بارشوں نے کراچی کا انفرااسٹرکچر تہس نہس کردیا

بدھ 7 اگست 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

کراچی کی حالیہ بارشوں نے شہر کا انفرااسٹرکچر اس مرتبہ پھر تہس نہس کردیا ۔شہرمیں کرنٹ لگنے کے واقعات میں 22افراد کا جاں بحق ہونا اور ان کے اہل خانہ کی داد رسی کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت کے کسی نمائندے کا ان کے گھر نہ جانا بے حسی کی بدترین مثال ہے ۔ماضی میں بھی کئی سال تک ایسا ہوتا رہا لیکن حقیقی طور پر دیکھا جائے تو شہر کراچی گزشتہ تین دہائیوں سے جن مسائل کا شکار رہا اس میں سکیورٹی سب سے اہم تھی ۔

اگرچہ اس وقت ایم کیو ایم کے پاس شہر کا سب سے زیادہ مینڈیٹ تھا لیکن انہوں نے کراچی کو سیاسی طور پر کنٹرول کیا لیکن شہر کے انفرااسٹرکچر کو بہتر کرنے کی جو کوشش ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی ۔غیر قانونی تعمیرات جسے چائنہ کٹنگ کہتے ہیں اس کا ایک طویل سلسلہ شہر بھر میں نظر آیا ۔

(جاری ہے)

2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت آنے کے بعد اس شہر کے ساتھ اور برا سلوک ہونے لگا ۔

سندھ حکومت تو پیپلزپارٹی کو مل گئی لیکن شہر کراچی کا مینڈیٹ اس کے پاس نہیں تھا اور نہ ہے ۔اس طرح اس شہر پر بدقسمتی کے بادل اور گہرے ہوتے چلے گئے ۔اب اس کے ندی نالوں میں محض 60میٹر بارش برداشت کرنے کی ہمت نہیں ،پانی کے قدرتی راستوں پر تعمیرات بن چکی ہیں ۔شہر کراچی کا ماسٹر پلان جس کا ہر جگہ شور ہے کہیں نظر نہیں آتا ۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کیا گیا اور منظور قادر کاکا جیسے لوگوں نے غیر قانونی تعمیرات کا جنگل کھڑا کروایا ۔

سیوریج سسٹم برباد ہوگیا اور اتنا بڑا شہر پہلے ہی صاف پانی کی کمی کا بری طرح شکار ہے اور مسائل میں گھر گیا ۔الغرض سندھ حکومت نے 2008میں بلدیاتی نظام کو بے اثر کیا ۔اس شہر کو بہتر بنانے کا کریڈٹ حاصل کرنے کا سنہری موقع ضائع کردیا ۔سپریم کورٹ کے حکم سے جب بلدیاتی الیکشن کروائے تو نظام اپنی مرضی کا بنایا جو عوام کے مسائل حل نہیں کرپارہا ۔

لوگوں کی مشکلات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ۔
پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا ہے کہ شہر کی صفائی ڈسٹرکٹ میونسپل کاپوریشنز کی ذمہ داری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گندگی موجود ہے تو صوبائی حکومت ان سے باز پرس کیوں نہیں کرتی ۔اس وقت کراچی میں کچرا تو اپنی جگہ پاکستان تحریک انصاف کو اپنی سیاسی ساکھ متاثرہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے ۔

الیکشن 2018میں انہیں صوبائی اور قومی اسمبلی کا مینڈیٹ ملا ۔صوبے میں ان کا گورنر موجود ہے اور شہر کراچی کی اہم شخصیت صدر ملمکت کے منصب پر فائز ہے ۔وفاقی وزراء کی ایک معقول تعداد کا تعلق کراچی سے ہے اور شہر لاوارث کا لاوارث شمار ہورہا ہے ۔وزیراعظم عمران خان نے میئر کراچی وسیم اختر کی درخواست پر وفاقی وزیر سید علی زیدی کو کلین کراچی مہم شروع کروادی ہے ۔

دو ہفتوں میں شہر بھر کی گندگی ٹھکانہ لگانے کا ارادہ ہے ۔
میئر کراچی نے اس موقع پر اپنی بھڑاس نکالی لیکن سندھ حکومت تعاون کرنے کی بجائے تنقید کررہی ہے ۔گورنرسندھ عمران اسماعیل کی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے اختیارات کم کرنے شروع کردیئے ہیں ۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے اب ریاستیں دکھائی دیتی ہیں ۔سندھ کابینہ نے گورنر سندھ سے محتسب کی تعیناتی کا اختیار لے لیا ہے ۔

مزید کئی اختیارات بھی واپس لینے کی خبریں ہیں ۔گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے لیکن اس کے اختیارات کا تعین صوبائی حکومت کررہی ہے۔ اب گورنر سندھ عمران اسماعیل کا فریضہ حج پر جانے کا ارادہ ہے ۔ان کی عدم موجودگی میں اسپیکر صوبائی اسمبلی قائم مقام گورنر کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے ۔اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نیب کی تحویل میں اسپیکر اسمبلی تو ہیں لیکن کیا گورنر بھی بھی بن سکتے ہیں ۔

قانونی ماہرین بھی اس پر خاموش ہیں ۔اگر پاکستانی سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ نہ نکلا ہوتا تو وہ بحیثیت اسپیکر بھی خدمات انجام نہ دیتے ۔اب حفاظتی حصار میں ہوسکتا ہے کہ وہ گورنر سندھ کے فرائض بھی ادا کریں اور ہم دنیا کو ایک نیا ریکارڈ دے دیں ،لگتا ہے کہ ان کی اعلیٰ قیادت کی یہی خواہش ہو کہ ایسا ہوجائے ۔
کراچی صفائی مہم کے لیے چندہ جمع ہورہا تھا اور سندھ حکومت پر تابڑ توڑ حملے ہورہے تھے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی سندھ کابینہ میں توسیع کرنے کے فرائض انجام دے رہی تھی ۔

ایک سیاسی ماہر کے مطابق سندھ کابینہ میں محترمہ فریال تالپور کے حمایتی اراکین کی تعداد ،وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے حامیوں سے بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر سید ناصر حسین شاہ ،سہیل انور سیال قابل ذکر ہیں ۔
سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے تو اندازہ ہوا کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان جو رومانس سینیٹ الیکشن میں پروان چڑھا اس کی بازگشت اب قومی اسمبلی میں بھی نظر آنے لگی ہے اور ساتھ ساتھ اومنی گروپ جس سے سابق صدر صدر کا بالواسطہ تعلق بتایا جاتا ہے کے اہم افراد کی پلی بارگین کی درخواست بھی منظور ہوئی جبکہ باخبر ذرائع کے مطابق اومنی گروپ کی طرف سے بھاری رقوم کی ادائیگی متوقع ہے اس طرح جعلی اکاوٴنٹس کا قصہ تمام ہوجائے گا ۔

کراچی اسٹاک ایکس چینج میں مندی کا رجحان غالب ہے ۔حکومت نے 20ارب روپے کا فنڈ جاری کرکے اسے سہارا دینے کی کوشش کی تھی جو ضائع ہوگئے ،ماضی میں ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے لہذا اسٹاک مارکیٹ جو کہ سٹے کا کاروبار ہے وفاقی حکومت اس کے لیے قوم کی اتنی بڑی رقم کیوں ضائع کرتی آرہی ہے ۔موجودہ حکومت کو کم از کم سٹے بازی کے لیے ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے ۔

ڈالر کی اڑان کسی حد تک رکتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔کچھ دن پہلے یہ خبر زیر گردش تھی کہ کمرشل بینکوں کو بھی کرنسی کی خرید و فروخت کی اجازت مل جائے گی لیکن اسٹیٹ بینک کے ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی ۔کمرشل بینکوں کو بھی ایسی کوئی اطلاعات نہیں ،کرنسی کی خریدو فروخت کا ایک مکمل بینک وقت کی ضرورت ہے اور کرنسی ڈیلرز کا نظام ختم کردینا ہی ملکی مفاد میں ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :