جیل یا مقبولیت

منگل 27 اپریل 2021

Saif Awan

سیف اعوان

تاریخ ایسے موضوعات سے بھری پڑی ہے جن میں اکثر ایسے افراد طاقت کا محور بننے جو پابند سلاسل ہوئے یا جلاوطن ہوئے پھر وقت کا دھرا بدلا اور اپنی قوم کی ہر دلعزیز شخصیت بن گئے ۔ہالی وڈ کی مشہور زمانہ فلم ”گلیڈی ایٹر “اس کی بہترین مثال ہے۔سلطنت روما کی پوری تاریخ ویسے تو ہر حکمران کیلئے انتہائی خوفناک اور مشکل ترین رہی ہے۔

سلطنت روما کی ہزار سالہ تاریخ میں چند ایک ہی بادشاہ ایسے ہونگے جن کی موت طبی واقعہ ہوئی ہو لیکن زیادہ تر کو ان کے محافظ دستے یا شاہی فوج نے ہی قتل کردیا ۔گلیڈی ایٹر فلم میں ہالی وڈ کے نامور ہیرو ”رسل کرو “نے مرکزی کردار ادا کیا ۔فلم میں رسل کرو کا نام میکسیمس ہوتا ہے ۔میکسیمس سپین کی فوج کاکمانڈر ہوتا ہے۔”سپین بھی انہی دنوں سلطنت روما کا حصہ تھا“۔

(جاری ہے)

لیکن نیا ولی عہد کموڈوس اس کی اپنے والد بادشاہ اوریلیس سے عقیدت اور محبت برداشت نہیں کرتا۔کموڈوس میکسیمس کی رعایا اور فوج میں مقبولیت کے خاتمے کیلئے جلد اس کے قتل کا فرمان جاری کردیتا ہے۔میکسیمس ولی عہد کے حملے سے بچنے کیلئے خود ساختہ طور پر جلاوطن ہوجاتا ہے۔پھر جب کچھ عرصے بعد میکسیمس دوبارہ روم واپس آتا ہے تو روم کی فوج،رعایا سمیت تمام سینیٹرز میکسمس کے دیوانے ہوجاتے ہیں ۔

میکسیمس ایک مرتبہ پھر طاقت کا محور بن جاتا ہے۔یہ صرف ایک کہانی ہے ایسی سینکڑوں کہانیاں جن کو حاکم وقت نے اپنا اقتدار خطرے میں دیکھ کر یا تو قتل کروادیا یا ان کو زبردستی جلاوطن ہونے پر مجبور کردیا لیکن کیا کریں جب عوام کی طاقت اس شخص کے ساتھ ہوتو ہر طاقت عوامی طاقت کے سامنے بے بس اور لاچار ثابت ہو جاتا ہے۔
ایسی ہی کچھ صورتحال نوازشریف کی ہے۔

1999میں سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت تختہ الٹادیا ہے پہلے ان کو جیل میں ڈالاگیا پھرمشرف کی ہر ممکنہ حد تک کوشش تھی کہ نوازشریف کو پھانسی کی سزا دی جائے لیکن قدرت دوبارہ نوازشریف کوطاقت کا محود بنانے کا فیصلہ کرچکی تھی ۔لہذا ان کی پھانسی کا فیصلہ ٹل گیا اور ان کو پرویز مشرف نے جلاوطن کردیا۔پھر 2013میں پاکستانیوں نے دیکھا کہ جب نوازشریف جلاوطنی ختم کرکے واپس پاکستان آیا تو وہ عوام کا ہر دلعزیز لیڈر بن کے سامنے آیا۔

نوازشریف کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگالیں کہ وہ ہر مرتبہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ ہی وزیراعظم بننے ،کسی اور لیڈر کو ایسی مقبولیت نہیں مل سکی۔کچھ لوگ آج بھی کہتے ہیں نوازشریف کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن میرا کہنا ہے کہ وقتی طاقت کا محور بننے والے اپنے ساتھ زیادتی کررہے ہیں کیونکہ یہ لوگ نوازشریف کو مزید مقبول لیڈر بنارہے ہیں۔

جب جب کسی چیز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے وہ اتنی تیزی اور شدت کے ساتھ اوپر آئی ہے۔عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کی بار بار تذلیل کسی بھی ریاست کیلئے کبھی بہتر شکون نہیں ہوسکتی۔شاید یہ اسی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک اوپر اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہمارے ذرائع آمدن کم ہوتے جارہے اور اخراجات شاہانہ انداز کے ہوتے جارہے ہیں۔جو وزیراعظم سائیکل پر وزیراعظم ہاؤس آنے کی باتیں کرتا تھا وہ اب ہیلی کاپٹر پر وزیراعظم ہاؤس آرہا ہے۔


نوازشریف اگر تین بار وزیراعظم بننے ہیں تو وہ تین مرتبہ جیل سے بھی ہوآئے ہیں۔یہ اعزاز اب شہبازشریف بھی حاصل کرچکے ہیں ۔شہبازشریف نے بھی نوازشریف کا جیل جانے کا ریکارڈ برابر کردیا ہے۔شہبازشریف ایک مرتبہ مشرف دور میں دو مرتبہ عمران خان کے دور میں جیل سے ہوآئے ہیں۔جیلیں سیاستدانوں کے بقول ان کیلئے میڈل ہوتی ہیں اور مقبولیت کا ذریعہ بنتی ہے ۔

اس کا بخوبی اندازہ حالیہ ضمنی انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے۔نوازشریف کی جماعت نے ڈسکہ،گوجرانوالہ اور نوشہرہ کی سیٹیں بڑے مارجن سے جیتی ہیں ۔مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی دو دو مرتبہ جیل سے ہو آئے ہیں ۔آصف زرداری بھی دو بار جیل یاترا کرآئے ہیں لیکن عمران خان صرف ایک مرتبہ ہی جیل گئے ہیں ۔ان کو بھی خود کو ذہنی طور پر تیار رکھنا چاہیے۔بلاول بھٹو اس حوالے سے ابھی خوش قسمت نہیں ہیں کیونکہ وہ جیل سے ایک بار بھی نہیں ہوکر آئے ان کو بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کیونکہ جیل سے ہر لیڈر پہلے سے مزید مقبول ہوکر ہی باہر آتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :