پاکستانی سیاست میں غداروں کی کثرت

منگل 6 اکتوبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پچھلے ہفتے اپنا پاکستان کا وزٹ مکمل کرنے کے بعد واپس یو کے پہنچ چکا ہوں، یوکے کی ٹھنڈی ہواؤں نے استقبال کیا۔ لیکن جب بھی پاکستان کا دورہ کر کے واپس یہاں آنے پر تقریباً دو ہفتے دوبارہ ایڈجسٹ ہونے میں لگ جاتے ہیں، اپنا ملک اپنی ان گنت خامیوں کے باوجود بہت یاد آتا ہے، اپنے قریبی رشتہ دار، دوست احباب اور ان سے ملنے والی بے لوث محبت بہت یاد آتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود 95 فیصد وہ لوگ بھی بہت یاد آتے ہیں جو ناصرف پاکستان سے باہر سے آئے اپنے کاموں کیلئے لوگوں بلکہ مقامی باشندوں کیلئے بھی تیزکی ہوئی چھری سے منتظر نظر آتے ہیں ، جن کی مدد سے انہیں جو بھی بکرا بے وقوف بنانے کیلئے ملتا ہے اسے وہ بغیر کوئی لمحہ ضائع کے حلال کرنے کیلئے تیار بیٹھے نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

جھوٹ، دھوکہ ، فریب اور رنگ بازی کرنے میں ہماری قوم ایک دوسرے سے بڑھ کر اور ہر آنے والے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

لاہور کے کسی بھی علاقے میں دو منٹ کیلئے بھی کہیں بھی کھڑے ہو جائیں، گداگر اور پروفیشنل بھکاری آپ کے اردگرد ایسے اکٹھے ہو جاتے ہیں جیسے میٹھے پر چونٹیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں، ہر ٹریفک سگنل پر اب تو خواجہ سراؤں کے پورے گینگ بھیک مانگنے پر مامور نظر آتے ہیں۔مبینہ طور پر کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ کئی نوجوان لڑکے بھی اپنے چہرے کو میک اپ کی مدد سے سجا کر اور لیڈیز کپڑوں میں ملبوس ہو کر ہر مصروف شاہراہ کے ٹریفک سگنل پر صرف اس لئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کہ ان کے پاس روز گار نہیں ، اور وہ اسی بھیک مانگنے کے طریقے کو اپناتے ہوئے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔

اور جو زرا جرات مند اور بہادر ہوتے ہیں وہ سٹریٹ کرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں، جن کو علاقے کی پولیس کا بھرپور آشیرباد حاصل ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی جائز کام کے سلسلے میں متعلقہ دفتر میں دفتری اہلکاروں کی مٹھی گرم کئے بغیر اپنا کام نہیں نکلوا سکتے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کام کا ریٹ اس کام کی نوعیت کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے اور سرعام سائل کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔

ملک بھر کے سیاست دان جو حکومت مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے اپنے تئیں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اوربرسراقتدار حکومت پارٹی کے سیاست دان حسب سابق اپنی پارٹی کو ڈیفنڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ نظر نہیں آتا تو یہ ایک جذبہ نظر نہیں آتا کہ اپنے ملک کی ترقی کیلئے کچھ سوچا جائے۔ کرپشن کا بازار گرم کرنے والے گندے انڈوں کو کسی قسم کی قرار واقعی سزا دینے پر عملدآمد کرایا جائے جس سے ایسے عناصر کو کوئی عبرت حاصل ہو۔


 ادھر لندن میں پاکستانی حکومت اورپاکستاان عدالت عالیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہونے والے قومی مجرم جعلی مریض اعظم نواز شریف کی حالیہ آن لائن تقریروں کے تناظر میں آج کے دن تک سوشل میڈیا پر بہت زیادہ لے دے ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پریوتھیئے طرح طرح کے فقرے اور الزامات کے انبار لگا رہے ہیں۔ جن کو پڑھ اور سن کر سوشل میڈیا کے مختلف پیجز پر طنزو مزاح کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔

کسی جگہ ایک جملہ پڑھنے کو ملا کہ'' نواز شریف نے کوشش کی کہ وہ اس طرح کی تقاریر کرنے سے نیلسن مینڈلا بن جائیں گے لیکن وہ تواپنے آپ کو الطاف حسین سے بھی نیچے گرا بیٹھے اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مار بیٹھے ہیں'' ۔انہوں نے ماضی میں بھی ایسے ملک دشمن بیانات دے کر کوئی اچھا نام نہیں کمایا ، ماضی میں بھی انہوں نے اپنے ایک بیان میں قومی راز فاش کیا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود ہے۔

جبکہ کچھ سیاسی مصالحت کے باعث اس راز کو دنیابھر سے چھپایا گیا تھا تھا ۔ لیکن اس بے عقل ن لیگ کے سربراہ نے اپنی حکومت کے ختم ہوتے ہی دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے بعد ممبئی حملوں کا ڈائریکٹ تعلق پاکستان سے جوڑنے والا بیان بھی انہی کے حصہ میں جاتا ہے۔ کارگل کے اوپر بھی انڈیا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے انہوں نے انڈیا کی کمر میں چھرا گھونپنے اور بگوان اور اللہ کو ماننے والا بیان بھی پاکستانی عوام کو خوب اچھی طرح یاد ہے۔

لیکن بس ہماری عوام بادشاہ قوم ہے، کچھ ہی عرصہ میں یہ سب کچھ بھول جاتی ہے ۔ مبینہ طور پر تازہ ترین اطاعات کے مطابق موصوف نے لندن میں انڈین ملٹری اتاشی سے بھی ملاقات کر ڈالی ہے ، اب پتہ نہیں ان ماضی کے اور موجودہ پاکستان آرمی کے خلاف تقاریر کرنے میں وہ انڈیا کے ایجنڈے پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں یا اپنا مال بچانے کے چکر میں ہیں۔

لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اب مسلم لیگ ن اور اس کے حواریوں کا برا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔اور اگر مجرم اعظم پاکستان نواز شریف یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان کی باشعور عوام ایک بار پھر سے بے وقوف بن جائیگی تو یہ ان کی بھول ہے۔
کوا چلا ہنس کی چال لنگڑا کے تھوڑا تھوڑا
گدھے نے بھی کوشش کی کہ وہ بھی بن جائے گھوڑا
 پاکستان دشمنی میں اور اپنی ناجائزکمائی کے پیسے کو بچانے کیلئے اس حدتک گزر گئے ہیں کہ جس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وہ اول فول بک رہے ہیں وہ خود بھی اسی فوج کی ہی پیداوار ہیں، اسی فوج کے سہارے وہ اس مقام پر پہنچتے ہوئے تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم چنے گئے، وہ علیحدہ بات ہے کہ وہ فوج سے اپنے تعلقات کوکبھی بھی بہتر نا کر سکے اور اپنی مدت وزارت کبھی بھی پوری نہ کر سکے، اور اس فوج کو ہی اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر انہیں اپنا غلام بنانے اور اس کو اپنی من مانی خواہش کے مطابق چلانے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہوئے۔

اس وقت اپوزیشن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کی تیاری اور اس سلسلے میں سازشی میٹنگز کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔انہی سازشی اجلاسوں کا نام اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا ہے ، اور اوپر سے اس پاکستان مخالف سازشی ٹولے کا سربراہ مولانا فضل الرحمان )ڈیزل( بنا دیا گیا ہے، جو کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے پچھلے ادوار حکومت میں پاکستانی عوام کے ٹیکس کے پیسوں میں سے چارکروڑ روپے کی لسی اور حلوہ کھا چکے ہیں ۔

ان کو پی ڈی ایم کا صدر بنائے جانے میں نوازشریف کا سب سے بڑا ہاتھ ہے، اس فیصلے سے پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ناخوش دکھائی دے رہی ہے، اور آنے والے وقت میں اس کے منفی اثرات پورے پاکستانی عوام کے سامنے آئیں گے۔اسی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت زرا سا بھی پریشانی کا شکا ر نظر نہیں آتی کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو معلوم ہے کہ ان چوروں اور لٹیرے سیاست دانوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ ان پر بنائے گئے نیب کرپشن کیسز کو ختم کر دیا جائے، اور ان سب کو نیب کی جانب سے این آر او مل جائے جس کے شکنجے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ اب مولانا ڈیزل بھی پھنستے دکھائی دے رہے ہیں۔

نوازشریف کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی تقاریر میں ان کی خواہش پر پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کے کارکنوں بھی انتشار کا شکار دیکھاجا سکتا ہے کیونکہ نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اپوزیشن میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں سے استعفے دلوائیں اور حکومت کو گھر بھیجیں۔لیکن وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے حالیہ انٹرویو میں بڑے صاف لفظوں میں یہ کہہ کر مریض اعظم نوازشریف کی خواہش کو پھیکا کر دیا ہے کہ اپوزیشن کے ایم این ایز اور ایم پی ایز استعفے پیش کریں تو ہم جلد از جلد ان کی سیٹوں پر ضمنی الیکشن کرا دیں گے۔

اس کے بعد امکان غالب ہے کہ پیپلز پارٹی کی جو ایک صوبہ سندھ میں حکومت ہے ، وہ بھی پیپلز پارٹی سے چھن جائیگی، لہٰذا نوازشریف کا یہ مطالبہ یا خواہش کو سرے سے ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیاہے۔ اوپر سے مولانا فضل الرحمان ) ڈیزل( کے باغیانہ بیانات سے فوج بھی حرکت میں آتی دکھائی دے رہی ہے اور قوی امید ہے کہ مولانا کا سوفٹ ویئر بہت جلدآئی ایس آئی یا فوج ہی تبدیل یا اپ گریڈ کریگی بلکہ میرا خیال ہے کہ اب بہت ہو گیا ان کا سوفٹ ویئر سرے سے ڈیلیٹ ہی کر دینا چاہئے۔

کرپشن اور ناجائز بنائی گئی جائیدادوں کے تناظر میں مولانا سے بھی پوچھ گچھ شروع ہوا چاہتی ہے۔اس کے نتیجے میں آنے والے وقت میں پاکستانی کرپٹ سیاست دانوں پر بہت کڑا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔مبینہ طور پر ایک اور تازہ خبر کے مطابق مسلم لیگ کی رہنماء اور نواز شریف کی صاحب زادی مریم صفدر کے شوہر نامدار صفدر اعوا ن پر بھی گوجرانوالہ میں پاکستان دشمن تقریر کرنے پر غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا اور ان کی گرفتاری کیلئے پولیس نے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔

ہر محب وطن پاکستانی کی یہی خواہش ہے کہ اس شروع ہونیوالے کڑے وقت کے دائرے میں صرف اپوزیشن پارٹیوں کے کرپٹ لیڈروں کو ہی شامل نا کیا جائے بلکہ حکومت وقت میں شامل برسراقتدار لیڈروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ملک دشمنی اور کرپشن میں ملوث ہونے پر قرار واقعی سزا دی جائے۔
 مریض اعلٰی شہباز شریف کی گرفتاری پر گزشتہ روز ہونیوالی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے لوہے کے چنے خواجہ سعد رفیق نے ایک مرتبہ پھر سے ملک میں صوبائی لسانیت کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہوئے پنجاب کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور کہا کہ شہباز شریف کو گرفتار کر کے حکومت نے پنجاب کی عزت کو ہاتھ ڈالاہے۔

بھلا اس ذہنی مریض سے کوئی پوچھے اس میں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کا کیا تعلق ہے۔ اب اگر کوئی ملزم یا مجرم کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس بنیاد پر ہاتھ نا ڈالا جائے کہ اس کا تعلق سندھ یا کسی اور صوبے سے ہے۔ ورنہ یہ سندھ کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ ان عقل کے اندھے پٹواریوں کو یہ بات بالکل سمجھ نہیں آتی کہ جب ان کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی شروع ہوا چاہتی ہے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوتا ہوا نظرآ جاتا ہے اور جب کسی بھی طرح کوئی بات نا بنے تو اپنے مخالف کی کردار کشی کے بعد اگلہ مرحلہ جسے یہ سب اپنانے کیلئے کسی حد تک بھی گرنے کو تیار رہتے ہیں وہ ہے صوبائی لسانیت کو ہوا دینا، یعنی اندھیرے میں تیر چلانے کی ہر کوشش کرتے ہیں کہ کوئی تو تیر اپنے نشانے پر لگے۔

اس ریلی اور مریم نواز کے بار بار حکومت اور عمران خان پر تنقید کے نتیجے میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی ایک پریس کانفرنس میں مریم نواز کو اپنی آخری وارننگ جاری کر دی ہے کہ اب اگر مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے باز نہ آئیں تو وہ بھی ان کا جواب ایسے سخت الفاظ میں دیں گے کہ پورے پاکستان میں سیاسی زلزلہ آ جائیگا اوراس لئے وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک دشمن بیانات سے باز رہیں ورنہ وہ اپنے جواب میں ایسے ایسے رازوں سے پردہ ثبوتوں کے ساتھ اٹھائیں گے کہ ان سب کو غدار پاکستان ڈکلیئر کرنے میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔


 اللہ جل شانہ کے حضور میری اور میرے جیسے لاتعداد محب وطن پاکستانیوں کی یہی دعاہے کہ ان جیسے لٹیروں، غداروں اور قومی و پاکستان آرمی کے دشمنوں کو قدرتی طور پر بے نقاب ، ذلیل و رسوا کر دے اور جوکہ چندایک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اور موجودہ حکومت کیلئے بھی ایسی ہی دعا ہے انہیں اللہ صراط مسقیم پر چلاتے ہوئے کرپشن اور ملک دشمنی میں ملوث افراد کو عبرت ناک سزائیں دینے کی جرات اور حوصلہ دے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :