نمرتا کی موت عدالتی تحقیقات میں قتل ثابت

جمعرات 14 نومبر 2019

Mubashir Mir

مبشر میر

کوئٹہ میں سردی کی لہر آتے ہی اس کے اثرات شہر کراچی تک پہنچ چکے ہیں، سمندری طوفانوں کی وجہ سے حبس جاری تھی، جس کا زور ٹوٹ گیا۔ کراچی کے لوگوں نے کچھ سکھ کا سانس لیا ورنہ گرمی نے شہر کراچی کے باسیوں کا بُراحال کردیا تھا۔ درجہ حرارت نے امیرو غریب سب کو متاثر کررکھا تھا۔ کسی حدتک لوگوں کو ریلیف محسوس ہوا ہے، اسی دوران سیاسی درجہ حرارت میں قدرے کمی رہی، کیونکہ سارا زور اسلام آباد میں دھرنے اور کرتارپور راہداری کے اختتام کی جانب تھا۔

لیکن کراچی کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو تو شہری مسائل سراٹھالیتے ہیں، لیبر یونین ، ٹیچرز یونین کا احتجاج اور عدل و انصاف کے اداروں میں انصاف کے حصول میں تاخیر سے متاثرہ افراد کے مسائل منہ کھولے نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)


اساتذہ کا احتجاج جاری ہے، حکومت سندھ کی توجہ کے لیے انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی کوشش بھی کی ، لیکن ابھی تک ان کے احتجاج میں کسی سیاسی راہنما نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

حتی کہ سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین بھی ان سے دور دور ہیں۔ بعض دفعہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جب متاثرہ لوگ احتجاج کرتے ہیں تو اگر ان کو سیاسی افراد کی حمایت نہ ملے تو احتجاج کی میڈیا کوریج بھی مناسب نہیں ہوپاتی، اگر سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہو تو پھر احتجاج میں ان کی شمولیت خارج از امکان ہوجاتی ہے۔
اسلام آباد کے دھرنے کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن عملاً چھوڑ چکے ہیں۔

تحریک انصاف کے اراکین پیپلز پارٹی کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ ورنہ تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی عالمگیر خان تو موقع غنیمت جان کر سندھ حکومت کے خلاف احتجاج میں کود جاتے تھے، اس مرتبہ ان کا انداز بے نیازی کا سا ہے۔ جس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ بہرحال اساتذہ کا مقام معاشرے کے اعلیٰ ترین افراد میں ہونا چاہیے ان کے مسائل کو سیاسی حمایت درکار نہ بھی ہو، ان کے مسائل کو اولیت دیتے ہوئے حل کرنا چاہیے۔


عدل و انصاف کا حصول مشکل اور دشوار تو ہے ہی لیکن صورتحال کا ظلم و زیادتی کی حد تک پہنچ جانا معاشرے کیلئے زہر قاتل سے کم نہیں۔
بی بی آصفہ ڈینٹل کالج، لاڑکانہ کی پی ڈی ایس کی فائنل ا یئر کی طالبہ نمریتا چندانی کی پراسرار موت کو خودکشی کا رنگ دیا گیا تھا۔ وہ لاڑکانہ میں اپنے کالج ہاسٹل میں مردہ پائی گئی تھی، یہ واقعہ ستمبر2019ء کو پیش آیا۔

اس کے گھر والوں نے اسے قتل قرار دیا۔ اگرچہ سندھ ہائی کورٹ نے جوڈیشل انکوائریز سے گریز کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، لیکن اس کیس کی جوڈیشل انکوائری کی گئی اور انکوائری رپورٹ میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ واقعہ خودکشی نہیں تھا بلکہ جنسی زیادتی کے بعد اُسے قتل کیا گیا۔
انسانی حقوق کے اداروں نے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے احتجاج بھی کیا ہے۔

وزیراعلی سندھ ، بلاول بھٹو زرداری ابھی تک اس پر خاموش ہیں۔ انہوں نے دیوالی کی محفل میں شرکت تو کی تھی، لیکن لاڑکانہ کی اس بیٹی کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے عملی اقدامات نہیں کیے جو کہ حیران کن ہے۔
عدل و انصاف کے ایوانوں سے ایک اور اہم مسئلہ بھی حل طلب مسائل میں توجہ حاصل کیے ہوئے تھے، لاء کالج کی طالبہ ام رباب چانڈیو دادو کے سیاسی راہنما اور پیپلز پارٹی کے دو ممبرانِ سندھ اسمبلی کے خلاف اپنے دادا، باپ اور چچا کے قتل کا مقدمہ درج کروانے اور قانونی کاروائی کرنے کیلئے ننگے پاؤں عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔

20 سالہ ام رباب چانڈیو کی ہمت اور جرأت کو داد دینی چاہیے کہ جو انصاف کے حصول کے لیے اپنے سے طاقتور لوگوں کے مدمقابل ہے۔
میڈیا نے 2018ء میں ہونے والے اس واقعے کو سامنے لانے میں ام رباب چانڈیو کا بہت ساتھ دیا ہے، لیکن سندھ حکومت اور خاص طور پر پیپلز پارٹی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ام رباب چانڈیو نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر انصاف کی اپیل کی تھی، لیکن سندھ میں وڈیرہ شاہی کا نظام انصاف کے حصول میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔


اگرچہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہورہا ہے، اسٹاک ایکسچینج میں بھی بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ درآمدات میں کمی آئی ہے اور برآمدات میں اضافہ میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات میں ہر ماہ دس فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ لیکن حکومت کے محصولات میں اضافہ ٹارگٹ کے مطابق نہیں ہورہا۔
پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، بجلی کے نرخ بڑھادیئے گئے ہیں، گویا ان ڈائریکٹ ٹیکس کے ذریعے حکومت اپنے محصولات کو بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت کے اچھے اقدامات بھی غارت ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، زندگی گذارنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مہلک بیماریوں نے عوام کو خوفزدہ کردیا ہے ۔ کراچی میں پہلے ہی پانی سے پیدا ہونے والے امراض زیادہ ہیں، نگلیریا کے ساتھ ڈینگی وائرس نے ایک خوفزہ ماحول بنا رکھا ہے۔


شہر کی آبادی میں جس رفتار سے اضافہ ہورہا ہے، شہری سہولیات میں اسی رفتار سے فقدان پیدا ہورہا ہے، سندھ حکومت نے کراچی کو ایسا پروجیکٹ نہیں دیا جو عوام کے دکھوں کا مداوا کرے۔ ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ میں پروفیشنلز کی کمی ہے۔
بلدیاتی نظام مکمل فلاپ ہوچکا ہے، عوام کی نگاہیں صرف اور صرف وفاقی حکومت کی جانب ہیں۔ وزیراعلی سندھ اعلانیہ وفاق کے سات مل کر کام نہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔


وزیراعظم پاکستان عمران خان کی آمد متوقع ہے، صدر مملکت عارف علوی بھی اس دوران کراچی میں ہونگے۔ اس دوران کراچی کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم وفاق کی مدد سے جاری منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن کراچی میں ان کی ٹیم موثر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہی ہے، تحریک انصاف کے لیے کراچی اب ایک چیلنج بن گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :