
پانی‘ بجلی ‘ مہنگائی اور حکومتی رویہ
بدھ 22 جولائی 2020

شازیہ انوار
(جاری ہے)
عام عو امی معاملات سے بات شروع کرتے ہیں‘ سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ۔
ابھی چونکہ گرمی کا موسم ہے اس لئے فی الحال گیس کے بلوں میں”تھوڑا بہت“ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ گیس پر کئی قسم کے سرچارجز لگائے گئے ہیں لیکن موسم کی تبدیلی ان بلوں میں بھی زبردست”تغیر“ کا باعث بنتی ہے اور اس سال بھی کوئی انہونی تو ہوئی نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
ایک او راہم ترین ا مسئلہ ہے کراچی میں فراہمی و نکاسی آب ۔ ویسے تو صاف پانی کی فراہمی بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے لیکن کیوں کہ پانی دستیاب ہی نہیں ہے اس لئے جتنا بھی پانی آتا ہے اس کی صفائی اور گندگی کی پرواہ کئے بغیر‘ صارفین جو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پانی کے پیسے بھی ادا کرتے ہیں‘ اسے استعمال کرلیتے ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ذکر آیا ہے تو اس کی ناقص کارکردگی کی بھی با ت کرتے چلیں جو کسی سے ڈھکی چھپی تو ہے نہیں ۔ اس محکمے کی ”شاندار “ کارکردگی کو بہانہ بناکر آئے دن اس کے ایم ڈی بھی تبدیل کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ بھٹو ”اچانک“ تبدیل کردیئے گئے اور ان کی جگہ نئے ایم ڈی خالد محمود شیخ کومنیجنگ ڈائریکٹر کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ یہ محکمہ فنانس کے پرائیویٹ پبلک پارٹیسپیش یونٹ کے ڈائریکٹر وہی خالد شیخ ہیں جنہیں ایک سال قبل کراچی کے عوام کی پانی کی طلب پوری نہ کرنے کی سزا میں عہدے سے فارغ کرکے اسد اللہ بھٹو کو ان کی جگہ تعینا ت کیا گیا تھا۔ خالد محمود شیخ کی شہرت ایک سخت گیر آفیسر کی ہے جو کسی اور حوالے سے نیک نامی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں لیکن شنیدن ہے کہ اسٹاف بالخصوص ریٹائرڈ اسٹاف کیلئے ان کے دل میں نہایت نرم گوشہ ہے۔ ان کے دور میں اسٹاف کو تنخواہیں اور پینشن بغیر کسی تعطل کے اوربروقت دی جاتی ہیں۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ خالد محمود شیخ اپنے کاموں میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کیا کرتے‘ آپ ایک نہایت قابل اور ذمہ دار شخصیت ہیں لیکن لوگوں کو سندھ حکومت سے لائے جانے والے خالد محمود شیخ کے انجینئر نہ ہونے‘ اُن کے واٹر بورڈ سے کوئی تعلق نہ ہونے اورواٹر بورڈ کے تکنیکی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھنے پر اعتراض ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ واٹر بورڈ کے ایم ڈی کا عہدہ نان کیڈر ہے اور واٹر بورڈ کے بائی لاز کے مطابق واٹر بورڈ کا سربراہ ادارے سے تعلق رکھنے والا سینئر افسر انجینئر ہونا چاہئے لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ صوبائی وزیربلدیات اور چیئرمین کراچی و اٹر اینڈ سیوریج بورڈ سید ناصر حسین شاہ نے سابق ایم ڈی اسد اللہ بھٹو کو فوری طور پر عہدے سے برطرف کرکے خالد محمود شیخ کی تعیناتی کے احکامات کیوں جاری کئے لیکن یہ کہنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں ہے کہ” وجہ“ کم از کم عوامی مسائل کو حل” نہ کیا جانا“ ہرگز نہیں ہے۔
اب بات کرلیتے ہیں سب سے بنیادی مسئلے یعنی ”مہنگائی‘ ‘کی۔ اس وقت مرغی مہنگی‘ دودھ مہنگا‘ ٹماٹر مہنگے‘ دالیں ‘ آٹا اور چینی بھی مہنگی لیکن عوام کریں تو کیا کریں‘ جینا تو ہے‘ بچوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے کیا ہوا جو مرغی کے گوشت کی قیمت میں یکدم 200روپے فی کلو کا اضافہ ہوجاتا ہے ‘ کیا ہوا اگر ٹماٹر 20روپے فی کلو سے100روپے فی کلو پر پہنچ جاتے ہیں اور چینی 84روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ عوام کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں‘ لاک ڈاؤن اور کرونا کی وبا نے انہیں کسی بھی حد تک معاشی چکی میں پیس کر رکھا ہوا ہو اب اگر زندہ رہنا ہے تو اشیائے ضروریہ کی خریداری تو کرنی ہی ہوگی۔
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن کے حلقے آپس میں دست و گریباں ہیں ‘ انہیں اس بات کی کیا فکر کہ عوام کس حال میں ہے۔ کاروبار چل رہے ہیں یا نہیں ‘ لوگوں کو تنخواہیں مل رہی ہیں یا نہیں‘ روزانہ کاروبار کرنے والے ‘جن کا نام لے کرپاکستان میں کبھی سخت لاک ڈاؤن لگایا ہی نہیں گیا‘ وہ کس کسمپرسی کا شکار ہیں اس بات سے وفاقی و صوبائی حکومتیں لاتعلق ہیں۔وفاقی حکومت ڈیڑھ سے پونے دو لاکھ عوام کو12000روپے کی رقم دینے کا ڈھول پیٹ رہی ہے اب کوئی اُن سے پوچھے تو سہی کہ غریب سے غریب گھرانہ بھی 12000روپے کی رقم میں چار مہینے اپنا گھر کیسے چلاسکتا ہے؟
خوش قسمتی سے وطن عزیز میں کرونا نے اپنے شدید ترین وار نہیں کئے اس کے باوجود ملک کی معاشی صورتحال بدتری کی جانب جارہی ہے ایسے میں تمام ذمہ دار اپنے اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے سیاسی رسہ کشی میں مگن ہیں۔ کوئی کسی کو جوابدہ نظر نہیں آتا‘ عدالتیں سو موٹو ایکشنز لیتے لیتے تھک گئی ہیں ‘کوئی ملکی معاملات کی درستگی کیلئے سنجیدہ نہیں ہے‘ ایک اکیلے وزیر اعظم پاکستان کی کوششوں سے صورتحال سنبھلنے والی نہیں ہے ‘ ان کے تمام حواریوں کو راہ راست پر آنا ہوگا‘ اتنا ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی سیاست چمکانے کے بجائے موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومت کے اچھے فیصلوں پر ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ آج ملک اور قوم جس منظر نامے کا شکار ہے وہ تاریخ کا حصہ بنے گی‘ یہ وہ تاریخ نہیں ہے جسے بادشاہوں نے اپنے تاریخ دانوں سے اپنی مرضی سے لکھوایا‘ بلکہ یہ تاریخ آزاد میڈیا اورسماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے مرتب پائے گی لہٰذا ہر ایک کو اپنا‘ اپنا قبلہ و کعبہ درست سمت میں رکھنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر کیا ہوگا شاید مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شازیہ انوار کے کالمز
-
کرونا وائرس کا نیا حملہ ‘بوسٹر لگوائیں‘ احتیاط کریں
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
بریسٹ کینسر کی الارمنگ صورتحال
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
مہنگائی اور ہم
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
عمر شریف کو فوری طور پر بیرونی ملک بھیجا جائے
منگل 14 ستمبر 2021
-
واقعہ کربلا ‘خواتین کی عزم و حوصلے کی لازوال داستان
بدھ 18 اگست 2021
-
ملالہ فیشن میگزین کے سرورق اور عوام کی زبان پر
جمعہ 4 جون 2021
-
کورونا وائرس ‘ مئی کا مہینہ جنوبی ایشیاء کیلئے خطرناک قرار
جمعرات 6 مئی 2021
-
کورونا آگاہی مہم ،آکسیجن ،ویکسین اور فوری طبی انتظامات
ہفتہ 1 مئی 2021
شازیہ انوار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.