اسائمنٹ اور فارمولہ

منگل 21 ستمبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

اکثر سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی لیڈر پر تنقید بھی کرتے ہیں اور ان کو مشورے بھی دیتے رہے ہیں ۔چند گنے چونے سیاسی کارکن ہوتے ہیں جو اپنی لیڈرشپ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ اکثریت اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر ہی یا بڑاس نکالتے ،لیڈرشپ کے فیصلوں پر تنقید کرتے یاان کو مشورے دیتے ہیں۔کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کی لیڈرشپ کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر کھل کر سیاسی کارکنوں نے تنقید کی ۔

سیاسی کارکنوں کا اپنی جماعت کے فیصلوں پر تنقید کرنے کا اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا پارٹی کی کور کمیٹی اور ارکان اسمبلی کا حق بنتا ہے۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کا وجو د اپنے کارکنوں کی بدولت ہی قائم ہوتاہے۔اگر سیاسی جماعتوں کے کارکن یا سپورٹرز نہ ہوں تو یہ ڈکٹیٹر شپ کی علامت پارٹیاں سمجھی جائیں گئیں۔

(جاری ہے)

دوسرا پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ نے پورے ملک کی سیاست کرنی ہوتی ہے کسی ایک حلقے یا یونین کونسل کی نہیں ۔

جو سیاسی پارٹیاں بڑی ہوں اور ملک گیر ہوں ان کے ہر حلقے میں ایک سے زائد ٹکٹوں کے امیدوار ہوتے ہیں ان کیلئے اتنی ہی زیادہ مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ایسے وقت میں لیڈرشپ کیلئے کسی ایک شخص کو ٹکٹ دینا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مضبوط امیدوار کو ہی اپنی جماعت کا ٹکٹ دیں جو اپنی سیٹ نکالنے کا اہل ہوں۔بعض اوقات لیڈرشپ کے فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں۔


میں کتنے دنوں سے سوچ رہاتھا کہ مسلم لیگ(ن) کو حکومت بنانے کا فارمولہ دوں ۔دو ماہ سے یہی سوچ رہا تھا کہ یہ فارمولہ پیش کرو ں یا نہ کرو ں ۔میں بطور مسلم لیگ(ن)کا بیٹ رپورٹر اس جماعت کو زیادہ قریب سے سمجھتا ہوں اور ان کے اندرون خانہ مسائل سے بھی بخوبی واقف ہوں۔میں نے دو ماہ قبل بھی میاں نوازشریف کو مشورہ دیا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں پارٹی کو مضبوط کرنے ،ناراض لوگوں کو منانے اور دیگر سیاسی جماعتوں سے حکومت سازی کیلئے مریم نواز کو اسائمنٹ دی جائے جبکہ سندھ اور پنجاب میں یہ اسائمنٹ شہبازشریف کو دی جائے۔

یہی مشورہ دوبارہ دہرادیتا ہوں کہ سب سے پہلے تو میاں نوازشریف کو چاہیے کہ مریم نواز کو فوری طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے دوروں کی ہدایت دیں ۔ویسے پورے ملک میں اس وقت لوگ مریم نواز کا ہر جگہ پرتپاک انداز میں استقبال کرتے ہیں لیکن میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام مریم نواز کو بہت عزت دیتے ہیں ۔

بلوچستان میں مریم نواز کو پسند کرنے کی بڑی وجہ ان کا مزاحمتی بیانیہ ہے اور بلوچستان نے ہمیشہ مزاحمتی سیاست ہی کی ۔جبکہ خیبر پختونخواہ مریم نواز کا سسرال ہے اور سب سے بڑھ کر وہاں نوازشریف کے پاس امیر مقام کی شکل میں دوسرا شہبازشریف موجود ہے۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں امیر مقام آج بھی کے پی کے میں محمود خان حکومت سے زیادہ مضبوط شخصیت ہیں ۔

بلوچستان میں اس وقت چار بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں عبدالمالک کی نیشنل پارٹی،اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی ،جام کمال کی بلوچستان عوامی پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام (ف) شامل ہیں ۔جام کمال کے علاوہ باقی تینوں جماعتیں نوازشریف کی اس وقت اتحادی ہیں ۔ویسے تو جام کمال بھی 2013سے 2018تک نوازشریف کابینہ کے رکن رہے ہیں ۔

مریم نواز میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ بلوچستان میں پارٹی کے ناراض لوگوں اور دیگر جماعتوں کے اہم ارکان کو مسلم لیگ(ن) میں شمولیت پر قائل کرسکتی ہیں ۔اسطرح کے پی کے میں تحریک انصاف کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت دو بڑی جماعتیں ہیں ۔کے پی کے میں جماعت اسلامی بھی کسی حد تک ایک بڑی جماعت ہے ۔لیکن انکا پوری قوم کو معلوم ہے کہ ان کو جہاں مالک کہیں گے یانکارخ اسی طرف ہوگا۔

مولانا صاحب یہاں بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہی کھڑے ہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی کبھی مزاحمتی تھی اب جماعت ایمل ولی کے ہاتھ میں آنے کے بعد مفاحمتی جماعت بن گئی ہے ۔مریم نواز عوامی نیشنل پارٹی کو بھی اپنی ساتھ ملانے کی اہلیت رکھتی ہے ۔کیونکہ ایمل ولی سمیت غلام احمد بلور کی پوری فیملی مریم نواز کا دل سے احترام کرتی ہے۔
اگر ہم بات کریں پنجاب کی تو پنجاب میں مسلم لیگ(ن) آج بھی سب سے بڑی جماعت ہے ان کے اس وقت پنجاب اسمبلی میں 159ارکان موجود ہیں جبکہ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے۔

تحریک انصاف نے آزاد امیدواروں اور مسلم لیگ(ق) کو ساتھ ملاکر حکومت بنائی۔شہبازشریف اگر اس سال میں جنوبی پنجاب کے تین دورے کرلیں تو پورا جنوبی پنجاب محاذ مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔جنوبی پنجاب محاذ کے لوگ عمران خان کی احتساب کی پالیسی سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ ان کا کاروبار مسلسل متاثر ہورہا ہے۔۔دوسری جانب جہانگیرترین گروپ کے لوگ بھی مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر 2023کا الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں ۔

اس حوالے سے وہ لوگ بار بار نوازشریف اور رانا ثناء اللہ سے رابطے کررہے ہیں ۔دوسری جانب تحریک انصاف کے ارکان کی اکثریت بھی کپتان اور بزدار سے تنگ آچکی ہے وہ بھی اڑان بھرنے کو تیار ہیں ۔بس یہ شرم کے مارے مسلم لیگ(ن) کے ارکان اور صحافیوں سے متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ہم نے اگلا الیکشن تحریک انصاف کی ٹکٹ پر نہیں لڑنا ۔شہبازشریف کو چاہیے کہ ان کو فوری اپنے پروں میں سمالیں ایسا نہ ہو کہ چوہدری پرویز الہی اور آصف زرداری ان کو کیچ کرلیں کیونکہ ان دونوں کی بھی یہی خواہش ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے لوگوں کو توڑ کرہی پنجاب میں حکومت بنائی جائے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔

اگر سندھ کی بات کریں تو سندھ میں آج بھی لوگ خواہش کرتے ہیں کہ کاش ان کا وزیراعلیٰ شہبازشریف ہوتا۔سندھ کے لوگ پنجاب کی ترقی کی وجہ سے شہبازشریف کو بہت عزت دیتے ہیں ۔شہبازشریف سندھ میں پیر پگاڑا لیگ ،جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔کیونکہ یہ تینوں حکومت کے اتحادی عمران خان کی حکومت سے اس وقت شدید تنگ پڑ چکے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان جب بھی سندھ کے دورے پر جاتے ہیں صرف اعلانات کرتے ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔

یہ بہترین موقع ہے نوازشریف کو چاہیے کہ مریم نواز اور شہبازشریف کو فوری پریہ اسائمنٹ دیں جبکہ حمزہ شہباز اور خواجہ سعد رفیق کو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی ہدایت دیں کیونکہ ان دونوں کا بلدیاتی الیکشن میں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کا کافی تجربہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :