اللہ کا شکر، سرپھروں کا شکریہ!

بدھ 30 جنوری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو فی الحال آگے پیچھے، اوپر نیچے، کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ وطن عزیز کی 70سالہ تاریخ مگر یہ بتاتی ہے کہ شہیدِ ملت لیاقت علی خان سے لے کر میاں محمد نوازشریف تک کسی بھی وزیراعظم کو سکون واطمینان کے ساتھ مدت پوری کرکے کرسی چھوڑنا نصیب نہ ہوا۔ ق لیگ، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں نے اگرچہ 2002ء سے 2018ء تک اپنی مدتیں ضرور پوری کیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف بھی اگر اپنی مدت پوری کرتی ہے تو تاریخ شاید یوں بدل جائے کہ عمران خان مدت پوری کرنے والے پہلے وزیراعظم بن جائیں۔
ابھی تو حکومت کے چھ ماہ بھی پورے نہیں ہوئے لیکن یار لوگ حکومت کے گرنے کی(گرانے کی نہیں) باتیں کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

رواں برس کے اختتام تک تو شاید یہ باتیں ہی رہیں گی۔ اگر حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان کچھ معاملات میں ضد چھوڑ دیں تو شاید یہ باتیں بھی ختم ہوجائیں۔

ہم نے عرض کیا کہ وزارت عظمیٰ کی آئینی مدت پوری کرکے خان صاحب تاریخ بدل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں 1973ء کے آئین کے تحت ہی حکومت کاری کرنا ہوگی۔
آج عوام کی منتخب کردہ قومی اسمبلی کے اندر حالت یہ ہے کہ حکومت 23جنوری کو پیش کیا گیا منی بجٹ جسے ریفارم پیکیج کا نام دیا جارہا ہے، منظور کرانے میں فی الحال ناکام ہوچکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کے ترمیمی بل کو منظور کراتے وقت اپوزیشن کی تمام تجاویز مسترد کردی گئیں۔

ساڑھے تین ماہ بعد ایوان میں آنے والے وزیراعظم عمران خان قائدِحزبِ اختلاف میاں محمد شہبازشریف کی نکتہٴ اعتراض پر کی گئی گفتگو سے ناراض ہیں۔ وزیراعظم کے ایک منہ بولے مشیر نعیم الحق کے ایک ٹویٹ نے، منہ بولے اس لیے کہ وہ آئینی طور پر پارلیمان میں نہیں بیٹھ سکتے، قائدِ حزبِ اختلاف کی جماعت ن لیگ کی ناراضی میں اضافہ کردیا ہے۔ اسمبلی سے باہر وزیراطلاعات چودھری فواد حسین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں گالیاں دی جاتی ہیں، اپوزیشن وزیراعظم کا احترام کرے، وزیراعظم کی ایوان آمد پر اپوزیشن کا رویہ درست نہیں تھا، وزیراعظم کی عزت ہم پر مقدم ہے۔


بظاہر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اور اپوزیشن بالخصوص ن لیگ ایک دوسرے پر وار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت وقیادت اورپنجاب ووفاق میں ن لیگ کے حوالے سے وزیراعظم کا رویہ آج کل وہ نہیں ہے، جو گزشتہ ماہ کے آخری اور رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں تھا۔ یہ ایک نیک شگون ہے اُن کی حکومت کے لیے۔

اگر وزیراعظم کا یہ رویہ برقرار رہا اور اس کا اثران کی کابینہ کے ارکان اور پارٹی پر بھی ہونا شروع ہوگیا تو پھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی بھی سسٹم میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے اس کے چلنے میں مددگار ہوں گی۔
فواد چودھری گزشتہ دنوں کراچی میں تبدیلی کی جو بنیاد رکھنے آئے تھے، وزیراعظم نے اسے پکا کرنے کراچی بلکہ گھوٹکی جانا تھا کہ شاید تبدیلی کا میٹریل گھوٹکی میں دستیاب ہے لیکن انہوں نے اب یہ دورہ ملتوی کردیا ہے۔

میاں محمد نوازشریف کی صحت کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب نے چھ ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے اور اب میاں نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں طبی بنیادوں پر سزا معطل کرکے ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست دایر کر دی گئی ہے۔ پہلے سپریم کورٹ کا حکم ”بجا“ لاتے ہوئے وفاقی کابینہ نے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالا اور اب لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر وفاقی وزارت داخلہ نے حمزہ شہباز کا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا ہے، حمزہ شہباز کو لاہور ہائی کورٹ نے دس دن کے لیے لندن جانے کی بھی اجازت دی ہے۔

گزشتہ دنوں حکومتی اتحادی ق لیگ، بی این پی (مینگل) اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی طرف سے جس اضطراب کا مظاہرہ کیا گیا، لگتا ہے اس پر بھی قابو پا لیا گیا ہے اور اس میں شاید تحریکِ انصاف کی بجائے سرپرستوں کا کردار اہم ہے۔
سرپرست آہستہ آہستہ تمام حکومت مخالف عناصر کو رام کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ یہ امر گزرتے وقت کے ساتھ ہی واضح ہوگا۔

شاید وہ وقت بھی آجائے کہ خان صاحب پارلیمنٹ کو اہمیت دینا شروع کردیں۔ پھر چودھری فواد حسین کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ اپوزیشن وزیراعظم کا احترام کرے، وزیراعظم کی عزت ہم پر مقدم ہے۔ چودھری صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ جتنا عزت واحترام دوسروں کو دیں گے، اتنا ہی آپ کو ملے گا۔
کوئی مانے یا نہ مانے قدرت کی طرف سے عطاء کی گئی جغرافیائی حیثیت نے ایک بار پھر وطن عزیز کو اہم بنادیا ہے۔

جو موقع نائن الیون کے بعد جنرل (ر) پرویزمشرف کو ملا تھا، آج اس سے بھی شاندار موقع ملنے جارہا ہے۔ مقتدر حلقے اگر حالات کے مطابق پاکستان کے نظریاتی تشخص کی بنیاد پر صحیح فیصلے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاکر پاکستان گیم چینجر بن سکتا ہے، پھر معاشی بحران سے نمٹنا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔ اس وقت بھی برادر ممالک کی طرف سے ہمارے لیے محبت کا جو نقد اظہار کیا جارہا ہے، وہ بھی اسی جغرافیائی صورت حال کی وجہ سے ہے۔

وہ برادر ملک جو کبھی میاں صاحب کے صدقے واری جایا کرتے تھے، آج خان صاحب کی بلائیں لے رہے ہیں ۔یہ آمد سے زیادہ آورد کے ذیل میں آتی ہیں اور اس آورد کا اشارہ برادران کو بہت دور سے کیا گیا ہے۔
ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، جس نے پاکستان کو اس طرح کی جغرافیائی اہمیت عنایت فرمائی اور پھر ان سرپھروں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے، جنہوں نے اپنی شرائط پر امریکا بہادر سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔

افغان طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر کو قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کا انچارج اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنے والے وفد کا سربراہ مقرر کیا جانا ہمارے لیے امکانات کے دروازے کھل جانے کے مترادف ہے۔ ملا برادر کو 2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور پھر گزشتہ برس اکتوبر میں انہیں پاکستان سے رہا کیا گیا۔ مذاکرات کی میز قطر میں سجائی گئی ہے اور ملا برادر جلد قطر پہنچنے والے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے امیر ملا ہِبة اللہ اخونزادہ نے ملا برادر کو اپنا نائب منتخب کیا ہے، ان کی تقرری کا مقصد امریکا کے ساتھ جاری مذاکرات کو درست سمت میں رکھنا اور اسے بہتر بنانا ہے۔ ملا عبدالغنی برادر کا شمار ان چار افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے 1994ء میں طالبان کی بنیاد رکھی۔ 1996ء سے 2001ء کے دوران وہ طالبان کی طرف سے کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔


وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دو روزہ دورہٴ قطر اور وہاں ان کی پذیرائی اس امر کی غماز ہے کہ طالبان کی جدوجہد کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان کو آزادی ملے گی، بلکہ پاکستان بھی اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرسکتا ہے۔ ویسے تو اب یہ معمول ہے کہ وزیراعظم جب کسی بیرونی دورے پر جاتے ہیں تو جانے سے پہلے بھی اور واپسی پر بھی ان کی آرمی چیف سے تفصیلی ملاقات ہوتی ہے ۔

ملا برادر کے قطر دفتر اور مذاکراتی وفد کی سربراہ بننے کی خبر وزیراعظم کے دورہٴ قطر کے بعد ہی سامنے آئی ہے۔ اللہ کرے کہ سول اور ملٹری لیڈرشپ دانش مندی کا مظاہرہ کرے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ سول وملٹری لیڈر شپ ایک پیج پر ہے، اللہ کرے ایسا ہی رہے ،اگر حوصلہ کرکے پاکستان کے حقیقی دینی و مذہبی اور دیگر سیاسی قائدین کو بھی کم ازکم افغانستان کے حوالے سے اسی پیج پر لایا جائے تو ہم قومی انتشار وافتراق کے خاتمے کی راہ پر بھی گامزن ہوسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :