سیاسی فتح کا معرکہ کون جیتے گا؟

بدھ 3 مارچ 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

تمام سیاسی جماعتوں کے اکابر نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور سینٹ انتخابات کا معرکہ جیتنے کے لیے ہر ظاہری اور "خفیہ" ذریعہ استعمال کیا جا رہا ہے، اعداد و شمار کی برتری یا کم تری ایک طرف، کسی ذھین پہلوان کی طرح ہر داؤ استعمال کیا جاتا ہے، زرداری صاحب کی ظاہری صحت ڈاکٹرز نے چیک کی ہے، اندرونی طور پر وہ مضبوط گر استعمال کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کی چار ، ایک کی جاری رائے پر مختلف آراء ہیں، ممتاز قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کہتے ہیں" سپریم کورٹ کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی جیت ہے" اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کہتے ہیں"جو چاہتے تھے مل گیا، عدالت نے قابل شناخت بیلٹ کا کہہ دیا" حامد خان ایڈووکیٹ بولے "آرٹیکل 226 پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا" سابق صدر اور قانون دان وسیم سجاد کے خیال میں "سینٹ انتخابات شفاف بنانے کے لیے اقدامات شروع کر دئیے گئے"قانونی ماہرین کی متفقہ رائے ھے کہ ثابت ھوگیا کہ انتخابات آئین کے مطابق  خفیہ رائے شماری سے ھوں گے،سپریم کورٹ کی رائے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں خوش ہیں، بعض قانونی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس پہلے دن ہی ردی کی ٹوکری میں پھنک دینا چاہیے تھا، اختلافی نوٹ لکھنے والے جج جسٹس یحیی آفریدی کہتے ہیں "آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کا سوال ہی قانونی نہیں" تاہم الیکشن کمیشن مشاورت اور ماہرانہ انداز سے انتخابات کے لئے تیاری کر چکا ہے، بیلٹ پیپرز چھاپنے کا کام مکمل، بس معرکے کی دیر ہے، گذشتہ سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے بیس ارکان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ اپنی جگہ موجود ہے، ویڈیو منظر عام پر آنے اور سپریم کورٹ کی رائے سے یہ ضرور ھوا ھے کہ ارکان اسمبلی چوکنا ہو گئے ہیں" وہ تھا جلوہ افروز" تم نے نہ دیکھا، نہ دیکھا، نہ دیکھا، کی تمثیل سے بھی اراکین خوف زدہ ہیں کہ" کوئی دیکھ نہ رہا ھو" جب سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ، ووٹ کی سکریسی مستقل نہیں رہ سکتی انتخابات آئین اور پھر ساتھ یہ بھی کہا کہ "قانون کے مطابق ھوں گے" ٹیکنالوجی، یا سریل نمبر اور بار کوڈ کے خطرات کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ رشوت اور ھارس ٹریڈنگ کا خطرہ ذرہ کم ہو گیا، حکومت کے ھاتھوں سے  کراچی سے دو ایم این ایز، میرپور خاص سے ایک آزاد رکن نکل چکا ہے، یہ تو اعلانیہ ھے، غیر اعلانیہ کیا ھو گا وہ زرداری صاحب کو یا پھر فرشتوں کو پتا ہے، اپوزیشن اتحاد کے پاس کل ملا کر 163 اراکین کی اعلانیہ حمایت ہے جبکہ حکومت کے پاس 178 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت موجود ہے ان اعداد و شمار کا منظر جی ڈے اے، ق لیگ، ایم کیو ایم، جمہوری وطن پارٹی، آذاد رکن اسلم بھوتانی، عوامی مسلم لیگ اور اندرون خانہ حمایتوں کا امکان چوھدری پرویز الہٰی، چوھدری سرور، پرویز خٹک، اور عثمان بزدار کے کندھوں پر ھے، وزیراعظم بھی درجنوں افراد سے مل چکے ہیں، سب سے بڑا معرکہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، اور حفیظ شیخ  کے درمیان ھے، سب کی نظریں ادھر ہی ھیں یہ نہ ہو کہ کہیں اور"گول" ھو جائے، یوسف رضا گیلانی صاحب نے وزیراعظم عمران خان سمیت تمام ممبران کو خط لکھ کر نہایت "عاجزانہ " درخواست ڈال دی ہے، اس کے اثرات بھی ھو سکتے ھیں وہ کہہ رہے ہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے سب مجھے ووٹ دیں، دوسری طرف حفیظ شیخ کی پیر کی پریس کانفرنس "پہلی سیاسی انٹری"کے طور پر  پر دیکھی گئی ہے کیونکہ وہ سیاست پر بات نہیں کرتے، پیر کو انہوں نے کہا کہ میرے نانا وزیر اعلیٰ رہے، ھم جیتیں گے، اتحادی وزراء کے ساتھ پریس کانفرنس حفیظ شیخ کو سیاستدان بن گئی ہے۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم کے واضع اعلان سے اپوزیشن کو مایوسی اور حکومت کو خوشی ھے کہ ھم جیت جائیں گے، معرکہ نازک بھی ہے اور آئیندہ کے سیاسی راستے متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس وقت لوگوں کی طرف سے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ جماعت اسلامی بن رہی ہے، جو کچھ دن پہلے پی ڈی ایم اور حکومت کو ایک ہی کہتی تھی ، آج ایک سیٹ کے لیے پی ڈی ایم سے ھاتھ ملا لیا ھے، وہ شاید ایک سیٹ تو حاصل کر لے مگر ھمیشہ کی طرح کئی سیٹیں کھو چکی ہے، معرکے کے بعد الیکشن کمیشن شفافیت کیسے چیک کرے گی ؟ یہ سوال سب سے زیادہ اھم ھے، سپریم کورٹ کی رائے کے بعد بعض حلقے یہ تجزیہ کرنے میں ناکام ہیں کہ" قانون اور آئین کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے کیا جائے گا؟ یوسف رضا گیلانی اپنے سابقہ منصب کی وجہ سے بھی اہم ہیں جبکہ حفیظ شیخ کے لیے زیادہ مسئلہ نہیں، عمران خان کے لیے مسئلہ ہے کہ حفیظ شیخ، بیگ لے کر واپس چلے جائیں گے، ان کی جیت اور ہار عمران خان کے لئے اہم ہے، اس معرکے میں کون فتح یاب ھو گا، بدھ شام شام کو کوئی بھی فیصلہ متوقع ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :