کراچی اور سندھ کے مسائل کا حل

جمعرات 20 اگست 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

گزشتہ دنوں جب سینئر فوجی افسران کی موجودگی میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ،صوبائی وزیر سید ناصر شاہ اور سعید غنی نے تحریک انصاف کے سینئر راہنما اور وفاقی وزیر اسد عمر ، سید علی زیدی ،گورنر سندھ عمران اسماعیل ،ایم کیو ایم کے سینئر راہنما اور وفاقی وزیر امین الحق اور میئر کراچی وسیم اختر سے تفصیلی ملاقات کی اور کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تینوں سیاسی پارٹیوں کا اتفاق سامنے آیا تو عوامی حلقوں سے داد تحسین کی صدائیں بلند ہوئیں ۔

اس اتحاد اور اتفاق کو خوش آئند قرار دیا گیا ۔میڈیا میں بھی اس کی خوب پذیرائی ہوئی ۔صوبائی وزیراطلاعات ناصر شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سب نے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

(جاری ہے)

اسی دوران ایم کیو ایم کے راہنما عامر خان نے ایک انٹرویو میں کراچی کے مسئلے کا حل اسے وفاق کے زیر انتظام لانے کا فارمولہ پیش کیا ۔

خالد مقبول صدیقی نے بھی میئر کراچی وسیم اختر کی موجودگی میں اس اتفاق رائے سے قائم کی گئی کمیٹی کا مینڈیٹ صرف اور صرف شہر سے کچرے کی صفائی قرار دیا ۔ابھی اسی پر بحث و مباحثے جاری تھے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی اسلام آباد میں نیب عدالت میں توشہ خانہ ریفرنس میں پیشی کا مرحلہ آگیا ۔مختلف اندازے لگائے جارہے تھے کہ اس ریفرنس کا انجام کیا ہوگا جبکہ اس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی مورود الزام ٹھہرایا گیا ۔

سابق صدر آصف علی زرداری پر فرد جرم لگانے کے لیے تاریخ کا تعین کردیا گیا ۔اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعلیٰ ہاوٴس سندھ میں ایک ہنگامہ خیز پریس کانفرنس کی اور واضح طور پر سندھ کارڈ کا کھل کر استعمال کیا ۔مذکورہ میٹنگ پر بھی عدم اعتماد کردیا ،سخت ترین الفاظ میں اعلان کیا کہ ایگزیکٹو اختیارات شیئر نہیں کیے جائیں گے۔

ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ کوئی اعلان جنگ کررہے ہیں ۔یہ بات تو واضح ہے کہ 28اگست کو موجودہ بلدیاتی نظام کے تحت مقامی حکومتوں کی مدت ختم ہورہی ہے ۔سردست پورے سندھ میں ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا جائے گا ۔یقیناً تحریک انصاف کی خواہش ہوگی کہ کراچی شہر میں ایڈمنسٹریٹر ان کی مرضی سے تعینات کیا جائے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مشترکہ میٹنگ میں کئی چیزوں پر اتفاق رائے ظاہر کیا ہو کیونکہ یہ خبر تو زبان زدعام ہوئی کہ تینوں پارٹیوں نے اتفاق کیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا ۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ملاقات بھی ہوچکی تھی اس لیے پہلے وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کی وزیراعظم عمران خان سے کراچی کے حوالے سے خصوصی ملاقات کے بہت چرچے ہوئے جس کے بعد یہ اہم ترین میٹنگ بھی سامنے آئی ۔
سیاسی ماہرین بھی اس پر حیرت زدہ ہوں گے کہ آخر ایک سے زائد مرتبہ ایسا کیوں ہوچکا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ وفاق کے ساتھ مشترکہ اجلاس میں کئی فیصلوں پر اتفاق کرنے کے بعد اپنے موقف میں یکسر تبدیلی کرلیتے ہیں ۔

کسی زوردار بیان اور پریس کانفرنس اور کبھی صوبائی اسمبلی میں گرج چمک کے ساتھ برستے ہیں ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان سے جس کردار کی توقع رکھتی ہے وہ اسے بھرپور نبھارہے ہیں اور فرماں بردار وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کا پارٹی میں مقام بھی مستحکم دکھائی دیتا ہے ۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سوئس حکومت کو خط لکھو تو انہوں نے حکم عدولی کی تھی یقیناً وہ فیصلہ پارٹی کا تھا اور پھر ان کی وزارت عظمیٰ گئی ۔

جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو عدالت نے حکم دیا تو انہوں نے خط لکھنے کی حامی بھرلی اس پر یوسف رضا گیلانی ایک عرصہ تک ناراض رہے کہ یہ کام مجھ سے کیوں نہیں کروایا گیا ۔آفرین ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ پر کہ وہ فیصلہ تبدیل کرنے پر ناراض بھی نہیں ہوتے اور عوامی سطح پر بے حد تنقید کا سامنا کرتے ہیں ۔
سیاست کے ہر طالب علم کے لیے یہ ایشو ایک معمہ بن چکا ہے کہ آخر سندھ اور وفاق کس طرح مل کر کام کریں گے ۔

بلدیاتی نظام کس طرح ملک کی تقدیر بدلنے میں معاون ہوگا ۔سیاسی جماعتیں ملکی مفادات کو ترجیح کب دیں گی۔احتساب کا عمل یقیناً سیاسی پارٹیوں کی عوامی سطح پر پوزیشن کو کمزور کررہا ہے ۔سیاسی راہنما اس پر انتہائی ذہنی تناوٴ کا شکار ہیں ۔اداروں میں کرپشن اس حد تک ہوچکی ہے کہ اسے درست کرنا دشوار ترین دکھائی دے رہا ہے ۔کراچی کے بڑے منصوبے کراچی سرکلر ریلوے ،گرین لائن اور پانی کی فراہمی کا منصوبہ کے فور کسی بڑی پیش رفت سے محروم ہیں ۔

اس کی وجہ سیاسی تناوٴ اور تنازعات ہیں ۔عوام اس صورت حال میں مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ۔اس وقت کچرے سے بھرے نالوں کو صاف کرنے میں این ڈی ایم اے نے اہم کردار ادا کیا تو عوام نے اسے بھرپور کریڈٹ دیا جو سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول صورت حال نہیں ۔اس پر حکومت سندھ کے وزراء اپنی صفائیاں دیتے ہوئے نظر آئے ۔بعض اطلاعات کے مطابق کے فور منصوبہ بھی ایف ڈبلیو ا و کو سی پیک کے تحت تفویض کردیا جائے گا تاکہ پہلے سے تاخیر شدہ منصوبہ بروقت مکمل ہوسکے ۔


وزیراعلیٰ سندھ کا غصہ اس بات کی بھی غمازی کررہا ہے کہ بہت سے منصوبے اب ان کے ہاتھ سے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اب کراچی کو اس انداز سے چھوڑنا ملک کے ریونیو میں بہت بڑی کمی لاسکتا ہے کیونکہ شہر کے رہائشی علاقے اور انڈسٹریل ایریاز میں چلنا پھردشوار ہوچکا ہے ۔حالیہ بارشوں سے یہ سب واضح ہوچکا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی تین دن کی سماعتوں میں اسی بات پر زور دیا کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کا راستہ نکالا جائے ۔

اب اس کے جواب میں سندھ دھرتی کا ذکر کردیا گیا ۔وزیراعلیٰ سندھ نے روایتی سیاسی بیان دیتے ہوئے میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ مثبت رپورٹنگ نہیں کررہا ۔حیرت ہوتی ہے کہ ان باتوں پر کہ اگر میڈیا مسائل کی نشاندہی کرے تو اسے منفی رپورٹنگ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے ۔میڈیا اگر عوام کے مسائل کو اجاگر نہ کرے تو آخر اس کا اور کیا کام ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ میڈیا کو ہدایات دینے کی بجائے اگر اپنی حکومت کے مثبت کام اجاگر کریں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔سب سے بہتر کام یہی ہوگا کہ صوبائی حکومت ایک بااختیار بلدیاتی نظام رائج کرے ۔سندھ کے مسائل کا حل گورنر راج یا ایمرجنسی نہیں بااختیار بلدیاتی نظام ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :