''سیاست میں سیاسی طرز عمل کی ضرورت''

منگل 19 جنوری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

گزشتہ سال دنیا میں کورونا وائرس نے عالمی سطح پر بہت برے اثرات چھوڑے۔انسانی زندگی ہر طرح متاثر ہوئی۔ امید ہے کورونا ویکسینیشن کے آنے اور اس کے استعمال سے یقینا حالات بہتر ہونگے۔ وطن عزیز میں کورونا کے ساتھ معاشی صورتحال حکومت اور عوام دونوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی رہی۔
خارجہ سطح پر بھی پاکستان کو عالمی حمایت نہیں مل سکی۔

بھارت نے 2019میں کشمیر کی داخلی خودمختارحیثیت ختم کی توعرب ممالک نے پاکستان کے موقف کو اہمیت ہی نہیں دی۔ افغانستان میں جنگ بندی نہ ہوسکی۔عرب ممالک سے تعلقات میں سردمہری نے معاشی اور سڑیٹیجک امور میں تشویش میں بڑھی۔ تبدیلی سرکار نے اپنی تمام تر توانائیاں احتساب کے نام پر اپوزیشن کے خلاف کاروائیوں کے لیے استعال کی۔

(جاری ہے)

2020میں اپوزیشن بھی خم ٹھوک کر اجتجاج کے راستہ پر چل نکلی۔

گزشتہ سال کا جائزہ لیں تو یہ لکھنا پڑتا ہے کہ کچھ بھی بہتر نہیں ہوا۔
پاکستان کو جس ہمہ جہت بحران کا سامنا ہے وہ محض سیاسی نہیں۔سیاست میں تو اتار چڑھاو آتا رہتا ہے مگر ہم ہر شعبہ میں تنزلی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قومی اتفاق رائے کا فقدان ہے۔قومی معاملات اور ترجیحات کاواضح تعین بہت ضروری ہے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام کی بہتری کے لیے سیاست کریں تو سیاسی استحکام ممکن ہے۔

سیاسی استحکام ہی بہتر معاشی صورت حال کا ضامن ہوتاہے۔وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس حقیقت کا اعتراف کچھ یوں کیا کہ حقیقی مسائل کا تعین کئے بغیر سرکاری فنڈز خرچ کرنا قومی وسائل کے ضیاع کے مترادف ہے۔ نمائشی اور آرائشی منصوبے بناکر عوام کو دھوکا نہیں دیں گے۔
ماضی کے پنجاب میں نمائشی منصوبہ جات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بے ثمر منصوبہ جات کاغذوں اور سیاسی نعروں کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے۔

صحت کی دستیاب سہولیات کے حوالہ سے صوبہ سندھ اور پنجاب کا موازنہ کریں تو سندھ کی صورتحال بہت بہتر ہے لیکن لاہور کی میڑو بس اور اورنج ٹرین شہباز شریف سیاسی طور پر کیش کرواتے ہیں۔ سالہا سال گزر گئے لاہور میں کوئی نیا ہسپتال تعمیر نہیں ہوا۔اب فیروزپور روڈ پر ایک ہزار بستر پر مشتمل ہسپتال کا منصوبہ کا اعلان ہوا ہے۔حکومت بہتر کام کرے تو اسکی تعریف ضروری ہے مگر معاملات صرف الزامات کے ذریعے ہی چلائے جائیں تو ملک کا نقصان ہوگا، پی ٹی آئی بھی بطور جماعت اپنی مقبولیت قائم نہیں رکھ پائے گی۔

سیاست میں اختلاف رائے کی بجائے تلخی اور عدم برداشت افسوس ناک ہے۔ نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن اور آصف علی زرداری کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری نے 2008میں سینیٹر جوبائیڈن کے لیے ہلال پاکستان کا اعلان کیا تھا اور انہیں اس اعزاز سے نوازاگیا۔جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے دعوت نامہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو وصول ہوئے۔

وزیراعظم عمران خان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اب آصف علی زرداری کے تعلقات پر پریشان حکومت سے وابستہ قلم کار دعوت نامہ خریدنے کا الزام عائد کرکے عمران خان کا قد اونچا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔تبدیلی سرکار کے وفادار خارجہ پالیسی میں توازن اور بہتری پر بات کرنے کی بجائے محض آصف علی زرداری پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ تاریخ گواہ ہے شمسی ائیر بیس آصف علی زرداری نے امریکہ سے خالی کروایا۔

ایران پائپ لائن منصوبہ، سی پیک جیسے امریکہ کے ناپسندیدہ فیصلے کیے۔اس کے باوجود امریکہ کے نزدیک آصف علی زرداری کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ خارجہ معاملات میں ناکامی پر بھی الزامات کے ذریعے عمران خان ہیرو بننا چاہتے ہیں۔امریکہ پر دعوت نامہ فروخت کرنے کا الزام۔۔۔؟اب اس کی تحقیقات نیب
 سے ہی کروالیں۔ایسی باتیں عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث ہیں۔


 سیاسی معاملات اگر سیاسی انداز سے چلائے جائیں تو بہتر ہے۔ سیاسی اختلاف کا مطلب ہر معاملہ میں مخالفت نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کی موجودہ تحریک میں بھی پی پی پی نے بہتر انداز اختیار کیا۔ حکومت کو دباو میں لانے کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشیشیں جبکہ تبدیلی کے لیے صرف آئینی راستہ کا انتخاب یہ ہے وہ پالیسی جسے پی پی پی کی قیادت نے اپنایا۔


موجودہ حکومت ابھی تک عوامی مسائل کم کرنے اور کرپشن کے خلاف بہتر اقدامات میں ناکام ہے۔ تمام کیسز اپوزیشن کے خلاف میڈیا ٹرائل کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔تا حال کوئی بڑا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ نوازشریف بھی ملک سے باہر چلے گئے۔وزراصرف بیان بازی میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے لیے دوڑدھوپ کرتے نظر آتے ہیں۔ایسا نہ ہو 5سال بعد کرپشن کیسز کا بھی فیصلہ نہ ہو اور عوام کو ریلیف بھی نہ ملے۔

آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی الزامات کے سہارے کامیاب نہیں ہوسکتی۔
سیاست میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سیاسی انداز اختیار کرنا ہی ضروری ہے۔ کسی کرپٹ کو ہرگز معاف نہ کیا جائے مگر عوام کو سزا دینے کی پالیسی یکسر ترک کرنا ہوگی۔عمران خان حالات کا ادراک کریں۔ تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں لائیں۔مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ امریکہ سمیت عالمی سطح پر پاکستان کے بہتر امیج کے لیے سیاسی قیادت کو اہمیت دیں۔سیاسی اختلاف کومیدان سیاست تک رکھیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایک ہی پیغام جائے تو بہتر ہے۔ کرپشن کے فیصلے عدالت کو کرنے دیں۔ سیاسی قیادت کواہمیت اور احترام دیں۔سیاسی منصب کا تقاضہ ہے کہ معاملات کو سیاسی انداز میں ہی چلایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :