ ف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ کیلئے آئین میں تبدیلی کرنا پڑیگی ، سینیٹ انتخابات کیلئے سیکرٹ بیلٹ ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کا جمہوری حق ہے تاکہ کوئی قوتیں انہیں دباﺅ میں نہ لا سکیں۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے کہ بلاول زرداری چھانگا مانگا کی سیاست کاکھیل کھیلنا چاہتے ہیں ´ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے اس لئے بلاول اپنی سیاست کے پاﺅں پر کلہاڑا مار رہا ہے پاکستان پیپلز پارٹی میں پارٹی منشور سے محبت کرنے والے سینئر ترین سابق اور حاضر رہنماجانتے ہیں کہ بلاول جو کر رہا ہے وہ پارٹی منشور کی خلاف ورزی ہے اعتزاز احسن تو برملا اظہار کر رہا ہے لیکن بلاول اس مریم کے ساتھ کھڑا ہے جو عمران خان کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہیں کہ آپ کو پی ڈی ایم کی تحریک اور جلسوں سے فرق نہیں پڑ رہا تو اچانک ایسی کیا آفت آ پڑی ہے کہ آپ کو ایک مہینہ پہلے سینٹ کے الیکشن کا اعلان کرنا پڑا ہے جو پہلے پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔

سینیٹ کا الیکشن ایک مہینہ پہلے کروائیں یا بعد میں، اس سے تحریکِ انصاف کی جاتی ہوئی حکومت کو دوام نہیں ملے گا اور عمران خان اپنی حکومت کو نہیں بچا پائیں گے۔ لیکن جانے کیوں وہ اپنے والد کی طرح آصف علی زرداری کی بات کو اہمیت نہیں دے رہیں جو کہتے کہ سینیٹ الیکشن سے قبل استعفے نہ دیئے جائیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی غلط نہیں کہتے کہ ا گر استعفٰی دینا چاہتے ہیں تو 31 تاریخ تک استعفے اسپیکر کو پہنچنے چاہیں اور اگر 31 دسمبر تک استعفے اسپیکر کو نہیں دیتے تو قوم کے ساتھ ڈرامہ بازی بند کر دیں اس کا مظلب ہے کہ حکومت ڈٹ گئی ہے وہ اپنے دورِ حکومت میں سینٹ میں برتری کے لئے کوشاں ہے سینٹ میں برتری کے حصول کے بعد اگر ان کی حکومت گرتی ہے تو دوبارہ انتخابات میں ان کو یہ بھی خوف نہیں کہ ان کی جماعت کو شکست ہو جائے گی لیکن ا گر ایک تہائی اکثریت لینے میں ناکام ہو بھی جائے تو ممکن ہے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنائیں لیکن اگر حکومت نہ بنی تو سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے یہ ہی کھیل کھیلا جائے گا جو آج کھیلا جارہا ہے مطلب ہے اگر آج کھانے نہیں دے رہے تو عمران خان پھر سے ڈی چوک سجا دے گا اس لئے کل کو کچھ ہونے کو سامنے رکھ کر ووٹ کو عزت دینے کے لئے صدر پاکستان عارف علوی نے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق قانونی رائے طلب کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا ہے۔

جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ماضی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت نہیں کروائے گئے جبکہ آئندہ سال سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے تحت کروایا جاسکتا ہے۔ اس ریفرنس میں آئین میں ترمیم کیے بغیر متعلقہ قانون میں خفیہ بیلٹ سے متعلق شق میں ترمیم کرنے پر بھی رائے مانگی گئی ہے۔
 دوسری طرف حکومت نے مختلف وجوہ سے خالی ہونے والی نشستوں پر جنوری میں ضمنی انتخابات کرانے کے فیصلے نے بھی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو مخمصے میں ڈال دیا ہے اس لئے وہ پریشان ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں حصہ لے یا بائیکاٹ کرے کیونکہ یہ اس وقت ہورہے ہیں جب اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کااعلان کیا ہوا ہے اور سینٹ الیکشن بھی ہونے والے ہیں. . وزیراعظم نے ان میں گومگو کی کیفیت دیکھتے ہوئے ہی انہیں استعفوں کیلئے چیلنج دیا. بقول اپوزیشن کے نالائق عمران خان نے پاکستان کی لائق ترین اپوزیشن کو آگے لگایا ہے ۔

عمران خان کا یہ فیصلہ دریا میں بہتا ہوا وہ کمبل ہے جسے اپوزیشن چھوڑنا بھی چاہے تو نہیں چھوڑ سکتی وزیرِ اعظم نے غلط نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں واقعی یہ لوگ عمران خان کو نہیں جانتے وہ کہہ رہے ہیں کہ کسی صورت استعفٰی نہیں دوں گا بلکہ اگر ضرورت پڑی تو اسمبلیاں تحلیل کردوں گا قصور اپوزیشن کا بھی نہیں اس لئے کہ باری کی حکمرانی میںانہوں نے ایک دوسرے کا دیکھا اور احتساب عدالت کو حبسِ بے جا میں رکھ کرعوام کو دھوکہ دینے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنا نتے رہے جو الماریوں کی زینت بنتے رہے اور آج وہ ہی مقدمات ان کے گلے پڑ گئے ہیں ان کی سمجھ دانی بھی ان کو جواب دے گئی ہے وہ ایک زرداری سب پہ باری بھی پریشان ہیں مریم بی بی اور ان کی سیاسی کنیزوں نے بیان بازی سے سیاسی اکھاڑہ گرم کر رکھا ہے لیکن بنتا کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔


 جبکہ عمران خان کا موقف ہے کہ!
نہ گھبرا کثرتِ غم سے حصول ِ کامیابی میں
کہ شاخ ِگل میں پھول آنے سے پہلے خار آتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :