کراچی میں بارشیں اورتباہ حال انفرااسٹرکچر

جمعرات 22 اگست 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

کراچی میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے شہر کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ حال نظر آرہا ہے۔ شاہراہیں جن میں شاہراہ فیصل جسے سندھ حکومت نے ایک طرح سے بڑے پیمانے پر تعمیر و مرمت کے مراحل سے گذرا اور دعویٰ کیا کہ اب یہ آج کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ کراچی میں ہونے والی اس بارش میں دریا کا منظر پیش کرنے لگی، اگر شاہراہ فیصل کا یہ حال تھا تو دوسری تمام شاہرائیں ، گلی کوچے کس طرح متاثر ہونگے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔


وفاق، سندھ اور شہری حکومت کا ایک دوسرے کو الزامات کی زد میں رکھنے کا سلسلہ بھی چلتا رہا، کراچی کے میئر وسیم اختر نے لفظی گولہ باری جاری رکھی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کاسمیٹک پرفارمنس دکھانے کی بہت کوشش کی۔ ٹی وی چینلز کی پسندیدہ ٹیم کے ہمراہ بارش زدہ علاقوں اور بدین و ٹھٹھہ کا دورہ کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ متاثرہ علاقوں کے لیے بہت تگ و دو کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

بہرحال یہ سب بے سود تھا، شہر ابھی بھی کیچڑ اور کچرے سے بھرا ہوا ہے۔
شہر کو آفت زدہ قرار دینا نہ دینا اپنی جگہ، شہر کراچی اس وقت آسیب زدہ بھی ہے اور آفت زدہ بھی۔ وفاقی وزیر سید علی ز یدی کی صفائی مہم بھی کہیں گم ہوگئی ہے۔ انہوں نے اس صفائی مہم کو چندہ جمع کرو مہم میں تبدیل کردیا تھا، چند ایک اداروں سے رقوم جمع بھی کی گئیں۔ کراچی چیمبر اور دیگر تاجر تنظیموں کی جانب سے تعاون کی اطلاعات بھی آئیں لیکن پھر عوام مایوسی کا شکار ہوگئے۔


عید قربان، جشن آزادی اور بارشوں کے شور میں کراچی میں پانی کی شدید قلت تھی، ٹینکر مافیا ایک مرتبہ پھر اپنی مرضی کے دام وصول کرکے پانی فروخت کرتا رہا۔ حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کچھ عرصہ قبل بہت جوش میں ایک اجلاس بلایا تھا جس میں صرف اور صرف پانی کے مسائل کو حل کرنے پر بات ہوئی تھی، وہ قصہ بھی ماضی ہوگیا۔

ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔ اپوزیشن کی اے پی سی بھی بے اثر ہوگئی ۔
 سابق صدر آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کیس کا ریفرنس دائر ہونے کا امکان ہے، اس دوران ان کے ریمانڈ میں 5 ستمبر تک توسیع بھی کردی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئندہ چند دنوں میں اپوزیشن کے چند اہم افراد کی گرفتاری کی بھی اطلاعات ہیں۔

جس سے اپوزیشن کی طاقت مزید کم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
پاک بھارت کشیدگی کے دوران ہی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع سے صورتحال یکسر حکومت کے حق میں جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ گویا اپوزیشن کا بیانیہ کافی حد تک دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی عدم دلچسپی کے بعد مولانا فضل الرحمن کو جو امیدیں تھیں وہ بھی بآور ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

یوں دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن اب حکومت ہٹاو تحریک سے آہستہ آہستہ خاموشی اختیار کرے گی۔ یا کم از کم اس میں شدت کا عنصر دم توڑ دے گا۔
ایک خبر کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی سے رینجرز کی واپسی کو موضوع بناتے ہوئے تجاویز طلب کی تھیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ چیف سیکریٹری سندھ نے اس پر اختلافی نوٹ لکھ دیا ہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل حج کی سعادت حاصل کرکے وطن واپس آچکے ہیں، ان کی عدم موجودگی میں کراچی کے عوام شدید ترین مسائل کا شکار رہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے پاس ان مسائل کا کوئی حل بھی نہیں ہے ۔

بجلی پانی کے مسائل ہوں، تشدد سے ہلاکتوں پر شہریوں کا غم و غصہ ان کے پاس اس شدتِ غم کو کم کرنے کا کوئی نسخہ نہیں جو گفتگو وہ گذشتہ ایک برس سے کررہے تھے، اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنی ایک سالہ کارکردگی پیش کی ہے لیکن کراچی کا کوئی ایک پروجیکٹ بھی اس کا حصہ نہیں ، پانی، سرکلر ٹرین، گرین لائن وغیرہ سب جوں کے توں ہیں۔

شہر کراچی کے مضافات میں ماحولیات کی بہتری کیلئے ایک بڑے جنگل کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ آئندہ چند سالوں میں کراچی میں درجہ حرارت مزید بڑھ جائے گا۔
گذشتہ ایک ہفتے سے کراچی کے عوام جس اذیت کا شکار رہے، اس کا نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ بہت سے سوشل ورکرز اور سماجی بہبود کے اداروں نے مل بیٹھ کر کراچی کی آواز بننے کا فیصلہ کیا۔ اس میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی اہم شخصیات سرفہرست ہیں۔

محترمہ نرگس رحمان کا نام ان میں سے ایک ہے۔
تمام شرکاء اجلاس نے اس بات پر زور دیا کہ کسی طرح شہری حکومت کے اختیارات میں اضافہ کی تحریک چلائی جانی چاہیے۔ سرکاری اداروں کو فعال کرنے پر زور دینا چاہیے۔ تحریک انصاف، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ شہر کراچی کے مسائل کے حل پر سیاست بازی سے گریز کیا جائے۔
کراچی کے تاجر بھی اس صورتحال سے نالاں ہیں، مارکیٹوں میں گندگی ہونے کی وجہ سے ان کے کاروبار متاثر ہورہے ہیں۔

تاجر تنظیموں نے بھی حکومت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ جلد از جلد شہر سے غلاظت کو صاف کرے اور زندگی کو بحال کرے۔
ایم کیو ایم گذشتہ ایک برس سے اس کوشش میں تھی کہ کسی طرح اسے اپنے دفاتر بحال کرنے کی اجازت ملے۔ اہم اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم پر واضح کردیا گیا ہے کہ ماضی کی طرح حکومتی املاک میں پارٹی دفاتر نہیں کھولے جاسکیں گے۔ پرائیویٹ جگہوں پر پارٹی اپنے دفاتر کھول سکتی ہے۔


اس وقت ایم کیو ایم تنظیمی لحاظ سے بہت کمزور ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار ایک زخمی شیر کی طرح اپنی پرانی پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیوں پر گاہے بگاہے دھاڑتے رہتے ہیں، ممکن ہے ان کی کچھ تشفی ہوتی ہو۔
یوم آزادی کے موقع پر حسب سابق کراچی کے شہریوں نے ریکارڈ خریداری کی اور نامساعد حالات کے باوجود یوم آزادی بھرپور انداز سے منایا۔

اگرچہ اس موقع پر انہیں ان تمام مسائل کا سامنا تھا، جس کا وہ کئی سالوں سے شکار رہے ہیں۔ لیکن کشمیر کی کشیدہ صورتحال کے تناظر میں ”کشمیر بنے گا پاکستان “ کا نعرہ مقبول رہا اور شہر کے ہر علاقے میں یوم آزادی کا جذبہ دیکھا گیا۔
وزیرریلوے شیخ رشید احمد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کراچی سے چلنے والی تمام ٹرینیں وقت پر چلانے سے قاصر نظر آرہے ہیں، انہوں نے چند ماہ پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ زیادہ وقت کراچی میں گزاریں گے ، لیکن ابھی تک انہوں نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا ، ریلوے کو مزید بہتر بنانے کیلئے انہیں کراچی سے روانہ ہونے والی ٹرینوں پر توجہ دینی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :