تاجروں کی آرمی چیف سے ملاقات ،ملک میں ہلچل

جمعہ 11 اکتوبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

پاکستان کے نامور بزنس ٹائیکون کا تیس رکنی وفد چیف آف آرمی اسٹاف سے ملا تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ تعریف اور تنقید کا ملا جلا رحجان ابھی تک جاری ہے۔ معروف بزنس مین عارف حبیب نے ایک ٹی وی شو میں دعویٰ کیا کہ مذکورہ ملاقات کی دعوت آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے دی گئی تھی۔ تاحال آئی ایس پی آر نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ لیکن مجموعی طور پر اس ملاقات پر شدید تنقید بھی ہوئی ہے کہ سیکورٹی ادارے کے سربراہ قومی سلامتی کے معاملات میں تو اپنا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن سیاسی، اقتصادی معاملات میں متعلقہ اداروں کو ہی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔

نیشنل اکنامک کونسل میں بھی چیف آف آرمی اسٹاف کو شامل کرلیا گیا ہے چونکہ فاٹا اور بلوچستان کے علاقوں میں پاک آرمی کی وساطت سے ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔

(جاری ہے)

مذکورہ وفد میں شامل ایک معروف بزنس مین نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر اس ملاقات کا جو احوال نشر کیا جارہا ہے، وہ من گھڑت ہے۔ اسی ملاقات کے نتیجے میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پریس کانفرنس اور ٹیکس کے معاملات میں نیب کی مداخلت بند کرنے کا اعلان کردیا۔


وزیراعظم عمران خان سے بھی چیمبرز کے سربراہوں نے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوگی کہ معیشت میں گراوٹ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ نیب کی کاروائیوں کی وجہ سے ہے۔ بزنس ٹائیکون ، چیف آف آرمی اسٹاف کے سامنے نیب کے اختیارات اور ان کے طریقہ استعمال کا رونا روتے رہے اور کاروباری برادری میں پائے جانے والے خوف و ہراس کی وجوہات بیان کیں، اپوزیشن کی جماعتیں، ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا وار میں تحریک انصاف کو ایک ناکام حکومت ثابت کرنے کی بڑی وجہ معیشت میں زوال اور حکومت کی کاروبار دشمن پالیسیاں اجاگر کررہی تھی، لیکن کاروباری حضرات کی کاروباری سرگرمیاں روکنے کی بڑی وجہ نیب تھی، اس کا اظہار انہوں نے خود کردیا ۔


کاروباری حضرات کے موقف سے اپوزیشن کا بیانیہ کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ بھی حقیقی طور پر نیب کے خلاف ہی ہے، کیونکہ درپردہ ان کو جو سپورٹ حاصل ہے، وہ بھی نیب کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ گویا نیب ایک خوف کی علامت بن کر سامنے آچکا ہے۔ اگر احتساب کا عمل بند کردیا جائے تو سیاسی اور کاروباری شخصیات خوف و ہراس سے باہر نکل آئیں گے، اگر گذشتہ راہ صلوٰة اور آئندہ راہ احتیاط کا نعرہ لگادیا جائے تو شاید تحریک انصاف اور عمران خان وزیراعظم پاکستان کے خلاف میڈیا وار میں بھی کمی آسکتی ہے۔


پیپلز پارٹی کی قیادت نے مولانا فضل الرحمن کو اقرار نہ انکار کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھنے دیا، لیکن درپردہ معاملات کچھ اور ہیں۔ سیاسی طو ر پر آصف علی زرداری کبھی نہیں چاہیں گے کہ مولانا فضل الرحمن کی حکومت گراؤ تحریک کے نتیجے میں سیاسی سرگرمیاں ہی معطل ہوجائیں۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتیں شطرنج کی چال کی طرح ایک دوسرے کو شہہ دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں، لیکن کسی کو مکمل مات دینے کی ہمت کسی ایک میں نہیں ہے۔

ایسی ہی ایک شہہ تحریک انصاف کی ایماء پر ایم کیو ایم پی نے پیپلز پارٹی کو دی ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں نئے صوبوں کی تشکیل میں صوبائی اسمبلی کے اختیارات ختم کرنے اور نئے صوبے کا حق وفاق کو دینے کا بل پیش کیا۔ ایم کیو ایم پی کی رکن اسمبلی محترمہ کشور زہرہ نے بل جمع کروایا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے مجوزہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے لاء اینڈ پارلیمانی امور کو بھجوادیا ، لیکن اس کے بعد سندھ اسمبلی میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔

اس حوالے سے جی ڈی اے بھی پی پی پی کی ہمنوا بن گئی۔     
قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے خلاف پیپلز پارٹی کی جانب سے مذمتی قرار داد پیش کی گئی، رکن صوبائی اسمبلی غلام قادر چانڈیو نے قرار داد پیش کی۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے اراکان واک آؤٹ جی ڈی اے کی نصرت سحر عباسی نے بھی اپنی جانب سے تحریک پیش کی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے کیوں نہیں بننے چاہئیں؟ کسی صوبے کی ا نتظامی بنیادوں پر تقسیم عوام کے مفاد میں ہی ہوتی ہے۔

کیا قومیت پرستی پاکستان پرستی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اپنے علاقے ، شہر اور صوبے سے یقینا محبت ہونی چاہیے، لیکن ملک کا اور عوام کا مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے۔ محبت اور عصبیت دومختلف رویے ہیں، اس کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ برٹش انڈیا میں سندھ، بمبئی کا حصہ تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1928ء میں اپنے پیش کردہ چودہ نکات میں مطالبہ کیا تھا کہ سندھ کو بمبئی سے الگ کردیا جائے، کیونکہ انتظامی طور پر سندھ کے عوام کو بمبئی تک رسائی آسان نہیں تھی۔

لہذا سندھ کو بمبئی سے الگ کیا گیا تھا۔ اب اگر سندھ میں انتظامی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے تو اس پر وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اگر پیپلز پارٹی اور جی ڈی اے چاہتی ہے کہ انتظامی معاملات کیلئے نئے صوبے نہ بنیں تو کم از کم سندھ میں حقیقی معنوں میں ڈیولوشن (Devolution)پلان نافذ کردیں۔ تمام ڈویژن کو اپ گریڈ کرکے ریجن کا درجہ دے دیں، بلدیاتی نظام کو ضلع، تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پر بااختیار بنادیں تو ہوسکتا ہے کہ اسی انداز سے مسائل کا حل نکل آئے۔


اختیارات مالی اور سیاسی اگر ایک جگہ پر مرکوز رہیں گے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے، جیسے کہ اب ہورہا ہے۔ جب استحصال اور زیادتی ہوتی ہے تو بے چینی بڑھتی ہے۔ کراچی اور اندرون سندھ کی کیفیت ایسی ہی ہے۔ بے چینی بڑھ چکی ہے، استحصال اب ظلم کے زمرے میں آتا ہے، ایسی صورتحال کا انجام دیرپا بادیر بخیر نہیں ہوتا۔ حکومت کرنا یہ نہیں کہ اپنے مفادات کی نگرانی کی جائے بلکہ دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

پاکستان کے سیاسی نظام میں استحصال کے خاتمے کیلئے وسعت نظر، وسعت ذہن اور وسعتِ قلب کی ضرورت ہے، تبھی حقیقی اصلاحات ممکن ہوں گی۔
چینی سفیر یوجنگ، کراچی کونسل آف فارن ریلیشنز کی دعوت پر کراچی تشریف لائے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کیا اور حاضرین کے سخت اور تلخ سوالات کا بھی سامنا کیا، سی پیک کے حوالے سے عمومی تاثر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سیمینار بہت اہمیت کا حامل تھا۔

چینی سفیر نے کہا کہ ہم گوادر اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ حکومت پاکستان نے ہمیں متعدد بار دعوت دی، ہمارے گوادر میں کوئی فوجی مقاصد نہیں ہیں۔ انہوں نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی، جس میں چین کی جانب سے گوادر میں کوئی ایئربیس یا نیول بیس بنانے کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ پاک چین تعلقات اور سی پیک کے حوالے سے منفی خبروں کو انہوں نے من گھڑت قرار دیا اور اس کا الزام مغربی میڈیا کے بے جا پروپیگنڈہ پر لگایا۔ ایک بزنس مین کی جانب سے اٹھائے جانے والے متعدد سوالات میں سے اہم ترین نقطہ یہ تھا کہ 44 ارب ڈالر کی چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ یہ قرض دیا گیا ۔ گویا اس کا بوجھ بھی پاکستانی قوم نے اٹھانا ہے جو پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :