نئے پاکستان سے نئے پنجاب تک

منگل 3 دسمبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مختلف شعبوں میں اصلاحات کا اعلان کیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بھی ایسے بہت سے دعوے کئے گئے جن میں روزگار کے مواقع، 50لاکھ سستے گھر، نوجوانوں کو بلا سود قرضے، مستحکم معیشت، شجر کاری، بچت سکیم، سرمایہ کاری، پولیس اصلاحات شامل ہیں۔
 فہرست طویل ہے آج ڈیرھ سال بعد کامیابی اور ناکامی کا تعین بھی آسان نہیں لیکن نئے پاکستان میں جس گورننس کی بات کی گئی تھی وہ گڈ گورننس کہیں نظر نہیں آتی۔

چیف آف آرمی سٹاف کی توسیع کیلئے ایک نوٹیفکیشن کی تیاری حکومت کیلئے چیلنج بن گئی۔ اس پر بلاول بھٹو کا یہ سوال کہ یہ حکومت کیسے پارلیمنٹ سے قانون پاس کروائے گی جو ایک نوٹیفکیشن بھی درست طریقے سے جاری نہیں کر سکتی غلط نہیں۔

(جاری ہے)

خارجہ و معاشی پالیسیاں ناکام، اور ایک سال میں ایک بھی قانون پاس نہیں کروایا گیا۔

 وزیر اعظم پارلیمنٹ سے غیر حاضر ہیں اور وزراء وہی الزام تراشی کی سیاست سے عام آدمی کو مطمئن کرنے کے چکر میں ہیں۔

کرپشن، چور، ڈاکو، لوٹ مار، جیل چھوڑوں گا نہیں 2013سے ان ڈائیلاک پر مشتمل فلم سنائی دیے رہی ہے۔ سیاسی مخالفین پر سخت تنقید کے تیر برسا کر وزراء سمجھتے ہیں کہ وہ کار کردگی میں سر فہرست ہیں۔ وزیر اعظم عمران خا ن کرپٹ نہیں انکی نیت پر مجھے شک نہیں مگر حکمت عملی واضح پروگرام اور اٹھائے گئے اقدامات کسی بھی شعبہ میں نظر نہیں آتے۔
وفاقی حکومت کی کار کردگی کسی بھی طرح تسلی بخش نہیں، تاحال نیا پاکستان نظر نہیں آتا جبکہ وزیر اعظم عمران خان پنجاب حکومت کی کار کردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بہتری لانے کی ہدایت کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے پنجاب میں گڈ گورننس کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو ناکافی قرار دے دیا۔ صوبائی کابینہ کو آخری وارننگ دے دی گئی اور کہا جو توقعات پنجاب کی ٹیم سے کر رہا تھا پوری نہیں ہوئیں۔پاکستا ن کی آدھی سے زیادہ آبادی پنجاب میں آباد ہے نیا پنجاب بنائے بغیر نئے پاکستان کا خوا ب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔پنجا ب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے وقت عمران خان نے کچھ ایسا سیاسی فیصلہ کیا کہ پنجاب کی کمانڈ سردار عثمان بزدار کو سونپ دی۔

سردار عثمان بزدار پی ٹی آئی میں نسبتاً نئے تھے اور اس انتخاب کو قدرے غیر متوقع قرار دیا گیا۔ عمران خان نے انہیں وسیم اکرم پلس قرار دیا۔ 
اس پر وسیم اکرم نے برا نہیں منایا تو ہمیں کیا اعتراض۔
 عثمان بزدار کے انتخاب پر روز اول سے تنقید شروع ہو گئی اور سیاسی مبصرین تو یہ تاثر دیتے دکھائی دیے کہ پس پردہ حقیقی وزیر اعلیٰ کوئی اور ہوگا۔

جبکہ مجھے یقین تھاعمران خان کسی بھی مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والی شخصیت کا انتخاب ہرگز نہیں کریں گے۔ ماضی میں مسلم لیگ ن نے ہمیشہ پنجاب سے یہی سلوک کیا۔ غلام حیدر وائیں جیسی کمزور شخصیت وزیر اعظم نوا ز شریف کا انتخاب تھا۔ پرویز الٰہی اگر انکا حسن انتخاب ہوتے تو مسلم لیگ ن وفاق میں کبھی بھی بر سر اقتدار نہ آ سکتی۔ لاہور سے اسلام آباد کا راستہ بند کرنے کا واحد سیاسی بندوبست شہباز شریف کی صورت میں ہی ممکن تھا اس لئے نواز شریف نے پنجاب میں کوئی رسک نہیں لیا۔

اب عمران خان کے پاس تو کوئی شہباز شریف نہیں اس لئے کسی نے تو نئے غلام حید ر وائیں کی صورت میں ہی سامنے آنا تھا۔ میں عثمان بزدار کے انتخاب کو 100فیصد درست سمجھتا ہوں۔ تمام تر تنقید کے باوجود ڈیرھ سال بعد بھی عثمان بزدار ہی عمران خان کیلئے بہترین چوائس ہیں۔ 
حالیہ دورہ لاہور میں وزیر اعظم عمران خا ن نے کہا عثمان بزدار ہی صوبائی معاملات کے انچار ج ہیں، پرانے اور نئے پنجاب میں اگلے 3ماہ میں واضح فرق نظر آئے گا۔

پنجاب میں گڈ گورننس کو یقینی بنانے کیلئے بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبادلے کئے گئے اور اب پی ٹی آئی پر امید ہے ٹاپ بیورو کریسی، نئی ٹیم کے ساتھ گڈ گورننس کو یقینی بنائے گی۔ وزیر اعظم نے واضح کیا سفارشی کام کرنے پر بیوروکریٹ اور سفارش کرنے والے رکن اسمبلی کے خلاف قانونی کاروائی ہو گی۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب ارکان پنجاب اسمبلی بات سننے کی بھی ہدایت کی۔

وزیر اعظم عمران خا ن پنجاب میں گڈ گورننس کیلئے عملی اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں اس کیلئے نوے دن کا ٹائم فریم سامنے رکھا گیا ہے۔
قارئین کرام! ڈیرھ سال میں نیا پاکستان تو نہ بن سکا اب عمران خان نیا پنجاب بنانے کے خواہشمند ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پر شدید تنقید ہوتی رہی اور عمران خان ہمیشہ انکا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں اور آج بھی عثمان بزدار پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔

پنجاب حکومت کے حوالہ سے یہ بات بھی سامنے آتی رہی کہ بیوروکریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی جس کے باعث پرفارم نہیں کر پا رہے۔ ڈیرھ سال کے عرصہ کے دورا ن پنجاب میں 5آئی جی اور 3چیف سیکرٹری تبدیل ہوئے اب یہ نئی تقرریاں اور تبادلے کیا حکومت کو مضبوط بنائیں گے۔پہلے تعینات افسران کی سیاسی وابستگیاں مسلم لیگ ن کے ساتھ بتائی جاتی تھیں اب ٹاپ ٹین بیوروکریٹس کو پنجاب میں تعینات کیا گیا ہے۔

انتظامی فیصلے تو ہو گئے پی ٹی آئی کو سیاسی فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔
 نئے پاکستان اور نئے پنجاب کا مسئلہ سیاسی استحکام بھی ہے۔ سیاسی استحکام میں معاشی استحکام پنہا ں ہے۔ معاشی استحکام مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔سیاست میں انتقام کے تاثر کو ختم کرنا ہوگا۔سیاسی مخالفین سے سیاسی ڈائیلاک کی ضرورت ہے۔کرپشن کے کیس عدالت کو دیکھنے دیں۔ عوامی مشکلات کے لیے اقدامات کریں۔الزام تراشی کی سیاست بہت ہوگی اب یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے نیا پاکستان بنانا ہے تو نیا پنجاب بنانا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :