
بازگشت اسلامی صدارتی نظام
ہفتہ 16 مئی 2020

سید عباس انور
کرونا وائرس کے باعث پوری دنیا کی طرح پاکستان پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کے باعث دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ پورے ملک کی معیشت ، تعلیم، اور صحت قابل زکر حد تک متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے باعث سیاسی ، سماجی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں ہیں۔یہ وائرس ہے کہ پوری دنیا کے کسی بھی ملک کی پکڑ میں نہیں آ رہا اور کئی ایک ممالک میں تو اپنی پکڑ پہلے سے مضبوط کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی تک امریکہ سرفہرست ہے اور برطانیہ میں اس کے اثرات بڑھتے بڑھتے امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں اس قدر بے احتیاطی کے باوجود ابھی تک اس کے وہ نتائج سامنے نہیں آ سکے جس کا اندازہ چند ہفتے پہلے لگایا جا رہا تھا۔
(جاری ہے)
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر ملک میں پہلے ایک عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کرا دیا جائے جس میں عوام سے یہ رائے لی جائے کہ موجودہ پارلیمانی نظام جیسے چل رہا ہے ویسے ہی چلتا رہے یا پھر صدارتی نظام رائج کیا جائے؟ جیسے ترکی کے صدر نے کچھ عرصہ قبل اپنے ملک میں چند فوجی باغیوں کی جانب سے ہونیوالی بغاوت کے نتیجہ میں ریفرنڈم کرانے کے بعد صدارتی نظام رائج کیا تھا۔ پاکستان کے کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان اسلامی صدارتی نظام پر ہی بہتر چلایا جا سکے گا کیونکہ پاکستان میں فیوڈل ازم کے نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔لیکن افسوس کہ قائداعظم کو قدرت نے زیادہ مہلت نہ دی وہ بہت جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔جس کے بعد پاکستان آج تک کسی بھی مخلص لیڈر کے ہاتھوں میں نہ آیا ۔ اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو بھی پاکستان سے ایک دن بعد آزادی ملی لیکن بھارت نے آزادی ملنے کے فواً بعد اپنے ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا، لیکن اس جاگیرداری نظام کا پاکستان میں خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا، ہر جاگیردارپاکستان کے سیاسی پارلیمانی نظام میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہوئے اسے اپنے ابا جان کا مال سمجھ کر لوٹا، وہ نہیں چاہتے کہ ہماری جاگیرمیں کام کرنے والے غریب ہاریوں کا بیٹا، بھائی یا رشتہ دار پڑھ لکھ جائے اور اس کے بعد وہ اسی کے مقابلے میں الیکشن لڑکر اسی کے سامنے آ کھڑا ہو۔ پوری پاکستان کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک سیاست دان آئے جنہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ کو ثواب سمجھ کر کھینچا۔ 1954ء میں ملک کا پہلا منشور ڈرافٹ بنایا گیا، اور بہت جلد اسے منسوخ کر دیا گیا، 1956ء میں دوبارہ منشور ڈرافٹ کیاگیا، 1958ء میں سکندر مرزا نے پہلا مارشل لاء لگایا اور اسی کے تحت فیلڈ مارشل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگا دیا گیا، تھوڑے ہی عرصے بعد صدر پاکستان سکندر مرزا بیماری کے باعث مستقل طور پر لندن بھیج دیئے گئے، ان کے پیچھے فیلڈ مارشل ایوب خان نے صدر و مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی۔ ایوب خان کے خیال میں ملک صدارتی نظام کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا پارلیمانی نظام ہی پاکستان کیلئے بہتر ہے۔ اس دور میں قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ نے ایوب خان کی مخالفت کی اور انہوں نے اسی پر زور دیا کہ پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام ہی پاکستان میں نافذ ہونا چاہئے۔ اس دور میں الیکشن میں ایوب خان ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے اور 1970ء میں جنرل یحیٰی خان نے ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء لگاتے ہوئے ایوب خان کو گھر بھیج دیا۔ جنرل یحیٰی خان پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے۔ جنرل یحیٰی نے دوبارہ الیکشن کروائے جس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نئے صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر چن لئے گئے۔ ان الیکشن میں پاکستان کو ایک نقصان یہ اٹھانا پڑا کہ مغربی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشہ میں وجود میں آ گیا۔ اس کے بعد 1977ء میں بھٹو کی حکومت جنرل ضیاء الحق نے ختم کی اور خود جنرل ضیاء الحق صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 1985ء میں عوامی احتجاج کے باعث انہوں نے غیرجماعتی بنیادوں پر الیکشن تو کرایا لیکن اس کے نتیجہ میں بننے والی محمد خان جونیجو کی حکومت بھی زیادہ نہ چل سکی اور اسے بھی جنرل ضیاء الحق نے گھر بھیج دیا۔ اور وہیں سے صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام جاری رکھا۔ 1988ء میں جہاز کے حادثے میں ہلاکت کے بعد دوبارہ الیکشن کروائے گئے جس کے نتائج یہ نکلے کہ بے نظیر بھٹو پاکستان اور امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر چن لی گئیں۔ اس کے بعد پاکستان میں نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو اور پھر نوازشریف حکومتوں کی باری کا دور شروع ہوا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو گھر بھیجا اور خود صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ جنرل پرویز مشرف کا دور 2008ء تک چلا اور وہ اپنی وردی اتارنے کے بعد فارغ ہو گئے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ اور اس کے بعد ہونیوالے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور صدر کے عہدہ پر آصف علی زرداری تعینات ہوئے۔ انہوں نے اپنی مدت پوری کی اور 2013ء میں ملکی الیکشن میں ن لیگ نوازشریف نے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور آئین میں ترمیم کرتے ہوئے تیسری بار وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے، اس بار بھی وزیراعظم نواز شریف کو حکومت راس نہ آئی اور پانامہ، منی لانڈرنگ اور کئی دوسرے کرپشن کیس میں ملوث ہونے کے بعد وہ تاحیات نااہل قرار پا گئے۔ اس کے بعد آتا ہے موجودہ تحریک انصاف کا دور جس نے 2018ء کے الیکشن میں کامیابی تو حاصل کر لی لیکن واضح اکثریت حاصل نا کر سکی پھر بھی آزاد اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، جو ابھی تک جاری ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک اسی طرح کی غیراطمینانی صورتحال کے باعث پاکستان ابھی تک سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہو سکا۔ اس کا آج کے دور میں واحد حل اسلامی صدارتی نظام کا رائج ہونا ہے۔ اس نظام کو رائج کرنے میں بہت سی حائل رکاوٹوں کو دور کرنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔اسلامی صدارتی نظام کے انعقاد کی صورت میں ایم این اے اور ایم پی اے کی اجارہ داری اور حیثیت ختم ہو جائیگی اور اس کا انتخاب کلی طور پر ملک کا صدر کر سکے گا، اسمبلیاں تو ہونگی لیکن ان کا انتخاب اچھی اور ایماندارانہ شہرت کے حامل افراد پر مشتمل ہو گا۔ اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر وہ صرف ملکی صدر پر نظر رکھیں گے کہ وہ کوئی غلط کام نہ کرنے پائے، صدر ہی مختار کل ہو گا۔ امید ہے کہ اس مکمل اختیاراتی صدارتی نظام کے رائج ہونے کے بعد اور عمران خان جیسے کرپشن پروف اور ایماندار محب وطن کی قیادت میں ملک بھرپور ترقی کرے گا۔ انشااللہ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.