یہ تیرا پاکستان ہے یا میرا پاکستان ہے ؟

منگل 10 دسمبر 2019

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ماں اور منے کے مابین مباحثہ شروع ہوگیا ۔ منے نے کہا میرا پیار زیادہ ہے ،ماں نے کہا دنیا میں میں ماں کا پیار ضرب المثل ہے، لہٰذا میرا پیار زیادہ ہے ۔ فیصلہ باپ کی عدالت میں چلا گیا ۔ ماں بیٹے نے اپنا اپنا موٴقف پیش کیا ۔ باپ نے بیٹے اور اپنی زوج سے اپنا اپنامدعا ثابت کرنے کا کہا تو ماں نے کہا : ’میں ماں ہو ں اوردنیا میں ماں کی محبت سے بڑھ کر کوئی محبت ہو ہی نہیں سکتی ۔

اللہ نے بھی اپنے پیارے بندوں کے لیے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کی مثال ارشاد فرمارکھی ہے۔‘ باپ نے بیٹے سے پوچھا: منے تم کیسے کہتے ہو کہ تمھاری محبت زیادہ ہے ۔ منا بولا : ’ ابا حضور ہم دو بھائی ہیں ، مگر ہماری ماں ایک ہے، یہ مجھ سے جتنی بھی محبت کرتی ہوں گی ،اس میں کچھ حصہ تو میرے بھائی کے حصے میں جاتا ہوگا ،لیکن میری کوئی دوسری ماں نہیں ہے، لہٰذا میری جتنی بھی محبت ہے، چھوٹی ہے یابڑی ،ساری کی ساری اپنی ماں کے نام ہے۔

(جاری ہے)

ماں مقدمہ ہار گئی اور منا جیت گیا ۔مگر ان کے جانے کے بعد باپ نے سوچا کہ میں کہاں گیا ۔ منے کی کھاتے میں نہ منے کی ماں کے کھاتے میں ،اس کے بعد اس نے بچوں کو پیار دینے کا فیصلہ کیا ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ باپ آج تک ماں اور منے کی محبت میں جگہ نہیں بنا سکا ۔اہلِ محبت کے نزدیک اس کہانی سے نتیجہ نکلا ،ماں ماں ہوتی ہے ، باپ باپ ہوتا ہے ۔


کہانی کے تناظرمیں دیکھا جائے تو پاکستان کے عوام و خواص کئی برسوں سے اسی قسم کے ایک مخمصے کی زد میں ہیں کہ پاکستان در حقیقت کس کی ملکیت ہے ،اس کا حقیقی وارث کون ہے ، اس سے کس کو سچی محبت ہے ، کون اس کی خاطر جان قربان کرنا چاہتا ہے، کون لہو لگا شہیدوں میں شامل ہونا چاہتا ہے،کون اس کا سچا خادم ہے اور کون نام کا ٹھیکے دار ہے ؟ اسی نوع کے کئی سوالیہ نشان روزانہ نمودار ہوتے ہیں اورمٹ جاتے ہیں ۔


 بہتربرسوں کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ،ایک مہربان مامتا کے روپ میں اپنے اچھے اور برے بچوں کو اپنے زخمی دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ کئی دنوں سے اس کے گوشے گوشے میں جھگڑالو بچوں کا شور سنائی دے رہا ہے۔ہر دوسرا فرزندِ سلطنت بلندبانگ دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ’ پاکستان میرا ہے اور صرف میرا ہی ہے‘ ۔ وطن عزیزکی فضائیں اس طرح کی جستجو بھری صداؤں سے لبریز ہیں ۔

ہر شخص مخلص ترین دکھائی دیتا ہے اورایسا لگتا ہے کہ گویا ہر دل میں وطن کی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پُھدک رہا ہے ۔
دوسری جانب اس حقیقی یا مصنوعی محبت کے بحرِبے کراں میں بہت سے سوالیہ نشانات بھی ہاتھ پاوٴں مارتے دکھائی دیتے ہیں، مثلاً سیاست کا مقصد کیا ہے ؟ایک سیاست دان کے فرائض کیا ہیں؟جمہوریت کے معانی کیا ہیں؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ خون کی قیمت کیا ہے؟ انسان کا مرتبہ کیا ہے ؟بادشاہ اور رعایا کا آپس میں رشتہ کیا ہے ؟ حکومت کسے کہتے ہیں اور اپوزیشن کا مفہوم کیا ہے ؟ الیکشن کس مقصد کے لیے کرائے جاتے ہیں اور اس کے بعد دھرنوں کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ کیا مذہبی تنظیمیں اسلام کی سر بلندی میں مصروف ہیں یا محض سیاسی ہاتھا پائی میں سر گرم عمل ہیں ؟ کیا وزارتیں اپنے منصب سے انصاف کر رہی ہیں ؟کیا عدلیہ آزاد ہے اور اس کے فیصلے بروقت اُترتے ہیں ؟ پولیس ظالم ہے یا مظلوم ؟ جمہوری حکومت کا کتنا فائدہ ہوتا ہے ؟ آمریت کے فیوض و برکات کیا کیا ہوتے ہیں ؟ مملکت خدا داد میں حکومت تمام حقوق کا حق رکھتی ہے یا اپوزیشن کا بھی کچھ حصہ بخرہ ہوتا ہے؟ اپوزیشن اور فرینڈلی اپوزیشن میں کیا فرق ہوتا ہے؟بھیڑیے اور میمنے میں کس کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہوتا ہے ؟’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والی بات پرانا فلسفہ ہے یا جدید نظریہ؟ لوگوں کی تعداد اور سوچوں کے معیار میں سے کون سی چیز افضل ہے ؟ بعض گدھوں کے سر پر سینگ اور انسانوں کولگی مصنوعی دُم دکھائی کیوں نہیں دیتی؟انسانیت اور حیوانیت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

الغرض اس طرح کے لاکھوں سوالات ہیں اورجوں جوں یہ پٹاری کھلتی چلی جاتی ہے، اس نوع کے ہزاروں سوالات اُچھل کر ہمارے دامن گیر ہوجاتے ہیں ، ہمارے چہرے نوچ لیتے ہیں اور ہمارے گریبان چاک کر دیتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی اس مخمصے کی کہ مملکت خداداد پاکستان،جس کا مکمل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ،یہ کس کا پاکستان ہے،یعنی ’یہ تیرا پاکستان ہے یا میرا پاکستان ہے؟‘ اس سوالیہ نشان کے تناظر میں کئی اور قابلِ غور سوالیہ نشانات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں ،مثلاً اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ حکومت ہو،اپو زیشن ہو یا کوئی غیر پارلیمانی عوامی لیڈر ،ان میں سے جس پر بھی کڑا وقت آتا ہے تو وہ عوام کا حقیقی غم خوار بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو عوام کی حمایت کا حقیقی حق دارتصور کرنے لگتا ہے اورخود کو مخلص ثابت کرنے کے لیے سرورِ کائنات ﷺ کے ارشادات توکبھی فرامین ِ قائداعظم اس کی زبان پر رواں دواں نظر آنے لگتے ہیں ،کبھی مولانا روم کی مثنوی معنوی کا ورد جاری ہوجاتا ہے تو کبھی علامہ اقبال کے اشعار کا تانتا لگ جاتا ہے، مگرجانے کیوں اختیارات ملنے اور منزلِ مقصود پر پہنچنے پر ٹھنڈی اور میٹھی پہلی ہی سانس کے ساتھ سب سنہری نعرے مکروفریب کے صندوقچے میں تالا لگا کر رکھ دیے جاتے ہیں، تاکہ آیندہ الیکشن میں بوقت ضرورت کام آسکیں۔

صدمہ اس بات پر ہے کہ قوم کے ان فریبی ہمدردوں کے جاں نثار کارکنان اور بھولے بھالے عوام ہر بارکھوکھلے نعروں کے عملی مظاہرے کے انتظار میں عمریں گزار دیتے ہیں ۔
 قوم کے ان ہمدردوں کے لیے اقوال زریں کے علاوہ ایک اور مفید ہتھیار بھی ایسے موقعوں پر استعمال میں لایا ہے ،جسے ’غریب عوام‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔حکومت ہو یا اپوزیشن ہر دو فریق اپنے مشکل وقت میں غریب عوام کے ساتھ رشتہ داری اور حمایت کا اظہار فرماتے ہیں اور یہ غریب عوام بھی ایسے’ مست ملنگ‘ ہیں کہ ہر بار اس جھانسے میں آکر ناچنا شروع کر دیتے ہیں، یہ اپنے لیڈر کی فتح پر جگنی گاتے ہیں، لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے ہیں حتیٰ کہ فرطِ جذبات میں آکر کبھی کبھی ایک دوسرے کا ’تالو‘ بھی کھول دیتے ہیں۔

دوسری جانب جب ’لیڈر صاحب‘ کامیاب قرار پاتے ہیں توحافظہ کی کمزوری کے باعث سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کسی کوچوان کی نمازِ جنازہ واجب نہیں رہتی ،کسی مریض کے پاس گلدستہ رکھنالازم نہیں رہتا ۔فتح مبین کے بعداقتدار کی پجارو کبھی کسی ریڑھی بان کو خاطر میں نہیں لاتی ، کسی خوانچا فروش کے خوانچے کے قریب’ جی حضوری کے لیے‘ پڑاوٴ نہیں ڈالتی ۔
 مزید برآں کچھ اور سوالیہ نشانات بھی توجہ کے طالب دکھائی دیتے ہیں ،مثلاً انسانی آبادیوں میں جنگل کے قانون کس طرح رائج ہو جاتے ہیں؟ خون کا رنگ سفید کس طرح ہو جاتا ہے اور اس کی قیمت کیسے گر جاتی ہے ؟ انصاف کے لیے دستک دینے والوں کی انگلیا ں تو کیا کلائیاں ٹوٹ کر بکھر جاتیں ہیں،پاوٴں تھک جاتے ہیں اور آنکھیں سفید ہو جاتی ہیں ،مگرانصاف کا حصول محض دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتا ہے۔

احتجاج کو بدمعاشی اور بد معاشی کو حق گوئی کیوں سمجھ لیا جاتا ہے ۔ حرص، طمع، لالچ اور ذاتی مفادات کی سیاست انسانی معراج کو گھٹیا پن کے پتال میں کیسے گرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔کامل شعور کے مالک انسان، انسانیت کی بے بسی ، تڑپتی لاشوں اور لٹتی عزتوں کی حقیقی کہانیوں سے عبرت حاصل کیوں نہیں کرتے؟ انسانی آبادیوں میں شیطانوں کے بسیرے اور بھوت بنگلے کون سے ٹھیکے دار تعمیر کرتے ہیں؟بھتہ خوری ، اغوا براے تاوان اور قتل و غارت کے واقعات فلمی کہانیاں کیوں محسوس ہوتے ہیں ؟قبضہ مافیا کس کوہِ قاف سے اُترے ہوئے خوفناک جن ہیں،جو کسی بھی قانون کی بوتل میں بند نہیں کیے جا سکتے ؟ انسان اور گدھے کے گوشت بیچنے والے وحشی کس مذہب کے پیروکارہیں ؟
سوالیہ نشانات ہزاروں ہیں، مگر آج کا سوالیہ نشان پاکستان کی سرزمین کے اصل مالک کی تلاش سے متعلق ہے کہ اس پاک سر زمین کا حقیقی وارث و مالک کون ہے ؟جی چاہتا ہے کہ اصل مالک کو ملکیتی حقوق دے دیے جائیں، مگر دعوے داروں کے جمِ غفیراور غل غپاڑے میں کچھ سنائی نہیں دیتا،کچھ سمجھ نہیں آتا۔

کان بہرے ہو چکے ہیں اور آنکھیں بینا ئی کھو چکی ہیں، کیو ں کہ ہر شخص ایک ہی راگ الا پ رہا ہے ، ’تیرا نہیں یہ میرا پاکستان ہے اور صرف میرا ہی پاکستان ہے ۔‘
ایک اضطراب کا عالم ہے کبھی ایسا لگتا ہے ،جیسے یہ قائداعظم کا پاکستان ہے، کبھی یہ صدر ایوب کی ملکیت معلوم ہوتا ہے تو کبھی جنرل یحییٰ کی ،کبھی ذوالفقار بھٹو ،کبھی بے نظیر تو کبھی آصف زرداری اور بلاول اس وراثت کے وارث دکھائی دیتے ہیں ، کبھی ضیاء الحق تو کبھی نواز شریف اس کے مختارِ کل نظر آتے ہیں ۔

کبھی شہباز و حمزہ توکبھی مریم نواز شریف حق بجانب دکھائی دیتی ہیں ، کبھی فضل الرحمن اس کا پیش امام دکھائی دیتا ہے تو کبھی طاہر القادری حقیقی خطیب نظر آتا ہے ۔ کبھی غلام حیدر وائیں کی روح پرواز کرتی ہے تو کبھی عثمان بزدار کا وجود محسوس ہونے لگتا ہے ،کبھی نوابزادہ نصراللہ خاں کی روح چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی چودھری شجاعت کی صورت میں آخری نشانی نظر آتی ہے ۔

کبھی عمران خان کی جدت ،حدت اور شدت سے متوقع تبدیلی جھلملاتی ہے تو کبھی شاہ محمود قریشی کی سانسوں کا بندھن سجادہ نشین دکھائی دیتا ہے ، کبھی خورشید شاہ کے ہاتھ چومے جاتے ہیں توکبھی پیر پگاڑا کے سامنے نگاہیں سرنگوں ہوجاتی ہیں ،کبھی خاقان عباسی کا پٹرول بکتا ہے تو کبھی فروغ نسیم کی بانسری عدالت کے دروازے پر دستک دیتی ہے ، کبھی چودھری نثار کی خاموشی سنائی دیتی ہے تو کبھی شوکت عزیز کی گمشدگی میں پاکستان کا خزانہ چیختا دیتا ہے ،کبھی دبئی میں لیٹے بیمار پردیسی پرویز مشرف کی تمنا دکھائی دیتی ہے تو کبھی گجرات کے چودھری پرویز الٰہی کاعکس جھلملاتا ہے۔

کبھی مریم اورنگ زیب اور فواد چودھری کا مشاعرے میں وطنیت کا قصیدہ سنائی دیتا ہے تو کبھی فردوس عاشق اعوان کے تندو تیز طعنوں میں پاکستان کی حقیقی وراثت کا دعویٰ دکھائی دیتا ہے ۔ جدھر دیکھیں، جہاں دیکھیں ہرفرد ہی پاکستان کی ’فرد‘ اپنے نام کیے پھرتا ہے ،مگرکچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ کس کا پاکستان ہے ۔
ہر دور میں پاکستان کو کسی نہ کسی نام سے منسوب ہونا پڑا اور ہر دور میں اس پر کسی نہ کسی مخلوق کا قبضہ یا دھرنا وقوع پذیر ہوا ۔

کبھی پولیس تو کبھی ڈاکو ، کبھی ڈاکٹر تو کبھی انجینئر،کبھی استا د تو کبھی استانیاں ، کبھی وکیل تو کبھی دہشت گرد ،کبھی ایم این ایز تو کبھی ایم پی ایز ،کبھی مکھیے توکبھی جنرل کونسلر ، کبھی مولوی تو کبھی مقتدی ، کبھی شرابی تو کبھی کبابی الغرض ہر شخص نے بہتر برسوں میں یہی سوچا، یہی سمجھا کہ یہ میرا پاکستان ہے اور بس میرا ہی پاکستان ہے،مگر اس کے حقیقی وارث کا آج تک پتا نہ چلا کہ اصل میں یہ کس کا پاکستان ہے ؟
 وہ زچہ ،جو ہسپتال کے باہر کسی یتیم کو جنم دے کے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتی ہے ۔

وہ ماں، جسے بیٹے کے قتل کی گواہی پر مارمار کر گھائل کردیاجاتا ہے ، وہ ماں جسے اپنے بیٹے کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لیے خود بندوق اٹھانا پڑتی ہے ۔وہ غریب مزدور، جس کے بچے رات کو بھوکے سوجاتے ہیں ۔وہ سفید پوش بے روزگار نوجوان ، جس کا باپ کھانسی کے سیرپ کو ترستا مر جاتاہے ، وہ بے بس والد، جس کی جوان بیٹی کی عصمت دری کا جنازہ میڈیا پر نکال دیا جاتا ہے یا وہ معصوم جان ،جسے جنسی تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔

وہ شریف شہری،جسے اس کی شرافت کی وجہ سے پورا معاشرہ بدترین انسان قرار دے دیتا ہے۔نوکری کی تلاش میں سرگردان جوان ،جس کی ڈگریاں کسی انگوٹھا چھاپ منعم کی چوکھٹ سے مایوس لوٹ آتی ہیں ۔تھل تھرپار کے وہ صحرا نشیں ، جو پینے کے صاف پانی کو ترستے مر جاتے ہیں ۔ وہ مسافر ،جو سٹریٹ کرائم کے دوران میں لٹیروں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں ۔ وہ جن کے شکستہ پرانے جوتوں سے عدالتوں کے ماربل گندے ہوجاتے ہیں ، وہ مزدور،جن کے خون پسینے سے ٹھیکے داروں اور سرمایہ کاروں کو گھن آتی ہے ۔

وہ جانثار،جن کے لہو سے ملک تعمیر ہوتے ہیں ، سلطنتیں پروان چڑھتی ہیں، بستیاں آباد ہوتی ہیں ،بس انھیں لوگوں کاکوئی دعویٰ نہیں نظر نہیں آتا ،شایدہر الیکشن ،ہر اقتدار میں ،جس غریب، غریب ،غریب کا نام استعمال کر کے ووٹ لیے جاتے ہیں ، اسی کا کوئی دیس نہیں ،اسی کی کوئی ملکیت نہیں ۔
ملکیتی حقوق کی آپا دھاپی اور ہاتھا پائی میں تمام دعوے دار ایک دوسرے کو کاش سمجھا سکیں کہ یہ تیرا پاکستان ہے نہ ہی میرا پاکستان ہے ،یہ سب کا پاکستان ہے،اگر ایسا تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس دھرتی میں پختون ، سندھی ،پنجابی، بلوچی یاگورے کالے، حاکم محکوم اورخادم و مخدوم کے فاصلے مٹ جائیں گے ،کیوں کہ جب عدل و انصاف کے لیے غیرجانب دار مو ٹر وے بنادیے جاتے ہیں زندگی کے سفر کی ساری رکاوٹیں ختم ہو جایا کرتی ہیں ۔

اپنی ذات کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرأت پیدا ہو جائے تو عدل وانصاف کو یرغمال بنانے کے لیے کمیشن بٹھانے کی ضرورت پیش آتی ہے نہ ہی جرم کو پنپنے کا موقع ملتا ہے ۔
ایک خوبصورت مشورہ عرض ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی اور اس کے باسیوں کی خوشیوں کی خاطر ذاتی مفادات کی قربانی دینے سے یقینا یہ سرزمین خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی ۔غریب عوام اپنی موت کی بدد عائیں مانگنے کے بجاے جینے کی جستجوکیا کریں گے ، عمرِدراز کی دعا ئیں مانگاکریں گے ۔

زندگی کی شمع اپنے حقیقی رنگ میں جگمگا اٹھے گی اور اسے بجھانے کے لیے سرحد پار سے کوئی سنسناتی ہوئی گولی بے قصور کسانوں یا بچوں کا قتل نہیں کرے گی، کوئی ڈرون حملہ بے گناہ آبادیوں کو برباد نہیں کر سکے گا ، کوئی سیلابی ریلا مرگِ ناگہانی نہیں بنے گا ، قیمتی جانیں کلنگ ٹارگٹ کا ہدف نہیں بنیں گی ،معصوم بچیاں اور بچے اغوا براے تاوان کے چنگل میں نہیں پھنسیں گے ، مسجدوں اور مزاروں پر بم نہیں برسائے جائیں گے ، مگر یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ، جب ہم خود اپنے دیس کی مٹی سے وفا کریں گے، بددیانتی اوردغا بازی نہیں کریں گے اور اس حقیقت کو تسلیم کرلیں گے کہ پاکستان کسی ایک شخص کی ملکیت ہے نہ ہی اسے کسی فردِ واحد کے نام کیا جاسکتا ہے، بلکہ جاگیرداروں اور وزیروں سے لے کر مزدوروں تک، یہ سب کا پاکستان ہے ۔


یاد رکھیے !جب ہم نے ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا سیکھ لیا تو یقینا یہ مخمصہ ختم ہو جائے گاکہ یہ کس کا پاکستان ہے ؟
 اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو !۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :