عمران خان اور امریکی ڈیبیٹ

ہفتہ 25 اپریل 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

 شروع کرتا ہوں رب جلیل کے نام سے جو بڑا ہی مہربان اور نہایت رحیم ہے۔۔۔
 ہر چارسال کے بعد امریکہ میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں کامیاب ہونے والا امیدوار ملک کا صدر چنا جاتا ہے۔ ان صدارتی الیکشن سے قبل امریکہ میں الیکشن لڑنے والے امیدوار اپنی الیکشن کمپین کے دوران ایک دن ایک ہی وقت میں ایک ہی سٹیج کے دو مختلف کناروں پر کھڑے ہو کر سامنے بڑے ہال میں موجود ملکی اور غیرملکی صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔

اس کو United States Presidential Debates کہا جاتا ہے۔ 
اس سیشن کے پہلے حصے میں وہ دونوں صدارتی امیدوار اپنی اپنی پارٹی کا منشور پیش کرتے ہیں اور آخر میں یہ دونوں صدارتی امیدوار صحافیوں کے تندو تیز سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ اس ڈیبیٹ کا آغاز 1960 ء کے امریکہ کے صدارتی الیکشن سے قبل سابق امریکہ صدر نکسن اور اس وقت کے امریکی سٹیٹ ماساچیوسسٹ کے سنیٹر جان ایف کینیڈی کے درمیان کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس کے بعد اس ڈیبیٹ کا سلسلہ ناگہانی وجوہات کی بنا پر اگلے تین الیکشن یعنی 1964ء،1968ء اور1972ء تک بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1976ء میں امریکی سابق صدر فورڈاور اس وقت کے امریکی سٹیٹ جورجیا کے گورنر اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے درمیان دوبارہ اس صدارتی ڈیبیٹ کا آغاز ہوا اور جوابھی تک جاری ہے۔
 ہر چار سال کے بعد امریکی صدارتی امیدوار سٹیج پر آمنے سامنے ہوتے ہیں اور صحافیوں کے سخت سے سخت سوال کا جواب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس صدارتی ڈیبیٹ کو امریکی ٹی وی کے علاوہ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور اب عرصہ دراز سے سوشل میڈیا پر جوں کا توں نشر کیا جاتا ہے جس سے امریکی عوام اور دنیا بھر کے وہ عوام جو امریکی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں خوب مزے سے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس سوال و جواب اور صدارتی امیدواروں کے منشور کو سن اوردیکھ کر پوری امریکی قوم کو اپنے اپنے امیدوار کو کامیاب کرانے کی ذہنی الجھن سے چھٹکارا ملنے میں بڑی حد تک مدد ملتی ہے۔

دنیا بھر کی دوسری اقوام کی طرح امریکی قوم بھی اسی شش وپنج میں مبتلا دکھائی دیتی ہے کہ ووٹ کس امیدوار کو ڈالا جائے؟ اس ڈیبیٹ کو دیکھنے اور سننے کے بعد وہ لوگ بھی اپنی کوئی رائے قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بحرحال دیکھا جائے تو یہ ایک بہت زبردست، اعلٰی اور اچھی ڈیبیٹ ہوتی ہے جس سے عوام کو بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ جس کو اپنا صدر چننے جا رہے ہیں اور جو اگلے چار سال تک ان کے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے جا رہا ہے، وہ امریکی معیشت، اور دنیا بھر میں قائم امریکی برتری کو ہر معاملے میں قائم بھی رکھ پائے گا یا نہیں۔

 اگر دیکھا جائے تو موجودہ پاکستان کے دور حکومت کے دوران عمران خان گزشتہ حکومتوں کے سربراہوں سے اس لئے بھی بہتر نظر آ رہے ہیں کہ انہوں اب تک متعدد مرتبہ اپنے ملک کے بڑے بڑے صحافیوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے ملکی صورتحال پر ناصرف بحث کی بلکہ ان صحافیوں کے سخت سے سخت سوالوں کے جواب بڑی خندہ پیشانی سے دیئے۔
 موجودہ دور کی عالمی وباء کے نتیجے میں عمران خان نے تقریباً ہر مسئلے پر پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوشش کی کہ ان کے اقدامات سے پاکستانی قوم اورخاص کر غریب عوام کو آسانی مل سکے۔

گزشتہ ادوار میں سیلاب، زلزلہ اور قدرتی آفات کے دوران یا بعد میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے سربراہ میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ صحافیوں کو اس طریقے سے سوالوں کے جواب دے سکے، بلکہ کئی ایک بار دیکھا گیا ہے کہ اس دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے سربراہان آصف زرداری اور نواز شریف نے جب بھی اپنے ہاں چیدہ چیدہ صحافیوں کو مدعو کیا توانہیں انٹرویو سے پہلے ہی ان سے پوچھے جانے والے سوالات کے متعلق بتا دیا جاتا تھا کہ آپ نے کونسے سوال پوچھنے ہیں او رکون سے نہیں۔

اسی لئے بھی مریض اعظم نواز شریف پرچی والی سرکار کے طور پر مشہور ہیں۔
مریض اعلٰی شہباز شریف عجیب نفسیاتی قسم کی حرکات کرتے ہوئے دکھائی دیتے رہے۔ سوال گندم اور جواب چنا کے قسم کے جواب دینے میں ماہر ہیں، طلعت حسین کے ساتھ نواز شریف کا ٹی وی انٹرویو یوٹیوب پر بے شمار مرتبہ کلک ہو چکاہے۔ اور اس انٹرویو کے وہ حصے بھی ہر پاکستانی نے دیکھے ہیں جو نشر نہیں کئے گئے۔

سوال مسلم لیگ ن کے سربراہ سے کئے جا رہے ہیں اور جواب مسلم لیگ ن کے خودساختہ فلاسفر سمجھے جانے والے احسن اقبال کیمرے کے پیچھے سے دے رہے ہیں۔ امریکی صدر براک ابامہ کے سامنے ان کے پرچیاں اکٹھی کر کے پسینے چھوٹتے ہوئے پوری قوم نے دیکھے ہیں، اورموصوف اختتام اس بات پر کرتے ہیں کہ جناب صدر۔۔! پاکستان میں بھنا ہوا قیمہ اور دال آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔

اور دوسرے وہ جو اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے وہ بھی کسی گوشہ نشیں کی طرح پتہ نہیں کہاں اپنی بقیہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حرام ہے کہ قومی دولت کو اپنے ابا جان کا پیسہ سمجھ کر لوٹنے کے بعد اسی دولت میں سے اپنے پاکستانی غریب ووٹروں کیلئے بھی کچھ امداد دے دیں۔کائرہ صاحب کو اعتراض یہی ہے کہ ساری رقم تو پاکستان کی ہے اگر عمران خان غریب عوام میں12000 روپے بانٹ رہا ہے تو کوئی احسان نہیں کر رہا، جناب کائرہ صاحب۔

۔! آپ کا دور حکومت بھی ساری قوم کو یاد ہے، وہ آپ کا بینظیر انکم سپورٹ کا لگائے گئے لارے سے بھی پردہ اٹھ چکا ہے۔ جس میں پاکستان بھر کی سب بڑی بڑی شخصیتوں کو ملنے والے وظیفے کا پول کھل چکا ہے، چھوٹے میاں صاحب نے خود زلزلہ زدگان کیلئے لاکھوں برطانوی پاؤنڈزکی امدادی رقم کھانے کے بعد اپنی دوزخ کی آگ بڑھا لی ہے، جس کا حساب انہیں بہت جلد دینا ہو گا۔

اور تو اور گزشتہ ادوار میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض صاحب بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ بحریہ ٹاؤن کے اوورسیز الاٹیوں کے علاوہ پاکستان میں موجود الاٹی ، انویسٹر ،پراپرٹی ڈیلرزاوربلڈرز حضرات ملک ریاض کے لئے تلاش گمشدہ کا اشتہار چھپوانے کا سوچ رہے ہیں، انہیں بھی چاہئے کہ پہلے قدرتی آفات میں متاثرین کیلئے جیسی امداد وہ کرتے رہے ہیں ویسے ہی کرونا وائرس میں بھی اپنی جیب ڈھیلی کرتے ہوئے وزیراعظم کرونا وائرس فنڈ میں اپنی حیثیت کے مطابق امداد کا اعلان کریں۔

خبر یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے تمام الاٹیوں کو اپنے تمام واجبات ایک ساتھ جمع کرانے کیلئے 20 مئی تک کا وقت دیا ہے، اور واجبات جمع کرانے کے بعد جلد سے جلد ان پر مکان / گھر بنوانے کا نوٹس بھی دیدیا ہے، جو کہ ایک الاٹی کے حصے میں لاکھوں روپوں کی شکل میں آتا ہے ، اور اس لاک ڈاؤن اور ٹھپ کام کاج میں اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے ، انہیں چاہئے کہ وہ اس فیصلے کو ناصرف واپس لیں بلکہ پلاٹ الاٹیوں کی مشکل کو سمجھتے ہوئے آسانیاں پیدا کریں۔

 
اس ساری تحریر لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آج کل تو یہ دونوں تینوں لیڈر اپنے اپنے محل نما مکانوں میں مکین فارغ آئسولیٹ ہوئے ہوئے ہیں، ایک تو لندن جیسے کرونا زدہ علاقے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ زیادہ نہیں تو 2/3 ہی صحافی اپنے پاس بلا کر اپنی گفتگو کو جوں کا توں ہی نشر کر کے دکھا دیں ۔ ان کی خوداعتمادی کا ساری قوم کو پتہ چل جائیگا۔

پوری پاکستانی قوم کی بھی یہی خواہش ہے کہ کوئی نشریاتی ادارہ امریکی صدارتی ڈیبیٹ کی طرز پر ایک ہی سٹیج پر ان تینوں لیڈروں کو عمران خان کے مقابلے میں اکھٹے کھڑا کرے اور اس پروگرام کوملک کے تمام ٹی وی چینلز پر قوم کے سامنے ڈائریکٹ ٹیلی کاسٹ کیا جائے تو ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔اس وبائی بیماری کے باعث پورا ملک پریشان اور بے حال دکھائی دیتا ہے اور یہ اپوزیشن اپنا ہی راگ بے سرے طریقے سے الاپ رہی ہے۔

جس کیس میں میرشکیل الرحمن کو گرفتار کیا گیا تھا وہ کیس تو انشااللہ اپنے انجام کو پہنچ ہی جائیگا اس کے علاوہ بھی کئی اور مختلف نوعیت کے کرپشن کیس بھی اوپن ہو چکے ہیں جو کہ میڈیا ڈان کو ان کی کرپشن کے جال میں جکڑتے چلے جا رہے ہیں، اورصرف جنگ اور جیو ٹی وی کے چند اینکرز نے یہی شور مچا رکھا ہے کہ '' ملکی صحافت خطرے میں ہے'' ۔اللہ کی شان ہے۔

 کرونا وائرس نے پھیلتے پھیلتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، حتٰی کہ امریکہ میں بھی معیشت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، تیل کی قیمتیں ٹکے ٹوکری ہو رہی ہیں اور پاکستانی عوام اس کے خطرنات اثرات پر ابھی تک اپنے Non-series ہونے کا ثبوت جگہ جگہ دے رہے ہیں۔اس صورتحال کے دوران گزشتہ روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی پاکستان میں ایک دوسرے کے پیچھے رمضان کا چاند دیکھا گیا۔

چیئرمین چاندکمیٹی مولانا منیب الرحمن نے باغیانہ انداز میں مساجد میں نماز تراویح اور جمعہ کے اجتماعات کو ایک قاعدے کے تحت کرانے کا مطالبہ کر دیا اور مطالبہ پورا بھی کروا لیا،حالانکہ مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی میں کئی قسم کے خطرات ہیں اور ان خطرات اور اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری مسلم امہ میں اس بات کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے کہ اس مرتبہ عید کی نماز اپنے اپنے گھروں میں ہی ادا کی جائے لیکن مجھے لگتا ہے ابھی تو کافی وقت ہے، اگر حالات ایسے ہی رہے تو عیدالفطر کے آنے تک اس کی بھی پلاننگ علمائے کرام اور مولانا حضرات کچھ نا کچھ کر لیں گے۔

اور یہی علمائے کرام نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ مساجد میں پچاس سال سے زائد عمر کے افراد داخل نا ہوں۔ جبکہ اس اجلاس میں شامل اور یہ فیصلہ کرنے والے تمام مولانا حضرات ساٹھ سال سے اوپر کے تھے۔ اللہ تعالٰی اپنا رحم فرمائے۔
 پاکستانی ہیلتھ ماہرین کی طرف سے اگلے دو ہفتے بہت زیادہ احتیاط کے طور پر گزارنے پر زوردیا جا رہا ہے۔اوپر سے مولانا پوپلزئی پورا سال پتہ نہیں کہاں گم ہو جاتے ہیں، اور سال بھر میں تین مرتبہ رمضان، عیدالفطر اور عید الاضحٰی کے موقع پر اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے نکل آتے ہیں ، پشاور اور اس کے گردونواح میں ایک روزپہلے ہی نماز تراویح اور عیدین کی نمازوں کا اعلان کرنے کے بعد پھر غائب ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح کا سلسلہ یورپ میں بھی ہر سال چلتا ہے، اس مرتبہ بھی انگلینڈ میں زیادہ تر مساجد کے پیش اماموں نے یواے ای اور سعودی عرب کے ساتھ ہی رمضان کا آغاز کر دیا ہے جبکہ کچھ مساجد اگلے روز سے رمضان کا آغاز کر رہی ہیں۔ یقین جانئے اس عمل پر یہاں گورے اور غیرمسلم لوگ خوب ہنستے ہیں اور دبے لفظوں میں مذاق بناتے ہیں جس سے پوری دنیا میں مسلم امہ بدنام ہوتی ہے۔ خدارا منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو اس کا بھی کوئی نا کوئی حل نکالتے ہوئے ازالہ کرنا چاہئے اور پوری دنیا جس سمت کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتی ہے اس سمت کو پوری امت مسلمہ کی سمت قرار دیتے ہوئے پوری دنیا میں ایک ہی روز رمضان، عید الفطر اور حج کے فرائض ادا کرنے کو یقینی بنائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :