بزلہ سنج

جمعرات 14 نومبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

غور کیا جائے تو ہر چینل کی اولین ترجیح  طنز و مزاح سے بھر پور پروگرام ہیں۔سیاسی ٹاک شو بھی اب  کامیڈی پروگرام بن گے ہیں۔ان  پروگراموں میں زیادہ تر سٹیج کے فنکار ہیں۔اب نوبت  یہاں تک آ گی   ہے پروگراموں کے لیے سٹیج کے کامیڈی اداکار کم پڑ گے ہیں۔ سٹیج کے جن مزاحیہ اداکاروں  کو ٹی وی پر چھوٹا سا کردار نہیں ملتا تھا ۔آج کل وہ ٹی وی کے سپر سٹار ہیں۔


سیاسی ٹاک شو میں ہلکے پھلکے طنز ۔مزاحیہ انداز میں تجزیہ  پیروڈی سونگ سیاست دانوں کی نقالی کی وجہ سے  اچھی انٹرٹینمنٹ  کا باعث  بنتے ہیں۔ یہ  سب  پرفارمنس اپنی  جگہ  دیکھا  جاے حقیقت میں ہمارے سیاستدانوں کی رگ ظرافت کسی بھی طرح بڑے مزاح نگار سے کم نہیں۔فقرے کسنے میں کسی بھی سٹیج۔ ٹی وی کے بڑے  سے بڑے مزاحیہ اداکار سے کم نہیں ۔

(جاری ہے)

مزاحیہ اداکار  کسی مزاح نگار کا لکھا ہوا فقرہ ڈائیلاگ بولے گا۔جب کہ ہمارا سیاست دان موقع محل کے مطابق بر جستہ جملہ کہے گا۔وہ اتنا  مکمل اور جامع ہو گا کہ آپ اس سے بھرپور محظوظ ہوں گے۔ٹی وی ٹاک شو ہو قومی اسمبلی کا اجلاس جلسہ جلوس ہو یا پریس کانفرنس سیاست دان کوی نہ کوی ایسی بات ضرور کرے گا آپ محظوظ ہوے بغیر نہیں رہ سکے گے  ۔کیوں نہ آج اپنے سیاست دانوں کے مزےدار فقرے ان کے دانستہ یا نا دانستہ چٹکلوں کے بارے بات کریں۔


خواجہ آصف مسلم لیگ ن کے سینیر رہنما ہیں۔اپنے منفرد لہجے اور ہر دو چار لفظوں کے بعد جو ہے جو ہے کی گردان کی وجہ شہرت ہے۔ وہیی ان کی قومی اسمبلی میں ان کی تقاریر میں مخالف پر برجستہ  فقرے بازی ان کا خاصہ ہے۔حالیہ قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں خواجہ آصف نے دھواں دار تقریر کے دوران وزیر داخلہ پرویز خٹک  پر دھرنے میں کیے گے ڈانس پر طنز  کے تیر چلاے۔

اور کہا مجھے نہیں پتہ تھا آپ یہ کام بھی کر لیتے ہیں۔ جس پر حکومتی بینچ کے  ساتھ  اپوزیشن ارکان بھی خوب محظوظ ہوے۔اسی طرح فواد چوہدری کے چور ڈاکو کہنے پر فواد کو اپنا بروخودار کہا کہ کچھ برخودار ایسے بھی ہوتے ہیں پورا ایوان قہقوں سے گونج اٹھا۔شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنا۔اور مشہورے زمانہ فقرہ کوی شرم ہوتی ہے کوی حیا ہوتی ہے کہ خالق بھی خواجہ آصف ہیں۔


شیخ رشید منجھے ہوے پرانے سیاست دان ہیں زومعنی گفتگو کرنے میں ان کا کوی ثانی نہیں۔شیخ صاحب کے سیاسی تجزیے اور پیش گوی انتہای دلچسپ مزاح سے بھر پور ہوتی ہیں۔مخالف پر اعلی جملہ کسنے پر خاص قدرت حاصل ہے۔خاص کر ن لیگ اور پی پی پی پر کیے گے تبصرے مزاح کے رنگ سے بھرپور ہوتے ہیں۔شیخ صاحب کی خاص بات گفتگو کے دوران لمبے پوز آواز کے ساتھ لینا ۔

  بلاول بھٹو کو بلو رانی کے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ناقابل اشاعت فقرے کستے ہیں۔  شیخ صاحب جس ٹی وی  شو میں مہمان  ہوں اسکی ریٹنگ بڑھ  جاتی  ہے۔
سائیں قائم علی شاہ عمر رسیدہ سیاست دان ہیں ۔ شاہ جی  کو  سیاسی  لطیفوں کے   بادشاہ کہا جاے تو بے جا نہ ہو گا۔ اپنی سادگی  معصومانہ حرکتوں باتوں سے عوام کو تفریح فراہم کرتے ہیں۔

ایک محفل میں وزیراعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ نے فوراً بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ کرپشن تو لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد کہا کہ خبردار جو کسی نے میرے لیڈر ’’صدر‘‘ زرداری کی کرپشن کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھا۔اسی طرح ایک تقریب کے افتتاح کے موقع پر وڈے سائیں نے غلط ڈوری پکڑا لی، غلط سرے کو کھینچے جا رہے ہیں اور افتتاح ہو ہی نہیں پا رہا، آجو باجو موجود لوگ  تالیاں بجاتے  بجاتے تھک گے کہ کب  سائیں افتتاح کریں اور کب وہ تالیاں بجا کر قصہ تمام کریں۔

IBS  سکھر کے بزنس کے طلبا سے خطاب کرنے گے مگر لیکچر انجینئر اور بجلی کا ڈگری ہولڈر سمجھ کر دے آے۔ اس شعبے میں روشن مستقبل کی نوید سنا دی۔شاعری کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک ہے۔پہلا مصرا کس اور شاعر کا دوسرا کسی اور کا یا بھول جائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیرمین ہیں ۔اردو زبان پہ عبور نہ ہونے کی وجہ سے اکثروبیشتر کوی شگوفہ بن جاتا ہے ۔

ویسے ان کا پارٹی چیرمین اور بھٹو ہونا بازات خود بہت بڑا لطیفہ ہے۔بلاول کی اردو کا وہ حال ہے جو اداکارہ میرا کی انگلش کا ہے۔انھیں مشورہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی لسانی صلاحیتوں سے استعفادہ حاصل کریں۔شیخ رشید اور بلاول کی بہت گاڑھی چھنتی ہے۔کراچی کی حالیہ  بارشوں پر بلاول  کی وضاحت بہت  مضحکہ خیز  ہے ۔حضرت کا  کہنا ہے جب بارش آتا ہے پانی آتا ہے ۔

اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا  ہے۔ساتھ  میں اپنی بات کی وضاحت میں فرمایا اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس ک  ساتھ جس طرح  انھوں نے کراچی  لاہور  اسلام آباد   کا جغرافیای نقشہ اپنے ھاتھ کے حرکات و سکنات  سے  وضاحت کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
فواد چوہدری بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔اپنے دھیمے لہجے سے مخالف کی گھسای کا عمل  طنز و مزاح کے تیروں کے ساتھ باخوبی کرتے ہیں۔

دوسرا فریق زچ ہو جاتا ہے۔فواد چوہدری علما کرام سے چھڑ چھار کرتے رہتے ہیں۔وزیراعظم کا بنی گالہ سے وزیراعظم سیکٹریٹ تک کا ہیلی کاپٹر کا خرچ 55روپے فی کلو میٹر ہے کا بیان ایک عرصے تک تفریح کا باعث رہا۔ڈالر اور پٹرول کے  اوپر جانے پر کہا کہ کیا ہوا ایک دن سب نے اوپر جانا ہے۔
چوہدری شجاعت حسین ملک کے سینیر اور زیرک وضع دار سیاستدان ہیں۔

اپنے مخصوص بول چال کی وجہ سے عوام میں میڈیا میں بے حد مقبول ہیں۔طنز و مزاح سے بھرپور گفتگو کرنے میں ان کا کوی ثانی نہیں۔ بڑی سے بڑی بات بھی چھوٹے سے فقرے میں کر دیں گے۔چوہدری صاحب کا روٹی شوٹی کھا لو فقرہ زبان و زد عام ہے۔اسی طرح جتنی بھی گھمبیر صورتحال ہو۔اپنے مخصوص انداز میں گل تے مٹی شٹی پاو کہہ کر ماحول خوشگوار  کر دیں گے۔
شہباز شریف اپنے حس مزاح سے زیادہ حرکات و سکنات سے محظوط کرتے ہیں ۔

اگر جلسے سے خطاب یا پریس کانفرنس کر رہے ہوں جوش خطابت میں زور زور سے انگلی ہلا کر میڈیا کے مایک ڈیسک سے ھاتھ مار کر گرا دیں گے۔جو میڈیا مالکان کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ لونگ شوز ھیٹ پہن کر منفرد حلیہ بنا کر شہر کا دورہ کریں گے۔پچھلے دنوں ان کی پریس کانفرنس بہت تفریح کا باعث بنی کہا کہ حکومت ہر جگہ بیرون مملک جا کر  بتاتی ہے ہم چور  ڈاکو لُٹیرے  ہیں جس کو نہیں علم تھا اس کو بھی پتہ لگ گیا۔

اسمبلی اجلاس میں عمران خان سے مخاطب ہوے کہ انڈیا میں اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے پر آپ نے دیوار میں ہی چن دیا ہے ۔بات بات پر چیلنج دینا کہ اگر چھ ماہ میں یہ کام مکمل نہ ہوا  تو میرا نام بدل دینا۔ اپنے اس بیان سے مخالف جماعتیں اور میڈیا  کے لیے تفریح طبع کا سامان مہیا کیا۔
 نواز شریف اپنی سیاسی تقریر جلسے جلوس میں طنز و مزاح کا استعمال نہیں کرتے۔

اپنی نجی محفل میں  ظرافت سے حس مزاح سے محفل کی جان ہوتے ہیں۔مشہور ہے کہ سٹیج کے نامور مزاحیہ اداکار امان اللہ کے ساتھ جگتوں کا میچ پر گیا۔امان اللہ کے سر کے گھنگریالے بال کندھوں تک تھے۔میاں صاحب نے امان اللہ کو بتیاں والا چولا کہا۔اور ڈھاکے کی ڈاین سے تشبیح دی۔یہ دونوں جگتیں آج تک امان اللہ کا پیچھا کر رہی ہیں۔اسی طرح حالیہ  بیماری کے باعث خون کے ٹیسٹ کی رپورٹ کا پوچھا تو لیب والے نے کہا رپورٹ تاخیر کا شکار ہے میاں صاحب برجستہ بولے یہ میرے خون کی رپورٹ ہے یا الیکشن کا رزلٹ جو لیٹ ہے۔

اسی طرح ان سے منسوب لطیفہ بھی ہے ۔سلای مشین کی تقسیم کی تقریب میں زبان پھسل گی کہ سلای مشین ان بیووں کو دے رہے ہیں جن کے خاوند نہیں رہے۔۔۔
موجودہ وزیر اعظم عمران خان اپنے u ٹرن  کی وجہ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔صبح موقف کچھ شام  کو  کچھ۔جو ایک بحث اور مزاح  کا باعث بنتا ہے۔خان صاحب کی اپنے سیاسی کیریر کے آغا سےایک ہی تقریر اب تک کر رہے ہیں۔

یہاں تک کے اپنی وزارت اعظمی کی حلف برداری میں بھی وہی تقریر کی۔ مرغیوں   کٹے   بکروں  کی تجویز  باعث  مزاح  بنی ہوی ہیں ۔خان صاحب  نے سب  سے پہلے سیاست  میں کرکٹ  کی  اصلاحات  استعمال  کیں۔ جب خان صاحب سیاست کر رہے ہوں تو لگتا ہے کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں۔اور جب تک کرکٹ کھیلی کرکٹ میں سیاست کی۔جس کو چاہا کھلایا جسے چاہا باہر کر دیا۔


 یہ تھے کچھ چیدہ چیدہ سیاست دانوں کا حال۔میرے خیال میں سیاستدانوں بزلہ سنجی کی خداداد صلاحیتوں سے استعفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ قومی و صوبای اسمبلی کے اجلاس کی براہراست کاروای دیکھا جاے تا کہ عوام پرانی گلی سڑی، جگتوں کی بجاے  تازہ مزدار جگتوں سے فیضیاب ہو سکیں۔اور اداس چہرے ان کی کارکردگی سے تو نہیں ان کی مزیدار جگتوں سے کھلکھلا اٹھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :