سندھ کے بجٹ میں کوئی خسارہ ہے نہ ہی مالی بحران ہے، قائم علی شاہ،ہم اپنے احتساب کے لیے ہر وقت تیار ہیں،بلدیاتی انتخابات کے التواء کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ حلقہ بندیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے رجوع کرنے والے ہیں ، سپریم کورٹ جب حکم دے گی بلدیاتی انتخابات کرادیں گے ،سندھ اسمبلی میں تحریک التواء پر بیان

بدھ 19 فروری 2014 03:13

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء ) وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے بجٹ میں کوئی خسارہ نہیں ہے اور نہ ہی مالی بحران ہے ۔ 185 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام ( اے ڈی پی ) میں سے اب تک ہم 83 ارب روپے جاری کرچکے ہیں ۔ ہم اپنے احتساب کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات کے التواء کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ حلقہ بندیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے رجوع کرنے والے ہیں ۔

سپریم کورٹ جب حکم دے گی ، ہم بلدیاتی انتخابات کرادیں گے ۔ وہ منگل کو سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کی خاتون رکن ہیر اسماعیل سوہو کی تحریک التواء پر بیان دے رہے تھے ۔ تحریک التواء میں کہا گیا کہ حکومت سندھ کا مالیاتی خسارہ 66ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ مالی بحران کی وجہ سے ترقیاتی اسکیمیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں ۔

(جاری ہے)

تحریک التواء پر بحث کے دوران متعدد ارکان نے اپنے علاقوں کو نظر انداز کرنے اور ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز جاری نہ ہونے کی شکایات کیں ۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ بجٹ میں کوئی خسارہ نہیں ہے ۔ خسارے یا اضافی بجٹ کا فیصلہ جون میں ہو گا ۔ 185 ارب روپے کے اے ڈی پی میں سے اب تک 83 ارب روپے جاری کئے جا چکے ہیں ۔ ان میں سے 70 ارب روپے خرچ بھی ہو چکے ہیں ۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے منصوبوں پر زیادہ اخراجات ہوئے ہیں ۔ پورے صوبے کی سڑکوں کے لیے 60 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ اب تک سندھ کے ہر ضلع میں ایک ارب روپے سے زیادہ ترقیاتی اسکیموں پر خرچ ہو چکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے زیادہ ترجیح جاری ترقیاتی اسکیموں کو دی ہے ، جو آٹھ دس سال سے چل رہی تھیں ۔ ہم نے اب تک ایسی 131 اسکیمیں مکمل کی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے پہلے ترقیاتی بجٹ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں جاری ہوتا تھا لیکن ہماری حکومت ایک چوتھائی ترقیاتی بجٹ اگست میں ہی جاری کردیتی ہے ۔ اب ہم تیسری اور چوتھی قسط جاری کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمارے دور میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے ۔

صرف تعلیم کے شعبے میں ہم نے 9 نئی یونیورسٹیز قائم کی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے یا غیر ملکی ادارے سندھ کو قرضہ یا امداد دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یو ایس ایڈ تعلیم کے شعبے کے لیے 155 ارب روپے فراہم کررہا ہے جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے آبپاشی کے لیے 406 ملین ڈالرز فراہم کئے ہیں ۔ اگر سندھ حکومت کے کاموں کو دیکھنا ہے تو جیکب آباد اور کندھ کوٹ جیسے دور دراز کے علاقوں میں بھی جا کر دیکھا جا سکتا ہے ، جہاں سیلاب اور بارشوں نے تباہی مچادی تھی ۔

آج وہاں سارا انفرا اسٹرکچر بحال کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے پہلے اے ڈی پی صرف پچیس ارب روپے تھا ، ہم نے اسے 185 ارب روپے تک پہنچا دیا ہے ۔ ہم اپنے احتساب کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔ ہم بتا سکتے ہیں کہ کتنا بجٹ خرچ ہوا اور کہاں خرچ ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات ہم نے ملتوی نہیں کرائے ۔ یہ ان لوگوں نے ملتوی کرائے ، جنہوں نے حلقہ بندیوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے ۔

سپریم کورٹ ہمیں جب بھی کہے گی ، ہم بلدیاتی انتخابات کرادیں گے ۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اور انتخابات پر یقین رکھتے ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات بھی عام انتخابات کی طرح اہم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ میرپور خاص کو ترقیاتی کاموں میں نظرانداز کیا گیا ہے ۔ سیلاب کے زمانے میں میرپور خاص کے قریب واقع بند ٹوٹ جاتا تو یہ شہر پھر کبھی نظر نہ آتا ۔

ہم نے اس شہر کو بچانے کے لیے بند کو مضبوط بنانے کی خاطر ہنگامی طور پر 50 کروڑ روپے خرچ کئے ۔ شہر کی ڈرینیج اسکیم کے لیے 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ۔ میرپور خاص سے تھرپارکر تک سڑک کی مرمت کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانگھڑ کو نظر انداز کرنے کی بات بھی غلط ہے ۔ سانگھڑ میں ہم نے جو عوام کی خدمت کی ہے ، اس کے نتیجے میں ہمیں سانگھڑ میں قومی اسمبلی کی وہ نشست ملی ، جو ہمیں کبھی نہیں ملی تھی ۔

سانگھڑ ، ٹنڈو آدم اور شہداد کوٹ میں ڈرینیج سسٹم پر کام ہو رہا ہے ۔ ارد گرد کی تمام بڑی شاہراہوں پر کی مرمت ہو رہی ہے ۔ کوشش کریں گے کہ ان میں سے 50 فیصد سڑکیں اس سال مکمل ہو جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ روم ایک دن میں نہیں بنا تھا ۔ جو سڑکیں سندھ میں ہم تعمیر کررہے ہیں ، وہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے ۔ ایسے کاموں کے لیے جذبہ ، خلوص اور دیانت داری درکار ہوتی ہے ۔

ہمارے دور میں سندھ میں جو کام ہوئے ، وہ پہلے کبھی نہیں ہوئے ۔ قبل ازیں تحریک التوا ء پر بحث کرتے ہوئے ہیر اسماعیل سوہو نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کا اجراء بہت سست ہے۔ 2012-13میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) 140ارب روپے کا تھا لیکن اس پر صرف 87ارب روپے خرچ ہوئے۔ رواں مالی سال کے دوران بھی صورت حال بہتر نہیں ہوئی ہے۔ 10ماہ گزر گئے ہیں۔

اس کے باوجود بعض اسکیموں کے لئے فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ کیا سندھ مالی بحران کا شکار ہے؟ مسلم لیگ (فنکنشل) کے سعید نظامانی نے کہا کہ ضلع سانگھڑ میں اے ڈی پی کی اسکیموں کے لئے پیسے نہیں دئیے جارہے۔ سانگھڑ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ وہاں نہ سڑکیں ہیں اور نہ انفراسٹریکچر ہے۔ 2009-10میں منظور کی جانے والی اسکیموں پر بھی ابھی تک کام شروع نہیں ہوا۔

وزیر جیل خانہ جات و اینٹی کرپشن منظور حسین وسان نے کہا کہ 2002سے 2007کے دوران پیر صدرالدین شاہ وزیر ورکس اینڈ سروسز تھی کئی اسکیموں کے لئے پیسے جاری ہوئے لیکن استعمال نہیں ہوا۔ اس کی تحقیقات ہورہی ہے۔ مسلم لیگ (فنکنشل) کے پارلیمانی لیڈر امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ جب صدر الدین شاہ وزیر تھے سانگھڑ میں سڑکوں کی بہترین حالت تھی۔ گذشتہ 5سال میں وہاں سڑکوں کی حالت بہت اچھی تھی اور اسکیموں پر کام بھی ہورہا تھا۔

منظور وسان پہلے گذشتہ 5سال کی انکوائری کرائیں۔ منظور وسان نے کہا کہ ہم کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے لیکن 2002-07کی انکوائریز پہلے سے ہورہی ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی اور فنکنشل لیگ کے ارکان میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ پیپلز پارٹی کے غلام قادر چانڈیو نے بھی اعتراف کیا کہ سیلاب اور بارشوں کے بعد سانگھڑ کی سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر ظفر کمانی نے کہا کہ سندھ میں سڑکوں کی حالت دیگر صوبوں کے مقابلے بہت خراب ہے۔ سندھ کی جس طرح کی خدمت کی جانی چاہیے تھی، اس طرح نہیں کی گئی۔ میر پور خاص کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہم نے 2005سے 2010تک اس شہر کی حالت بدل دی گئی تھی لیکن آج وہاں لوگ بدبو دار پانی پینے پر مجبور ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی امور سید سردار احمد نے کہا کہ بجٹ پر نظر ثانی کرنے کا عمل اب تبدیل ہونا چاہیے۔

پرانے اور دقیانوسی قوانین کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ پر طویل بحث ہونا چاہیے۔ اسے حساب کتاب والے بجٹ کی بجائے کارکردگی والا بجٹ بنانا چاہیے لہذا بحث کے لیے کوئی دوسرا دن مقرر کیا جائے تاکہ ارکان پوری تیاری کے ساتھ بحث میں حصہ لے سکیں۔ مسلم لیگ (فنکشنل ) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے کہا کہ 70 فیصد بجٹ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے ۔

جعلی بھرتی والے لوگوں کو بھی تنخواہیں دی جارہی ہیں ۔ سندھ کے غریب لوگوں کا پیسہ ضائع کیا جارہا ہے ۔ منظور وسان کے گوٹھ جانے والی سڑک ایسی ہے ، جیسی دبئی میں ہوتی ہے جبکہ ارد گرد کی سڑکوں کی حالت خراب ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو چاہئے کہ وہ گڈ گورننس سے کام لیتے ہوئے بجٹ کے استعمال کو بہتر بنائیں کیونکہ اس وقت غیر ملکی ادارے سندھ میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ۔

متحدہ قومی موومنٹ کے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ارکان سندھ اسمبلی کو بجٹ کی تفصیلات فوراً فراہم کی جائیں ۔ پیپلز پارٹی کے سردار احمد علی خان پتافی نے کہا کہ 50 فیصد ترقیاتی بجٹ سندھ کے بڑے منصوبوں کے لیے رکھاجائے جبکہ باقی 50 فیصد تمام اضلاع میں آبادی کے تناسب سے تقسیم کردیا جائے ۔ اس وقت فنڈز کی تقسیم غیر منصفانہ ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق کی طرف سے ہمیں اپنے حصے کی رقم نہیں مل رہی ہے ۔ اپنا جائز حصہ لینے کے لیے سندھ اسمبلی کو ایک قرار داد منظور کرنا چاہئے ۔ بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا ۔