کرونا ایمرجنسی سے پورے ملک میں جزوی لاک ڈاؤن شروع ہوچکا ہے۔ شہر کراچی اور سندھ کے تمام اضلاع بھی اس سے بری طرح متاثر ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ تعلیم ہے ۔ پرائیویٹ یونیورسٹیز نے فوری طور پر آن لائن لیکچرز کا آغاز کردیا ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے سست روی کا شکار ہیں۔ اگر چہ مریضوں کی تعداد زیادہ نہیں لیکن میڈیا رپورٹس اور حکومتوں کی جانب سے اقدامات پر بحث مباحثوں نے عوام میں خوف و ہراس کا عالم پیدا کردیا ہے۔
عوام نے مکمل لاک ڈاون کے خطرے کے پیش نظر کم از کم تین چار ماہ کے راشن کی خریداری شروع کردی ہے۔ جس کی وجہ سے سپراسٹورز پر غیرمعمولی رش دیکھنے میں آرہا ہے۔
عوامی حلقوں کی طرف سے سندھ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا کہ انہوں نے تعلیمی سلسلہ کو سب سے پہلے منقطع کیوں کیا؟ شاپنگ سینٹرز تو عوام سے کچھا کچھ بھرے ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
اس کے بعد سندھ حکومت نے اقدامات کرتے ہوئے عوامی اجتماعات پر پابندی لگادی ہے۔ ہوٹل انڈسٹری بری طرح متاثر دکھائی دیتی ہے جبکہ شہر بھر کے ریستوران بھی گاہکوں کے انتظار میں خالی نظر آرہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسٹاک مارکیٹ نے منفی رحجان کے ریکارڈ بنادیے ہیں۔ لوگ تیزی سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ اس صورتحال پر حیرت ہے کہ وزیراعلی سندھ کرونا وائرس کے خلاف اپنی کامیابی کی مہم چلانا شروع ہوگئے ہیں۔
حالانکہ یہ بحران ابھی جاری ہے۔ اب اگر بعد میں صورتحال خدانخواستہ خراب ہو تو اس مہم کا کیا ہوگا ؟ ان کو سوچنا چاہیے کہ تھر میں آج بھی بچے مررہے ہیں، لیکن سندھ حکومت کچھ نہیں کرسکی۔ انصاف کے لیے لوگ دربدر پھررہے ہیں۔ سیہون شریف میں ایمبولینس دستیاب نہیں تھی، وہ اپنی کامیابی کا نعرہ اس وقت لگائیں جب کرونا وائرس ختم ہوجائے۔
کرونا و ائرس پر طرح طرح کی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔
بہت سی خبریں اور آرٹیکلز سوشل میڈیا میں گردش میں ہیں۔ اگرچہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اسے عالمی وباء قرار دے دیا ہے، اور آئی ایم نے متاثرین کیلئے 50 ارب ڈالرز گرانٹس کا اعلان کردیا ہے، لیکن دنیا بھر کے خوفزدہ عوام یہ جاننے میں حق بجانب ہیں کہ آخر کرونا کہاں سے آیا ؟
حکومت پاکستان کو اور دیگر متاثر ممالک خاص طور پر چین، اٹلی، ایران اور جرمنی کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ عالمی سطح پر ایک Fact Finding Commission بنایا جائے جو کرونا وائرس پر اپنی تحقیق پر مبنی رپورٹ جاری کرے اور اگر یہ واقعی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے تو ا س کیلئے عالمی لائحہ عمل بنایا جائے۔
متاثرین کی امداد کے ساتھ ساتھ ملزمان جو مجرم ثابت ہوجائیں ، کیلئے کوئی سزا بھی تجویز کی جائے تاکہ آئندہ ایسا ممکن نہ ہوسکے۔
برطانوی ہندوستان میں 1905ء میں طاعون کی وباء پھیلی تھی لیکن وہ صرف دو صوبوں پنجاب اور بنگال تک محدود تھی۔ ہزاروں لوگ لقمہٴ اجل بن گئے تھے، اس بیماری کے اوپر بھی بڑے تبصرے ہوئے اور کچھ لوگوں نے اسے حیاتیاتی ہتھیار کا استعمال ہی قرار دیا تھا۔
ابھی حال ہی میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ اسے حیاتیاتی ہتھیار کرونا کے حملے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ بہرحال دنیا کو ایسی بیماریوں سے محفوظ کرنے کیلئے Fact Finding Commission ضروری ہے۔
”کرونا “ کے خوف و ہراس کی وجہ سے شہر قائد میں سیاسی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر کا روٹھ کے گھر بیٹھ جانا اور ایک اور وزیر کے حلف اٹھانے کا معاملہ تادم تحریر خاموش ہے۔
اس دوران سابق وزیراعظم میر ظفر الله جمالی نے کراچی کا دورہ کیا اور ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی۔
کراچی کو دارالحکومت بنانے کے بیان پر سخت تنقید ہوئی۔ کراچی کے حوالے سے ایسی تجویز اب بے معنی ہے۔ کراچی سمیت پورے پاکستان کا حل ایک فعال اور مؤثر بلدیاتی نظام ہے۔ لندن اور نیویارک جیسے شہروں کے بھی 90فیصد مسائل کا حل ان کی بلدیات ہی کرتی ہے۔
ہمارے ہمسایہ ملک ایران کے دارالحکومت تہران کی بلدیہ ایک مثالی ادارہ ہے۔
سیاسی جماعتیں اگر واقعی جمہوریت اور پاکستان کے مستقبل سے مخلص ہیں تو سب مل کر پارلیمنٹ میں آرٹیکل 140A کی مکمل تشریح کرلیں یا پھر سپریم کورٹ سے کروالیں۔ اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کے بغیر پاکستان شہری اور دیہی کی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔
آخر پاکستان تحریک انصاف بھی پرانی حکومتوں کے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔
سندھ اسمبلی کے رکن خرم شیر زمان نے اعلان کیا کہ کراچی کے اراکین اسمبلی کیلئے وزیراعظم عمران خان نے 6 ارب 40 کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کردیا ہے۔ یہی وہ طرز عمل تھا جس پر عمران خان بحیثیت اپوزیشن راہنما سخت تنقید کرتے تھے۔ آج وہ اس بات کا اعلان فخریہ کررہے ہیں، اس طرح کے ترقیاتی فنڈز، سیاسی رشوت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
ماضی میں بھی اس نوعیت کے فنڈز میں بے قاعدگیاں بہت زیادہ تھیں۔
تحریک انصاف کیلئے مشکل ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن سے پہلے کراچی کے ووٹر کو کس طرح مطمئن کرے، اسلیے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام غیر جماعتی بنیادوں پر ہو، جن کے ذریعے فنڈز استعمال کرنے کی کسی پارٹی کو پریشانی نہیں ہوگی۔ کراچی کے عوام جن کی تعداد مردم شماری میں ایک کروڑ چالیس لاکھ بتائی گئی تھی، جبکہ 2018 کے الیکشن میں 90لاکھ سے زائد ووٹرز کی تعداد بتائی گئی تھی، جس میں اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا، قومی اور صوبائی اسمبلی میں کراچی سے تحریک انصاف کی بھاری اکثریت جیت گئی۔
بلدیاتی الیکشن سے کچھ سیاسی پارٹیاں اس وجہ سے بھی خوفزدہ ہیں کہ ان کی اکثریت کیسے برقرار رہے گی، تو اس کا بہتر حل یہی ہے کہ بلدیاتی نظام غیرجماعتی بنیادوں پر قائم کیا جائے تاکہ کوئی پارٹی ہارنے کے خوف سے الیکشن سے جان چھڑانے کی کوشش نہ کرے۔ بلدیاتی اداروں کو فنڈز جاری کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لے۔ اس وقت کراچی کے عوام سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کی بجائے سپریم کورٹ سے زیادہ امید لگائے ہوئے ہیں ، دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کس حد تک مزید ریلیف دینے میں کامیاب ہوتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔