سابق دور میں بلاوجہ 16کروڑ کے اشتہارات شائع کرائے گئے ، اے پی این ایس نے عدم ادائیگی پر محکمہ ڈاک کو بلیک لسٹ کردیا، کیس نیب میں چل رہاہے،مواصلات کمیٹی میں انکشاف،چاروں صوبوں کے پاس پاکستان پوسٹ کے بقایاجات، گزشتہ پانچ سال میں بھرتی کی گئی افرادی قوت کی تفصیلات طلب ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے بھی ملک بھر کے مکمل، جاری اور آمدہ منصوبوں کی تفصیلات مانگ لیں،پاکستان پوسٹ کے افسران کا عام انتخابات میں کوتاہیوں کا اعتراف کرلیاآئندہ غلطیاں نہ کرنے کی یقین دہانی

بدھ 19 فروری 2014 03:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات میں پاکستان پوسٹ نے انکشاف کیاہے کہ سابق دور میں بلاوجہ 16کروڑ کے اشتہارات شائع کرائے گئے جس پر اے پی این ایس نے عدم ادائیگی پر محکمہ ڈاک کو بلیک لسٹ کردیاہے، کیس نیب میں چل رہاہے، پرائیویٹ سیکٹر سے انتہائی کم نرخ پررقم منتقلی کا کام کررہے ہیں ،اب اشتہارات کیلئے ایک پائی نہیں، آگاہی مہم نہیں چلائی جاسکتی ،50فیصد ڈاکخانے خسارے میں جارہے ہیں، ملک میں 38 جی پی اوز ہیں جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے موقف کااختیار کیاہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث منصوبے مکمل نہیں ہورہے ، وقت گزرنے کے ساتھ پراجیکٹ کی لاگت میں اضافہ ہورہاہے، کمیٹی نے چاروں صوبوں کے پاس پاکستان پوسٹ کے بقایاجات، گزشتہ پانچ سال میں بھرتی کی گئی افرادی قوت کی تفصیلات طلب کرلیں، نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے بھی ملک بھر کے مکمل، جاری اور آمدہ منصوبوں کی تفصیلات مانگ لیں، کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پوسٹ کے افسران نے عام انتخابات میں کوتاہیوں کا اعتراف کرلیاآئندہ غلطیاں نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین سفیان یوسف کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی، وزارت مواصلات ، پاکستان پوسٹ ، این ایچ اے کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں پاکستان پوسٹ کی تفصیلی بریفنگ ، ایم نائن کی کارکردگی سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لیاگیا۔ پاکستان پوسٹ کے ڈائریکٹر جنرل مشال خان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں کل 38 جی پی اوز جبکہ 11ہزار 952پوسٹ آفسز ہیں پوسٹ آفس کے کل ملازمین کی تعداد 5لاکھ 46ہزار 962 ہے جبکہ کل آفیسرز654 ہیں جن میں ایک گریڈ بائیس اور باقی تمام آفیسرز گریڈ 16سے 21 کے ہیں۔

پوسٹ آفس کے ذریعے 14لاکھ 14ہزار فوجی پنشنرز کو پنشن ادا کی جاتی ہے ۔ پاکستان پوسٹ کے زیر اہتمام پنجاب میں 7040 ، خیبرپختونخواہ میں 2129،سندھ میں1689، بلوچستان میں454 اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر میں 723 ڈاکخانہ جات ہیں۔ اراکین کے سوالوں کے جواب میں ڈی جی ڈاکخانہ جات نے بتایاکہ پوسٹ آفسز کی دو کیٹیگریاں ہیں ایک مستقل اور دوسرے عارضی جو سکولز میں قائم کئے جاتے ہیں یا مختلف دکانداروں سے خدمات لی جاتی ہیں اور ایسے ڈاکخانے صرف دیہی علاقوں خصوصاً قبائلی علاقہ جات میں ہیں ۔

انہوں نے مزید بتایاکہ غیرضروری پوسٹ بکس کو اٹھالیاگیاہے اور وہاں پر اب صرف پوسٹ بکس ہیں جہاں زیادہ تر خطوط ارسال کئے جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان پوسٹ کی ساری رقوم قومی خزانے میں جمع ہوتی ہیں اور ہمیں بجٹ کے ذریعے فنڈز دیئے جاتے ہیں اور وہ فنڈز صرف اس حد تک ہوتے ہیں کہ پاکستان پوسٹ گزارہ کرسکتاہے۔ انہوں نے مزید بتایاکہ سابق حکومت سے بھی سفارش کی تھی کہ یونین کونسل کی سطح تک پوسٹ آفسز کو کھولا جائے تاکہ کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکے کیونکہ پرائیویٹ کورئیر سروسز کے باعث نقصان ہورہاہے پچاس فیصد پوسٹ آفسز خسارے میں جارہے ہیں۔

اس موقع پر اراکین نے اعتراض کیا کہ پاکستان پوسٹ نے عا م انتخابات میں کچھ جگہوں پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن زیادہ تر شکایات بھی موصول ہوئی ہیں بیلٹ پیپرز امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ کو پہنچادیئے گئے، بیلٹ پیپرز وقت پر پولنگ سٹیشنز تک نہیں پہنچے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں گھپلے ہوئے اس لئے پاکستان پوسٹ کی مانیٹرنگ کا نظام بہتر بنایا جائے اس موقع پر چیئرمین نے کہاکہ اس سلسلے میں اگر کمیٹی کی ضرورت ہے اور قانون سازی کرنا ہے توقانون سقم دور کرنے کیلئے تعاون کرسکتے ہیں اور شکایات کا ازالہ کیا جائے جس پر ڈی جی پوسٹ نے کہاکہ سابق غلطیوں سے سبق سیکھیں گے ۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ غلطیاں ضرور سرزد ہوئی ہیں مگر آئندہ کیلئے بہتر اقدام اٹھائینگے۔ پاکستان پوسٹ کے ایک سینئر افسر افضل ستار خان نے کمیٹی کو بتایاکہ الیکٹرانک منی ٹرانسفر کی سہولت تمام شہروں میں موجود ہے اور پرائیویٹ ایزی پیسہ سکیم سے انتہائی کم ریٹس پر فوراً رقم کی منتقلی ہوجاتی ہے 2000 ہزار روپے پر صرف 50روپے اور یکمشت 1لاکھ روپے بھجوانے پر صرف 600روپے وصولی کی جاتی ہے جوکہ پرائیویٹ سیکٹر سے انتہائی کم ہے جس پر کمیٹی نے اعتراض کیا کہ اس سلسلے میں عوام کو علم نہیں آگاہی مہم چلائی جائے کیونکہ ایزی پیسہ سکیم کے حوالے سے پرائیویٹ سیکٹر بہت کام کررہاہے جس پر افضل ستار نے انکشاف کیا کہ پاکستان پوسٹ کے پاس فنڈز نہیں ہیں جبکہ سابق حکومت میں وزارت کے لیول پر بغیر کسی 16کروڑ روپے کے اشتہارات شائع کروادیئے گئے جس کی رقم بھی ادا نہیں کی گئی جس پر اے پی این ایس نے ہمیں بلیک لسٹ کردیاہے اس معاملے کا کیس بھی نیب میں چل رہاہے اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری اورنگزیب حق نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک اور معاملہ ہے جس پر بعد میں تفصیلی بات کی جاسکتی ہے جس پر اراکین نے مطالبہ کیا کہ بتایا جائے کہ نیب میں کیس چل رہاہے یا نہیں جس پر بتایا گیا کہ یہ کیس نیب میں ہے ۔

پاکستان پوسٹ کے افسرا ن نے بتایا کہ فنڈز کی کمی کے باعث اشتہارات شائع نہیں کراسکتے جبکہ اب اشتہارات پر پابندی بھی عائد ہے تو خبر کی صورت میں اپنی ایڈورٹائزمنٹ کرتے ہیں۔ میل آپریشن، پنشن، منی چارجز اور اشٹام پیپرز پر تفصیلات بتائیں اس موقع پر انہوں نے کمیٹی کو بتایاکہ اشٹام کی مد میں صرف 12فیصد چارجز وصول کرتے ہیں وہ بھی صوبائی حکومتیں وقت پر ادا نہیں کرتیں جس کی وجہ سے خسارہ ہوتاہے جس پر کمیٹی نے استفسار کیا کہ کچہریوں کے باہر بھاری رقوم میں اشٹام فروخت ہوتے ہیں جبکہ آج تک ڈاکخانہ سے اشٹام نہیں مل سکا جس پر حکام نے بتایاکہ ہمیں اشٹام پیپرز چھپائی کا اختیارہے ہم فروخت نہیں کرسکتے اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ٹریژی کا اختیار ہے البتہ اگر ہمیں صوبو ں کی جانب سے روکے گئے فنڈز مل جائیں تو خسارے سے نکل سکتے ہیں جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تمام صوبوں کے بقایاجات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

اجلاس کوبتایا گیا کہ پاکستان پوسٹ کے پاس کل 450 گاڑیاں ہیں جوکہ کم ہیں جس کے باعث ڈائیوبس سروس کی خدمات بھی حاصل کررہے ہیں انہوں نے بتایاکہ ٹی سی ایس اس لئے زیادہ متحرک ہے کہ اسلام آباد میں اس کے پاس 300 جبکہ ہمارے پاس صرف 18کوریئر مین ہیں افرادی قوت کا گھاٹاہے ۔ اس موقع پر کمیٹی اراکین نے استفسار کیا کہ بتایا جائے گزشتہ پانچ سال میں پاکستان پوسٹ میں کتنے افراد بھرتی کئے گئے جبکہ اطلاعات کے مطابق زیادہ تر ملازمین بغیر میرٹ کے اور بلاوجہ بھرتی کئے گئے ہیں۔

کمیٹی کو مزید بتایاگیا کہ اس وقت پوسٹل انشورنس سروس اچھی جارہی ہے اور چار لاکھ سے زائد افراد کی لائف انشورنس کی گئی ہے۔ کمیٹی اجلاس میں مختلف اوقات میں1949ء سے لے کر2005ء تک جاری کئے گئے قائد اعظم  اور علامہ اقبال کے ڈاک ٹکٹس کی تفصیلات بھی ایک بک لٹ کی صورت میں پیش کردی گئیں جسے کمیٹی نے سراہا۔ کمیٹی کو مزید بتایاگیا کہ پوسٹل سٹاف کالج کے تحت اب تک 69 ملکوں کے 679 اور پاکستانی 3ہزار 953 پوسٹل افسران کو ٹریننگ دی جاچکی ہے اور اب کالج کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایران، ترکی اور افغانستان کے ساتھ بھی لنک کیا جائیگا۔

کمیٹی اجلاس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مختلف پراجیکٹ کا بھی جائزہ لیاگیا۔ کمیٹی اجلاس کے دوران این ایچ اے حکام نے بتایاکہ قاضی امیر برج انڈس ہائی وے پر فنڈز کی کمی کے باعث کام رکاہواہے لواری ٹنل کا کا م بھی اسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔ ایڈیشل سیکرٹری مواصلات اورنگزیب حق نے بتایاکہ جب وقت پر فنڈز کا اجراء نہ ہو تو وہی منصوبہ زیادہ منہگا پڑجاتاہے۔

لاڑکانہ موہنجودوڑو شاہراہ پر بھی کام ہورہاہے صادق آباد سے سکھر تک شاہراہ پر بھی کام جاری ہے جس پر چیئرمین سفیان یوسف نے کہاکہ دوسال قبل جب صادق آباد سے سکھر جانا ہوا تو وہاں سڑک نام کی کوئی چیز نہیں تھی صرف کچا راستہ تھا اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری نے عذر پیش کیا کہ بارشوں کی وجہ سے نقصان ہوتاہے جس پر ایک رکن کمیٹی نے کہاکہ ہم تو چاہتے ہیں بارشیں ہوں مگر وہاں تو بارش کا قطرہ بھی نہیں ہوا۔

ایم نائن کراچی سے حیدر آباد جوکہ 134کلومیٹر شاہراہ ہے پر بریفنگ دیتے ہوئے حکام نے بتایاکہ تین کمپنیوں ایف ڈبلیو او، این ایل سی اور ترکش نے بولی لگائی ہے امیدہے اس پر جلد کام شروع ہوجائیگا کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پورے ملک میں این ایچ اے کے جاری ، مکمل اور آنیوالے منصوبوں کی تفصیلات مانگ لیں۔