امریکا اور افغانستان کی دلدل۔ آخری قسط

جمعہ 13 اگست 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

افغانستان میں صوبائی دارالحکومت ایک کے بعد ایک اشرف غنی حکومت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہے ہیں اور طالبان کے کنٹرول میں جا رہے ہیں اس پر دنیا کے افغان تاریخ سے ناواقف عالمی ”دانشور“اور ”تجزیہ“نگار حیرت کا اظہار کررہے ہیں اس وقت طالبان جنگجو مکمل طور پر طاقتور نظر آ رہے ہیں اور افغان حکومت کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے پچھلے دنوں امریکی انٹیلیجنس کی لیک ہونے والی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ کابل آئندہ چند ہفتوں میں جنگجووٴں کے حملے کا نشانہ بن سکتا ہے اور کابل حکومت 90 دن کے اندر گِر سکتی ہے.

(جاری ہے)

امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں بشمول برطانیہ نے 20 سال تک افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کیا ہے ماضی میں لاتعداد امریکی اور برطانوی جرنیلوں نے طاقتور اور باصلاحیت افغان فوج تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگرآج یہ سب وعدے کھوکھلے نظر آ رہے ہیں افغان حکومت کے پاس جتنی بڑی افرادی قوت ہے اسے60 ہزار طالبان جنگجوؤں کے مقابلے میں بالادست ہونا چاہیے تھا مگر افغان فوج ‘انٹیلی جنس ‘پولیس اور قانون نافذکرنے والے ادارے تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہے ہیں کاغذی طور پر افغان سکیورٹی فورسز بشمول افغان فوج، فضائیہ اور پولیس میں تین لاکھ سے زیادہ اہلکار ہیں.

افغان فوج اور پولیس میں بے پناہ جانی نقصان، ہتھیار ڈال دینا‘اپنے ہتھیار اور جنگی سازوسامان فروخت کردینا اور کرپشن عام ہیں جبکہ کئی جرنیل ایسے افسروں اورسپاہیوں کی تنخواہیں وصول کرنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں جو درحقیقت کبھی فورسز میں بھرتی ہی نہیں کیے گئے امریکی کانگریس کے لیے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں سپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان نے ”کرپشن کے تباہ کن اثرات اور فوج کی حقیقی افرادی قوت کے متعلق ڈیٹا پر سنگین خدشات“ کا اظہار کیا ہے.

رائل یونائٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے جیک واٹلنگ کہتے ہیں کہ خود افغان فوج کو بھی کبھی حقیقی طور پر معلوم نہیں رہا ہے کہ ان کے پاس کتنے سپاہی ہیں اس کے علاوہ سامان کی دیکھ بھال اور مورال برقرار رکھنے کے مسائل بھی اپنی جگہ ہیں سپاہیوں کو اکثر ایسے علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان کے کوئی قبائلی یا خاندانی تعلقات نہیں ہوتے یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ کیوں کچھ فوجی لڑے بغیر ہی فوراً ہتھیار ڈال رہے ہیں اس سے بھی زیادہ مشکل کام طالبان کی قوت کا اندازہ لگانا ہے امریکہ کے ”کومبیٹنگ ٹیررازم سینٹر ویسٹ پوائنٹ“ کے مطابق طالبان کے پاس 60 ہزار جنگجو موجود ہیں مگر پشتو بولنے والے سابق برطانوی فوجی عہدیدار ڈاکٹر مائیک مارٹن نے اپنی کتاب ”این انٹیمیٹ وار“ میں طالبان کو ایک یکتا گروہ تصور کرنے کے خطرات سے خبردار کیا ہے اس کے بجائے ان کا موقف ہے کہ طالبان ایک دوسرے سے منسلک آزاد گروہوں کا ایک اتحاد ہے اور ممکنہ طور پر یہ عارضی اتحاد ہی ہے ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت بھی مقامی دھڑوں کے مفادات کی شکار ہے افغانستان کی بدلتی ہوئی تاریخ سے یہ واضح ہے کہ کیسے خاندان، قبائل اور یہاں تک کہ حکومتی عہدیدار بھی اپنی بقا کی خاطر وفاداریاں بدلتے رہے ہیں ہتھیاروں تک رسائی کے معاملے میں بھی افغان حکومت کے پاس فنڈنگ اور ہتھیاروں کے حوالے سے برتری ہونی چاہیے.

افغان حکومت کو فوج اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تنخواہوں اور ساز و سامان کی مد میں اربوں ڈالر ملے ہیں جن میں سے اکثریتی فنڈنگ امریکہ نے کی ہے جولائی 2021 کی رپورٹ میں سپیشل انسپکٹر برائے افغانستان نے کہا کہ افغانستان کی سلامتی پر اب تک 88 ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں مگر آج تک اس رقم کا آڈٹ ہوا نہ ہی افغانستان میں پچھلے بیس سالوں کے دوران قائم کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں نے اربوں ڈالر کی تفصیلات فراہم کی ہیں.

افغانستان ایئر فورس اپنے 211 طیاروں کی دیکھ بھال اور ان کے لیے عملے کو برقرار رکھنے میں مشکلات کی شکار ہے کیونکہ افغان فضائیہ کے افسران اور عملے کے اراکین کی اکثریت نے امریکا میں پناہ کی درخواستیں جمع کروارکھی ہیں یہی صورتحال فوج ‘پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں میں ہے امریکا کے امیگریشن محکمے کے مطابق افغانستان سے موصول ہونے والی درخواستوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے جن کو پراسس کرنے میں سالوں لگ سکتے ہیں .

افغانستان میں ”تحفظ و استحکام“ قائم کرنے کے لیے دنیا کے 30رکن ممالک رکھنے والا فوجی اتحاد” نیٹو“ میں امریکا‘برطانیہ‘جرمنی‘ کینیڈا‘بیلجئیم‘ڈنمارک‘ نیدرلینڈ‘سپین‘اٹلی ‘ناروے اورفرانس جیسی فوجی اور معاشی طاقتیں بھی شامل ہیں جبکہ آئس لینڈ اور ہنگری فوجی اعتبار سے نہ سہی مگر معاشی طور پر مضبوط ملک ہیں نیٹو کے باقی اتحادی ترقی پذیر ممالک ہیں ترکی واحد اسلامی ملک ہے جو اس اتحاد کا حصہ ہے مگر امریکا اور نیٹو اتحادیوں کی کوششیں بھی سوویت یونین کی طرح ناکام رہیں .

امریکا اور نیٹو نے افغانستان کے ساتھ وہ کیا ہے جیسے کسی کے گھر میں زبردستی غنڈے گھس جائیں اور سارے گھر کو تہہ نہس کرکے یہ کہہ کرچلتے بنیں کہ گھر والے ذمہ دار ہیں لہذا وہی اپنے گھر کی تعمیرنو کریں اگر کابل حکومت کی بات کی جائے تو بیس سالوں میں دو صدر آئے ہیں حامدکرزئی نے بھارت اور امریکا میں تعلیم حاصل وہ اور ان کا خاندان پاکستان میں پناہ گزین رہا مگر انہوں نے دوستی ہمیشہ بھارت سے نبھائی اسی طرح اشرف غنی روس کے افغانستان پر قبضے کی کوشش کے دوران انیس سو سترکی دہائی کے آخرمیں اعلی تعلیم کے لیے امریکا گئے اور وہیں بس گئے سال 2001میں طالبان حکومت کے خاتمے تک وہ امریکا میں عالمی بنک کی نوکری کررہے تھے اسی طرح افغان پارلیمان کے اراکین کی اکثریت کو بھی مختلف ممالک سے لاکر انہیں منتخب کروایا گیا اشرف غنی بھی اپنے پیش رو کی طرح بھارت کے قریبی دوست رہے.

افغانستان میں 20سال کی طویل اور جدید دنیا کی مہنگی ترین جنگ میں عہد حاضر کی ٹیکنالوجی 1970کی دہائی کے پرانے اسلحے سے زیرکیسے ہوئی اور افغانستان میں مستحکم فوج اور ادارے کیوں نہیں قائم ہوسکے عالمی طاقتوں کی شکست کے مختلف پہلوؤں ہیں جن میں سرفہرست ”درآمد“شدہ حکومتوں اور پارلیمنٹ کو مسلط کرنا سرفہرست ہے امریکی اگر ہرمعاملے میں رعونت دکھانے کی بجائے مشاورت سے کرتے تو حالات مختلف ہوتے مگر انہوں نے مشاورت کی نہ ہی افغان تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی .

اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ بیس سال میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور اربوں ڈالر خرچ کرکے جو ”ہائی ٹیک“افغان فوج اور سیکورٹی ادارے قائم کیئے گئے تھے ان کے افسر اور اہلکارامریکا اور نیٹواتحادیوں سے ملنے والے ہتھیار اور جنگی سازوسامان طالبان کو بیچ رہے ہیں اس بات کا اعتراف امریکی حکام نے بھی کیا ہے کہ افغان فوج ہموی بکتر بند گاڑیاں، نائٹ وژن عینکیں، مشین گنیں، مارٹر گولے اور توپوں سمیت جنگی سازوسامان رضاکارانہ طور پر طالبان کے حوالے کررہے ہیں یا انتہائی سستے داموں انہیں فروخت کررہے ہیں جس کی سیکوٹی فورسزکی تنخواہیں کی کئی ماہ سے عدم ادائیگی بتائی جارہی ہے جس کے بارے میں افغان حکام کا موقف ہے کہ امریکا اور نیٹواتحادی افغان نیشنل آرمی اور دیگرسیکورٹی فورسزکی جانب سے اداکی جارہی تھیں مگر چند ماہ قبل یہ ادائیگیاں بغیرکسی پیشگی اطلاع کے روک دی گئیں.

اگر امریکا اور نیٹواتحادی دنیا بھر سے افغان نڑاد دوہری شہریت کے حامل لوگوں کو لاکر افغانستان پر مسلط نہ کرتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اگر افغانستان کے بڑے قبائل کے سرداروں کے جمع کرکے ایک قومی حکومت تشکیل دیدی جاتی تو آج افغانستان طالبان کے لیے ترنوالہ ثابت نہ ہوتا انہوں نے کہا کہ امریکی اور نیٹواتحادی یا تو افغانستان کی تاریخ اور معاشرت سے ناواقف تھے یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار.

افغانستان کا مسلہ 2018میں بھی اس وقت حل کیا جاسکتا تھا جب طالبان کی جانب سے لویہ جرگہ بلانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا اس وقت لویہ جرگہ کے ذریعے کابل میں قومی حکومت قائم کی جاسکتی تھی اور اس صورتحال میں امریکا اور نیٹو اتحادیوں کے پاس افغانستان سے باعزت طریقے سے نکلنے کا موقع موجود تھا مگر انہوں نے غیرحقیقی رپورٹوں پر یقین کرتے ہوئے اس موقع کو گنوادیا امریکا کے پاس فوجیں نکالنے کے اعلان سے قبل بھی ایک آخری موقع تھا کہ وہ اپنے زیراثراشرف غنی اور ان کی کابینہ کو مستعفی کروا کر طالبان کو قومی حکومت بنانے کے لیے نئے انتخابات کروانے کا آپشن دے سکتا تھا اس صورت میں امریکا کی وہ جنگ ہنسائی نہ ہوتی جس کا سامنا اسے رات کے اندھیرے میں بگرام چھوڑتے ہوئے کرنا پڑا‘ افغانستان میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی امریکا اور نیٹواتحادیوں کو اس کا آڈٹ کروانا چاہیے اس سے بہت سارے دہلا دینے والے حقائق سامنے آئیں گے.

دوسری وجہ ناقص منصوبہ بندی اور جنگ کے دوران اتحادیوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد تھا اس بارے میں برطانوی فوج کے سابق بریگیڈ کمانڈربین بیری جوکہ انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے سینیئر فیلو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان کو موقع پرستی سے فائدہ حاصل ہوا ہے وہ طالبان کی جانب سے اپنے روایتی جنوبی گڑھ کے بجائے شمال اور مغرب پر توجہ کی جانب نشاندہی کرتے ہیں جہاں ایک کے بعد ایک علاقائی دارالخلافہ ان کے قبضے میں آتا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ امریکا اور نیٹو اتحادیوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ پچھلے بیس سالوں سے طالبان شمالی اتحاد کے علاقوں میں اپنا نیٹ ورک بنا رہے تھے؟ طالبان نے اہم سرحدی کراسنگز اور چیک پوائنٹس پر قبضہ کرکے کابل حکومت کے مالی مسائل میں اضافہ کیاجسے ایک بہترین جنگی حکمت عملی کہا جاسکتا ہے.

بین بیری کا کہنا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں میں جانے والے تمام علاقے واپس حاصل کرنے کے حکومتی اعلانات انتہائی کھوکھلے محسوس ہو رہے ہیں بظاہر بڑے شہروں کو کنٹرول میں رکھنے کا منصوبہ موجود ہے افغان کمانڈوز کوہلمند کے شہر لشکرگاہ کو حکومتی کنٹرول میں رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا مگر وہاں وہ شکست کھا چکے ہیں بیری کہتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں پے در پے کامیابیوں کے بعد یقینی طور پر طالبان کے مورال میں اضافہ اور سرکاری سیکورٹی فورسزکا مورال گرا ہے افغان حکومت پسپائی کی شکار نظر آ رہی ہے اور اپنے جرنیلوں کی سرزنش کر رہی ہے یا انہیں برطرف کر رہی ہے مگر اب ڈیمج کنٹرول ممکن نہیں رہا.

افغان حکومت کے لیے یہ پورا منظر نامہ نہایت تاریک ہے مگر جیک واٹلنگ کہتے ہیں کہ بھلے ہی افغان فوج کے لیے صورتحال نہایت مایوس کن ہے مگر سیاست اب بھی اس صورتحال کو بچا سکتی ہے اگر حکومت مقامی قبائلی راہنماؤں کا اعتماد حاصل کر لے تو اب بھی کوئی راستہ نکل سکتا ہے مائیک مارٹن بھی اسی خیال کے حامل ہیں اور وہ مزارِ شریف میں سابق جنگجو سردار عبدالرشید دوستم کو ایک اہم مہرہ قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی وہاں معاہدے کر رہے ہیں تاہم ہمارے خیال میں دونوں ماہرین ابھی تک زمینی حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہیں دنیا میں شکست خوردہ فریق سے کوئی اتحاد نہیں کرتا مگر افغانستان میں تو معاملہ اور بھی ٹیڑاہے پہلے پشتون اکثریتی قبائیلی سرداروں کی حمایت طالبان کو حاصل تھی اب انہیں ازبک اور تاجک النسل قبائلی سرداروں کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے.

شمالی اتحاد کے علاقوں پر قبضہ پشتو بولنے والے طالبان نے نہیں بلکہ ازبک اور تاجک النسل کمانڈروں اور جنگجوؤں نے کیا ہے جنہیں مقامی قبائلی سرداروں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اس کے علاوہ فارسی بولنے والا ایک اور بڑالسانی علاقہ تہران اور واشنگٹن کی کشمکش کی وجہ سے طالبان کا حامی بن کرسامنے آیا ہے جوکہ ماضی میں طالبان کے خلاف رہا ہے موسم بھی آنے والے دنوں میں اہم کردار اداکرئے گا کیونکہ آرام طلب افغان سیکورٹی فورسزکے لیے سردیوں میں نقل و حرکت کرنا آسان نہیں ہوگا جبکہ طالبان کی چھاپہ مارکاروائیاں ہر موسم میں جاری رہتی ہیں کنونشنل جنگ میں تو موسم دونوں فریقین کی کارکردگی پر اثراندازہوتا ہے مگر گوریلاوار میں موسم کی شدت طالبان کے حق میں جاتی ہے بیس سالہ جنگ کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے.

پاکستانی حکومت کو اس صورتحال میں اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے کابل حکومت اور امریکا کے الزامات پر وسیع تر تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے-جاتے جاتے ایک خبرکہ طالبان اور امریکا کے درمیان 31اگست کو مکمل انخلا تک ”معاہدے“ کے تحت معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے اور آنے والے چند ماہ میں افغانستان میں ایک قومی حکومت قائم ہونے جارہی ہے جس میں طالبان سب سے بڑے حصے دار ہونگے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :