پانی‘ بجلی ‘ مہنگائی اور حکومتی رویہ

بدھ 22 جولائی 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر لگائی گئی کسی کی پوسٹ نظر سے گزری جس کے مطابق اگر اس وقت قائد عظم محمد علی جناح زندہ ہوکر آجائیں تو وہ بھی اس ملک اور قوم کی حالت نہیں سدھار سکیں گے ۔ پوسٹ دیکھ کر مجھے فوری طور پر بے حد برا لگا لیکن جب وطن عزیز کی حالت زار پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ واقعی اس وقت ملک کے خانگی معاملات کچھ اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کسی کو بھی ‘ کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ آخر ہوکیا رہا ہے۔

وفاقی حکومت اپنی راگنی الاپ رہی ہے اور صوبائی حکومتیں اپنے ‘اپنے راگ گارہی ہیں۔ ہر ایک ” گڈ گورننس “کا دعوے دار ہے اور گڈ تو چھوڑیں کہیں” بیڈ گورننس“بھی نظر نہیں آرہی۔حکومت ایک شتربے مہار ہے جو منزل کے تعین کے بغیر دوڑی چلی جارہی ہے اورعوام بے وقوفوں کی مانند اسے تکے چلے جارہے ہیں ۔

(جاری ہے)


عام عو امی معاملات سے بات شروع کرتے ہیں‘ سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ کے الیکٹرک کی اس قدر خراب کارکردگی کی اصل میں وجہ کیا ہے بات کرلیتے ہیں لوڈ شیڈنگ نہ کئے جانے ‘ معذرت غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہ کئے جانے کی دعوے دار ی کی۔کچھ عرصہ قبل گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی و ترقیاتی امور اسد عمرنے عوام کو بغیر اطلاع کے لوڈشیڈنگ نہ کئے جانے کی خوشخبری سنائی تھی ‘ وفاقی وزیر نے معاملات درست نہ کرنے پر کے الیکٹرک کو وفاقی تحویل میں لئے جانے کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن یہ سب ہوائی باتیں ثابت ہوئیں ‘جس پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر یہ خطاب کررہے تھے اسی پریس کانفرنس میں کے الیکٹرک کے نمائندے سرجھکائے زیر لب مسکرارہے تھے کہ”آپ جو چاہیں وعدے کرلیں‘ ہمیں کون سا آپ کے وعدوں کی پاسداری کرنی ہے۔

“ دیکھ لیجئے ‘ آج بھی صورتحال جو ں کی توں ہے۔ شاباش ہے کے الیکٹرک کی ہمت کو کہ وہ نہایت ثابت قدمی سے اپنی روش پر قائم ہے اور کراچی والے اسی طرح اندھیروں کے مسافر ہیں جیسے گورنر سندھ اور وفاقی وزیر کے وعدوں سے پہلے تھے۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی کو یقین واثق ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی کے الیکٹرک کا کچھ نہیں بگڑنا اور عوام کو اندھیرے اور کے الیکٹرک کی جانب سے جاری کئے جانے والے بھاری بھرکم بلز بھی جھیلنے ہیں بالکل ”چینی “والے قصے کی طرح عوام پر تو یہ مثال صادق آگئی کہ” کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنہ “چینی کی قیمتوں میں تو کوئی کمی نہ آئی البتہ کئی ہفتے چینی کیس ‘ غبن‘ بے ایمانی ‘ عدالتی کارروائی اور پتا نہیں کیا کیا دیکھتے ہوئے گزرے جس نے “شوگر لیول “ بڑھاکر چینی کی کھپت میں ضرور کمی کردی ہوگی۔


 ابھی چونکہ گرمی کا موسم ہے اس لئے فی الحال گیس کے بلوں میں”تھوڑا بہت“ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ گیس پر کئی قسم کے سرچارجز لگائے گئے ہیں لیکن موسم کی تبدیلی ان بلوں میں بھی زبردست”تغیر“ کا باعث بنتی ہے اور اس سال بھی کوئی انہونی تو ہوئی نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
 ایک او راہم ترین ا مسئلہ ہے کراچی میں فراہمی و نکاسی آب ۔ ویسے تو صاف پانی کی فراہمی بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے لیکن کیوں کہ پانی دستیاب ہی نہیں ہے اس لئے جتنا بھی پانی آتا ہے اس کی صفائی اور گندگی کی پرواہ کئے بغیر‘ صارفین جو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پانی کے پیسے بھی ادا کرتے ہیں‘ اسے استعمال کرلیتے ہیں۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ذکر آیا ہے تو اس کی ناقص کارکردگی کی بھی با ت کرتے چلیں جو کسی سے ڈھکی چھپی تو ہے نہیں ۔ اس محکمے کی ”شاندار “ کارکردگی کو بہانہ بناکر آئے دن اس کے ایم ڈی بھی تبدیل کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ بھٹو ”اچانک“ تبدیل کردیئے گئے اور ان کی جگہ نئے ایم ڈی خالد محمود شیخ کومنیجنگ ڈائریکٹر کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

یہ محکمہ فنانس کے پرائیویٹ پبلک پارٹیسپیش یونٹ کے ڈائریکٹر وہی خالد شیخ ہیں جنہیں ایک سال قبل کراچی کے عوام کی پانی کی طلب پوری نہ کرنے کی سزا میں عہدے سے فارغ کرکے اسد اللہ بھٹو کو ان کی جگہ تعینا ت کیا گیا تھا۔ خالد محمود شیخ کی شہرت ایک سخت گیر آفیسر کی ہے جو کسی اور حوالے سے نیک نامی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں لیکن شنیدن ہے کہ اسٹاف بالخصوص ریٹائرڈ اسٹاف کیلئے ان کے دل میں نہایت نرم گوشہ ہے۔

ان کے دور میں اسٹاف کو تنخواہیں اور پینشن بغیر کسی تعطل کے اوربروقت دی جاتی ہیں۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ خالد محمود شیخ اپنے کاموں میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کیا کرتے‘ آپ ایک نہایت قابل اور ذمہ دار شخصیت ہیں لیکن لوگوں کو سندھ حکومت سے لائے جانے والے خالد محمود شیخ کے انجینئر نہ ہونے‘ اُن کے واٹر بورڈ سے کوئی تعلق نہ ہونے اورواٹر بورڈ کے تکنیکی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھنے پر اعتراض ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ واٹر بورڈ کے ایم ڈی کا عہدہ نان کیڈر ہے اور واٹر بورڈ کے بائی لاز کے مطابق واٹر بورڈ کا سربراہ ادارے سے تعلق رکھنے والا سینئر افسر انجینئر ہونا چاہئے لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ صوبائی وزیربلدیات اور چیئرمین کراچی و اٹر اینڈ سیوریج بورڈ سید ناصر حسین شاہ نے سابق ایم ڈی اسد اللہ بھٹو کو فوری طور پر عہدے سے برطرف کرکے خالد محمود شیخ کی تعیناتی کے احکامات کیوں جاری کئے لیکن یہ کہنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں ہے کہ” وجہ“ کم از کم عوامی مسائل کو حل” نہ کیا جانا“ ہرگز نہیں ہے۔


اب بات کرلیتے ہیں سب سے بنیادی مسئلے یعنی ”مہنگائی‘ ‘کی۔ اس وقت مرغی مہنگی‘ دودھ مہنگا‘ ٹماٹر مہنگے‘ دالیں ‘ آٹا اور چینی بھی مہنگی لیکن عوام کریں تو کیا کریں‘ جینا تو ہے‘ بچوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے کیا ہوا جو مرغی کے گوشت کی قیمت میں یکدم 200روپے فی کلو کا اضافہ ہوجاتا ہے ‘ کیا ہوا اگر ٹماٹر 20روپے فی کلو سے100روپے فی کلو پر پہنچ جاتے ہیں اور چینی 84روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔

عوام کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں‘ لاک ڈاؤن اور کرونا کی وبا نے انہیں کسی بھی حد تک معاشی چکی میں پیس کر رکھا ہوا ہو اب اگر زندہ رہنا ہے تو اشیائے ضروریہ کی خریداری تو کرنی ہی ہوگی۔
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن کے حلقے آپس میں دست و گریباں ہیں ‘ انہیں اس بات کی کیا فکر کہ عوام کس حال میں ہے۔ کاروبار چل رہے ہیں یا نہیں ‘ لوگوں کو تنخواہیں مل رہی ہیں یا نہیں‘ روزانہ کاروبار کرنے والے ‘جن کا نام لے کرپاکستان میں کبھی سخت لاک ڈاؤن لگایا ہی نہیں گیا‘ وہ کس کسمپرسی کا شکار ہیں اس بات سے وفاقی و صوبائی حکومتیں لاتعلق ہیں۔

وفاقی حکومت ڈیڑھ سے پونے دو لاکھ عوام کو12000روپے کی رقم دینے کا ڈھول پیٹ رہی ہے اب کوئی اُن سے پوچھے تو سہی کہ غریب سے غریب گھرانہ بھی 12000روپے کی رقم میں چار مہینے اپنا گھر کیسے چلاسکتا ہے؟
خوش قسمتی سے وطن عزیز میں کرونا نے اپنے شدید ترین وار نہیں کئے اس کے باوجود ملک کی معاشی صورتحال بدتری کی جانب جارہی ہے ایسے میں تمام ذمہ دار اپنے اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے سیاسی رسہ کشی میں مگن ہیں۔

کوئی کسی کو جوابدہ نظر نہیں آتا‘ عدالتیں سو موٹو ایکشنز لیتے لیتے تھک گئی ہیں ‘کوئی ملکی معاملات کی درستگی کیلئے سنجیدہ نہیں ہے‘ ایک اکیلے وزیر اعظم پاکستان کی کوششوں سے صورتحال سنبھلنے والی نہیں ہے ‘ ان کے تمام حواریوں کو راہ راست پر آنا ہوگا‘ اتنا ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی سیاست چمکانے کے بجائے موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومت کے اچھے فیصلوں پر ان کا ساتھ دینا ہوگا۔

آج ملک اور قوم جس منظر نامے کا شکار ہے وہ تاریخ کا حصہ بنے گی‘ یہ وہ تاریخ نہیں ہے جسے بادشاہوں نے اپنے تاریخ دانوں سے اپنی مرضی سے لکھوایا‘ بلکہ یہ تاریخ آزاد میڈیا اورسماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے مرتب پائے گی لہٰذا ہر ایک کو اپنا‘ اپنا قبلہ و کعبہ درست سمت میں رکھنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر کیا ہوگا شاید مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :