پاکستان ریلوے

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

 ریلوے ،پی آئی اے اور سٹیل ملز کو پاکستان کے سب سے بڑے ذرائع آمدن میں شمار کیا جاتا ہے۔پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کا بیڑہ غرق کچھ آصف زرداری نے کردیا ۔جہنوں نے بلاضرورت سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی۔ایک جہاز کی دیکھ بھال کیلئے چار،چار سو لوگ بھرتی کرلیے۔رہی سہی کسر موجودہ حکومت کے سرخیل وزیر غلام سرور خان نے پی آئی اے کے پائلٹس کے متعلق بیان دے کرپوری کردی ۔

آج کوئی بھی پاکستانی اگر پی آئی اے میں سفر کرتا ہے تو اسی صورت میں کرتا ہے جب اس کو دیگر ایئر لائنز کے ٹکٹ دستیاب نہ ہوں۔اگر پاکستان سٹیل ملز کا حشر دیکھنا ہے تو حالیہ عرصے میں بیروزگار ہونے والے ہزاروں افراد اور ان کے اہلخانہ سے پوچھ لیں۔کل تک جو اسد عمر پاکستان سٹیل ملز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا نعرہ لگاتے تھے آج وہ اس مل کی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

باقی بچی پاکستان ریلوے تو اس کا کچھ بیڑہ غرق شیخ رشید نے کردیا اور رہی سہی کسر اعظم سواتی نے پوری کردی ہے۔یہ وہی اعظم سواتی ہیں جہنوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آگ لگانے کی دھمکی دی ۔دو سال تک شیخ رشید نے مسلسل ایم ایل ون کا ڈھنڈورا پیٹا لیکن جیسے ہی ان کی وزارت تبدیل ہوئی وہ ایم ایل ون کا نام بھی بھول گئے۔ریلوے کے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق متعدد مرتبہ ریلوے کی موجودہ حالت پر نوح کناں کرتے نظر آئے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان ریلوے کی موجودہ صورتحال کے متعلق کہا کہ میری پانچ سال کی محنت کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔عمران خان کی حکومت نے تین سالوں میں ریلوے کو 60ارب روپے دیے جو اب تک خرچ نہیں ہوئے۔نوازشریف کی حکومت نے پانچ سالوں میں ریلوے کو 120ارب روپے دے جو ہم نے خرچ کیے۔میں نے اپنے دور میں 11کمرشل ریلوے اسٹیشن بنائے لیکن یہ حکومت تین سالوں میں ایک دکان بھی لیز پر نہیں دے سکی۔

ہم نے تین سو کروڑ روپے لگاکر سدھی ہرمائی لائنز تیار کی ۔یہ بلوچستان میں مکمل ہو چکی ہے لیکن یہ حکومت ابھی تک وہاں ٹرین نہیں چلارہی۔حادثات مین لائنز پر ہورہے ہیں لیکن عمران خان تین ارب بہاولپور کے چھوٹے اسٹیشن پر لگارہے ہیں۔رائل پام ہوٹل پر قبضہ تھا یہ جنگ ہم نے سپریم کورٹ سے جیتی ،لیکن آج تین سال بعد بھی رائل پام ہوٹل کی انٹرنیشنل بولی نہیں ہوسکی۔

رائل پام سے سالانہ ریلوے کو چالیس سے ساٹھ کروڑ روپے ملنے تھے لیکن ابھی تک وہ بولی نہیں ہوسکی۔مسافر کوچز عرصہ درازہ سے خراب پڑی ہیں ان کو کوئی ٹھیک نہیں کرارہا۔مجھ پر الزام لگا کہ لوکو موٹیز زیادہ خریدے گئے ہیں۔پاکستان ریلوے کے پاس ٹوٹل 461لوکو ہیں ان میں 69لوکو جنرل جاوید اشرف قاضی کے بھی ہیں جو لے کر کباڑ خانے میں کھڑے کرگئے ہیں ان کو کسی نہیں پوچھا۔

جو ملک کیلئے کچھ کرتے ہیں ان کو ڈیڑھ ڈیڑھ سال جیل میں رکھتے ہوئے ۔ہمارے لوکو دوگنی کمائی کرکے دے چکے ہیں۔لیکن جو کباڑ خرید کر دے گئے ان کو نوٹس بھیجنے کی کسی میں جرات نہیں ہے۔ایم ایل ون کا ڈیزائن ،فریم ورک اور ایس پی وی بھی ہم نے بنایا۔عمران خان کی حکومت نے آتے ہی ایس پی ون توڑ دیا۔تین سال میں ایم ایل ون کا پہلا فیس مکمل ہونا تھا لیکن ابھی تک اس پر ان گراؤنڈ کام شروع نہیں ہوسکا۔

یہ تھی کچھ سابق وزیر ریلوے خراجہ سعد رفیق کی باتیں۔اب زرا پاکستان ریلوے کی موجودہ صورتحال کیا جائز لیں ۔
پاکستان یلوے کا تین سال کے دوران سالانہ خسارہ بڑھ کر 40 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں مسافر ٹرینوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہو گئی ہے۔57 مسافر ٹرینیں بند اور صرف 85 چل رہی ہیں۔ ان میں سے بھی 70 نجی شعبے کے اشتراک سے چلانے کے لیے ٹینڈر جاری کیے جا چکے ہیں تاہم یہ عمل بھی سست روی کا شکار ہے۔

پاکستان ریلوے کے پاس انجنوں کی تعداد 480 سے کم ہو کر 472 اور مسافر کوچز 460 سے کم ہو کر 380 رہ گئی ہیں جبکہ مال گاڑیوں کے 2000 ڈبے بھی کم ہو گئے ہیں۔ریلوے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے کم ہو کر 72 ہزار رہ گی ہے جبکہ پنشنرز ایک لاکھ 15 ہزار سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔ ریلوے ٹریک، پل اور سگنل سسٹم سمیت دیگر اثاثوں کا 60 فیصد حصہ انتہائی کمزور ہو چکا ہے، میرج ٹرین، لاہور واہگہ اور لاہور گوجرانوالہ کے درمیان چلنے والی ٹرینیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔

انٹرنیشنل مال گاڑی بھی بحال نہیں ہو سکی۔ریلوے افسران کی شاہانہ سیلونز کرائے پر دینے کا تجربہ بھی کامیاب نہ ہوا، کراچی سرکلر ریلوے بحال ضرور ہوئی لیکن ادھوری، ریلوے ٹریک پر 2 ہزار 382 مقامات پر پھاٹک نہیں ہیں۔تین سال میں درجنوں حادثات ہوئے، 2019ء میں تیز گام میں لگنے والی آگ اور جون 2021 میں سکھر ڈویڑن میں مسافر ٹرینوں کے حادثے میں 150 سے زائد مسافر لقمہ اجل بن گئے۔

اس حوالے سے ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے عوامی مفاد کا قومی ادارہ ہے جسے کمرشل بنیادوں پر چلانا مشکل ہے، کورونا کی وجہ سے ٹرینوں کی بندش اور کم مسافروں کے ساتھ چلانے سے بھی خسارے میں اضافہ ہوا۔ریلوے کا 64 فیصد بجٹ تنخواہوں اور پنشن اور 18 فیصد ڈیزل کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے۔سی پیک پر عمل درآمد ہونے سے ریلوے کی کایا پلٹ جائے گی، کراچی سے پشاور اور ٹیکسلا سے حویلیاں تک بغیر پھاٹک ریلوے ٹریک بچھانے سے ٹرینیں 90 کی بجائے 160 کلومیٹر کی رفتار سے چلنا شروع ہو جائیں گی، پھر ریل کا سفر محفوظ اور تیز ہوجائے گا۔

ریلوے منافع بخش ادارہ بھی بن جائے گا۔عمران خان کے پاس اب مزید دو سال رہ گئے ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ وہ پاکستان ریلوے،پی آئی اے اور سٹیل ملز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے حقیقی معنوں میں کچھ کرکے دیکھائیں ،گا،گے اور گی سے اب آگے دو قدم بڑھ کے کچھ کردیکھانے کا وقت شروع ہوگیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :