مسلم لیگ ن تنہا ! پ، ش اور، م، بھی الگ ہو گئے !!

منگل 30 مارچ 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

مریم نواز کے خواب ادھورے رہ گئے ، دست شناس شیخ رشید نے کہا تھا یہ غیر فطری اتحاد ہے یہ لوگ زیادہ دور تک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پی ڈی ایم ( پارلیمنٹ دشمن مومنٹ) میں شامل ہر جماعت اپنا الو سیدھا کر رہی تھی ، سیاسی نابالغ مریم نواز نہیں جانتی تھی کہ اس کو بہن ،بیٹی کہنے والے وہ نہیں تھے جو وہ سمجھ رہی تھی ان سب نے تو اس کو آگے لگائے رکھا وہ بولتی رہی اور یہ درمیانی راستے تلاش کرتے ہے مطلب ہے کہ یہ سب کچھ دکھاواتھا
سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرف ِ آخر نہیں ہوتی ضرورت کے وقت ” یو “ ٹرن لے لیا جاتا ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کو ان کا اداروں کے خلاف بیانیہ خود پرستی اور غرور لے بیٹھی۔

جیالوں کی سوچ نے بھی ان کو پریشان کئے رکھا وہ جانتے تھے کہ ایک زرداری سب پہ بھاری ہے لیکن بلاول بھٹو سیاسی بہن کے ساتھ ضرورت سے کچھ زیادہ آگے نکل گئے ہیں اور مر یم نواز کی سہیلی مریم اورنگ زیب احسن اقبال کے ساتھ ضرورت سے کچھ زیادہ نمک حلال کر رہیں تھیں ، مریم نواز نے خوش فہمی میں آصف علی زرداری کو سیاسی با پ بھی بنا دیا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا سیاسی باپ میاں محمد نواز شریف کے سیاسی باپ جنرل ضیاءالحق نہیں ہے وہ آصف علی زرداری ہے جو ذاتی مفاد کے لئے اپنوں کو بھی معاف نہیں کرتا ۔

(جاری ہے)

اس نے میاں محمد نواز شریف سے ایسے گن گن کر بدلے لئے کی جیالے بھی حیران رہ گئے آج مسلم لیگ ن ،سے پ،ش،اور م بھی الگ ہوگئے۔ پیپلز پارٹی نے ہاتھ دکھایا، شہباز شریف نے حمزہ شہباز کو پیپلز پارٹی کے خلاف بولنے سے روک دیا اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں مولانا فضل الرحمان غیر جا نبدار رہے اورنواز شریف کی شیرنی زخمی ہو گئی ہے کل کے سیاسی بہن بھائی آج ایک دوسرے کو ان کے اوقات سمجھا رہے ہیں مسلم لیگ ن کی رسی جل گئی لیکن بل نہیں گیا ۔

جو بولیاں بولی جا رہی ہیں اس سے قوم نے اس حقیت کو تسلیم کر لیا کہ پی ڈی ایم مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ تھا جس کا شیرازہ بکھر گیا!!
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسن اقبال کہتے ہیںکہ پیپلزپارٹی کے اقدام سے پی ڈی ایم اتحاد کو دھچکا لگا، سب جانتے ہیں بی اے پی والے کس کے اشارے پر ووٹ دیتے ہیںاگر پیپلز پارٹی کیلئے لیڈر آ ف اپوزیشن کا یہ عہدہ اتنا ناگزیر تھا تو اگر وہ اپنی مجبوری نوازشریف کو بیان کرتے تو وہ خوشی کے ساتھ انہیں یہ عہدہ دے دیتے یہ اقدام یقینا مناسب نہیں ہے ،شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ یہ عہدہ ہمارا حق تھا اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں جو کھیل کھیلا گیا وہ ہم کھاریاں میں پہلے دیکھ چکے ہیں۔

بلدیہ کے چیئر مین کے الیکشن کے دن مسلم لیگ ن نے ایسا ہی کھیل کھیلا تھا تحریک انصاف کے دو ممبرز نے ناشتہ تحریکِ انصاف کے ساتھ کیا اور ووٹ مسلم لیگ ن کو دے کر چیئرمین بن گئے تھے آج بھی چیئر مین ہیں ،پیپلز پارٹی کا وفد جاتی امراءمیں مریم نواز کی میزبانی میں ناشتہ کررہا تھا اور عین اسی وقت پیپلز پارٹی ،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے پاس جاکر یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر مقرر کرنے کی درخواست کررہی تھی، اس طرح پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے !
 تجزیہ کار،وسعت اللہ خان اپنے کالم میں کیا خوب لکھتے ہیں،مریم لائی دیا سلائی، زرداری نے آگ جلائی
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ عرف پی ڈی ایم 20 ستمبر 2020 کو پیدا ہوئی اور ’اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل سیاسی مداخلت‘ اور ’سلیکٹڈ’ حکومت کے خاتمے اور ’ووٹ کو عزت‘ دلوانے کی جدوجہد کے دوران اپنے ہی وزن تلے آ کر 12 مارچ 2021 کو پانچ ماہ 22 دن کی عمر میں بظاہر اچانک فوت ہو گئی۔


گذشتہ 57 برس کے دوران 1964 میں ایوب خان کے خلاف بننے والے پانچ جماعتی کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نامی اتحاد، 1968 میں تشکیل پانے والی ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی، 1974 میں قائم ہونے والے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، 1977 کے پاکستان قومی اتحاد، 1983 کی موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی اور سنہ 2002 میں بننے والے اے آر ڈی سے موازنہ کیا جائے تو پی ڈی ایم کی سیاسی و اتحادی زندگی سب سے مختصر رہی۔

اگرچہ ابھی باضابطہ کتبہنصب نہیں ہوا کیونکہ اس پر بھی اختلاف ہے کہ سنگِ مزار پر کون سا شعر مناسب رہے گا۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں
یا پھر
میری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
چند عینی شاہد باز کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں جیسے گھاس کچلی جاتی ہے، کچھ ایسا ہی ماجرا پی ڈی ایم کے ساتھ بھی ہوا جبکہ مولانا مہاوت دونوں ہاتھیوں کا ایک ایک دانت پکڑے جھول رہے ہیں۔

کچھ سمجھتے ہیں کہ نیت تو کپتان الیون سے ٹیسٹ میچ کھیلنے کی تھی مگر پی ڈی ایم نیٹ پریکٹس کے دوران ہی جھگڑ لی۔ طے یہ پایا تھا کہ وکٹیں نون لائے گی، گیند مولانا کروائیں گے اور بلّا پیپلز پارٹی کا ہوگا جبکہ دیگر سات کھلاڑی فیلڈنگ کریں گے۔پہلی باری زرداری نے یہ کہہ کر لی کہ بلّا میرا ہے۔ خوب چوکے چھکے لگائے اور فیلڈرز کو ہنپایا۔ جیسے ہی مولانا کی ایک گگلی پر نون کے وکٹ کیپر نے کاٹ بیہائنڈ کیا، زرداری صاحب ’ہم نہیں کھیلتے‘ کہتے ہوئے بلّا گھماتے بھاگ گئے۔

اس واقعے کو ایک اور مختلف پیرائے میں صوفی تبسم کے مداح ایک نوجوان نے یوں دیکھا ’مولانا نے دی ایک اکنی، میاں نے دی ڈیڑھ دونی، مریم لائی دیا سلائی، زرداری نے آگ جلائی، پی ڈی ایم نے کھیر پکائی، جونہی دسترخوان بچھایا، آپس میں ہو گئی لڑائی، کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی۔‘
 جو لوگ موجودہ قیادتی نسل میں بدستور انقلابیت یا روحِ اقبال تلاش کرنے پر بضد ہیں وہ بس اتنا بتا دیں کہ اگر لینن کی دس شوگر ملیں ہوتیں، ماو  پانچ ہزار ہیکٹر موروثی زمین کا مالک ہوتا، ہوچی منہہ کسی بڑے قبیلے کا سردار ہوتا، خمینی وسیع تر قومی مفاد میں بالآخر رضا شاہ سے سمجھوتہ کر لیتا، کاسترو کے آف شور بینک اکاونٹس ہوتے، منڈیلا کی دوہری شہریت ہوتی تو پھر روس، چین، ویتنام، ایران، کیوبا، جنوبی افریقہ اور خود لینن، ماو ، ہوچی منہہ، خمینی، کاسترو اور منڈیلا تاریخ کے کس پائیدان پر پائے جاتے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :