100 روزہ پلان لوگ خوابوں کی تعبیر مانگنے لگے

وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی عوام کو جو خواب دکھائے تھے اب انہیں پورا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے قوم کو 100 دن کا پلان دیا تھا کہ اس عرصہ میں

ہفتہ 20 اکتوبر 2018

100 roza plan log khowaboon ki tabeer mangnay lagey
فرخ سعید خواجہ
وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی عوام کو جو خواب دکھائے تھے اب انہیں پورا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے قوم کو 100 دن کا پلان دیا تھا کہ اس عرصہ میں ان کی لائی گئی پالیسیوں سے ان کی حکومت کی سمت واضح ہو جائے گی یوں بھی تین چار ماہ کسی بھی نئی حکومت کا ہنی مون پریڈ ہوتا ہے۔ سو اپنے پرائے سب 100 دن پورے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

سیاست میں وزیراعظم عمران خان کے سب سے بڑے سیاسی حریف اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اپنے اس نئے سیاسی کردار کو سنبھانے کے لئے لنگر لنگوٹ کس کر اسلام آباد میں براجمان ہو گئے ہیں۔ رواں ہفتہ میں ان کا تمام تر وقت نہ صرف اسلام آباد میں گزرا ہے، بلکہ تاحال وہ اسلام آباد میں مقیم ہیں اور اپوزیشن کی صفوں کو سیدھا کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت کا ہنی مون پریڈ تمام ہو گا تو تگڑی اپوزیشن انہیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آڑے ہاتھوںلینے کے لئے تیار ملے گی۔


پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کا سیاسی محاذ اب پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز کے حوالے ہے۔ انہیں سینیٹر چودھری محمد سرور کے گورنر بننے کے بعد سینٹ کی خالی کردہ نشست پر انتخابی معرکہ کا سامنا ہے۔ انہوں نے خواجہ احمد حسان کو اس نشست پر میدان میں اتارا ہے۔ وہ خواجہ احمد حسان کے لئے پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر وسیم شہزاد کا پلڑا اب بھی بھاری ہے اگر خواجہ احمد حسان کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ صوبے میں بڑے سیاسی اپ سیٹ کی طرف نشاندہی ہو گی۔ آئیے ایک نظر پارٹی پوزیشن پر ڈال لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ممبران کی تعداد 175، مسلم لیگ (ن) 159، مسلم لیگ (ق) 10، پیپلزپارٹی 7، آزاد 2 اور راہ حق پارٹی 1 ہیں۔ ممبران کی تعداد کا چارٹ دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے خواجہ احمد حسان کو محض جمہوری عمل میں حصہ لینے کے لئے میدان میں اتارا ہے۔

لاہورمیںدوسرا انتخابی معرکہ 14 اکتوبر کو ضمنی انتخابات میں ہونا ہے۔ قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے 124 اور این اے 131 کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پی پی 164 اور پی پی 165 پر انتخابی مہم پورے جوبن پر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا محاذ میاں حمزہ شہباز نے سنبھال رکھا ہے اور شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق نہ صرف قومی اسمبلی کے دو حلقوں کے امیدوار ہیں بلکہ حمزہ شہباز کا دست و بازو بن کر سیاسی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

میاں شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر بھی زور دار انتخابی مہم جاری ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کے بھاری بھرکم امیدوار بظاہر سبقت لئے ہوئے ہیں نتیجہ 14 اکتوبر کو سامنے آئے گا۔
رواں ہفتہ کے دوران انتخابی محاذ پر گرما گرمی کے علاوہ صوبے میں انتخابی سیاست کے نتائج اپنا اثر دکھانے لگے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار آہستہ آہستہ لوگوں کے دل و دماغ میں اپنی جگہ بناتے جا رہے ہیں۔

دراصل ان سے پہلے صوبہ پنجاب میں دس سال شہباز شریف وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ ان کی سیاست سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کا دن رات صوبے کے عوام کی خدمت میں جتے رہتے اور حکومتی منصوبوں پر شیر کی نظر رکھنے سے ماسوائے پی ٹی آئی والوں کے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ دراصل ابھی ہماری سیاست اتنی میچور نہیں ہوئی کہ اپنے سے پہلے حکمران کی حکومتی کارکردگی کو سراہنے کا ظرف موجود ہو۔

پی ٹی آئی ہی نہیں اس سے پہلے 2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کے اچھے منصوبوں اور اچھے کاموں کی تعریف نہیں کی تھی بلکہ ان میں بھی کیڑے ڈالے تھے۔ میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور، وزیر آباد کا کارڈیالوجی ہسپتال، پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کا کھٹائی میں ڈالے رکھنا شہباز شریف کی اعلیٰ حکومتی کارکردگی کا ہمیشہ منہ چڑاتا رہے گا۔

سو پی ٹی آئی کو سبق سیکھنا چاہئے کہ سدا بادشاہی اللہ کی ہے۔ ہم اپنی سیاسی تاریخ کا 1970ءسے جائزہ لیں تو ملک دو لخت ہونے کے بعد پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا تو یہاں ملک معراج خالد، غلام مصطفٰی کھر، حنیف رامے، نواب صادق حسین قریشی جیسے لوگ وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ ان میں سے صرف غلام مصطفٰی کھر زندہ ہیں باقی اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں تاہم ان کے کئے گئے اچھے کام آج بھی لوگوں کو ان کی یاد دلا دیتے ہیں۔

پھر ایک اور زمانہ آیا اس میں میاں نواز شریف، غلام حیدر وائیں، میاں منظور وٹو، سردار عارف نکئی، میاں شہباز شریف، چودھری پرویز الہٰی صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ ان میں سے نواز شریف کو دو مرتبہ 1985ءاور 1988ءمیں وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور وہ دس برس پنجاب پر حکومت کرتے رہے۔ اب ان کے بھائی شہباز شریف نے پنجاب کا تین مرتبہ وزیراعلیٰ بن کر 13 سال پنجاب میں حکومت کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

1997-99ءکے دو سال کے علاوہ 2008ءسے 2018ءتک مسلسل دس سال حکومت کرنے کا اپنے بھائی نواز شریف کا ریکارڈ انہوں نے برابر کیا ہے۔ میاں منظور وٹو پنجاب کے تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہے لیکن پہلی مرتبہ ان کا دور حکومت 84 دن کا تھا، دوسری مرتبہ 13 دن اور تیسری مرتبہ ایک سال 328 دن تھا۔ چودھری پرویز الہٰی نے 11 دن کم پانچ سال حکومت کی۔ ان کا دور حکومت 4 سال 354 دن رہا۔

سردار عارف کئی کا دور حکومت ایک سال 51 دن کا تھا۔ ان منتخب وزراءاعلیٰ کے علاوہ اس دوران مختصر مدت کے لئے نگران وزیراعلیٰ بھی آئے جن میں منظور لہٰی 94 دن، میاں افضل حیات 96 دن، شیخ اعجاز نثار 145 دن، نجم سیٹھی 73 دن اور حسن عسکری 113 دن حکمران رہے۔ مختصر مدت کے لئے وزیراعلیٰ بننے والوں میں سردار دوست محمد کھوسہ بھی شامل ہیں جو محض 58 دن وزیراعلیٰ رہے۔


بات دوسری طرف نکل گئی۔ ذکر تھا کہ سدا بادشاہی اللہ کی ہے سو جو بھی حکمران بنے وہ اس بات کو بڑے الفاظ میں لکھ کر اپنے سامنے دفتر کی میز پر رکھ لے تاکہ وہ نہ صرف خوف خدا محسوس کرے اور عوام کی خدمت کرے بلکہ ماضی کی حکومتوں کے جاری منصوبوں کو بھی جلد از جلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دے۔ چودھری پرویز الہٰی آج سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں، وہ اکثر و پیشتر شہباز شریف حکومت کی طرف سے ان کے جاری منصوبوں کو سردخانے میں ڈالنے کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر وہ منصوبے بروقت مکمل نہیں ہوئے تو درحقیقت اس کا نقصان عوام کو پہنچا نہ کہ چودھری پرویز الہٰی کو۔ سیاست آنے جانے کا کھیل ہے ان کی جماعت آج پنجاب اسمبلی میں محض دس نشستوں کے ساتھ اہم جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور چودھری صاحب سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ سو موجودہ حکمران جان لیں کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ عوام کا منصوبہ ہے۔ اسے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا وگرنہ اس میں جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا اور عوام ایک بڑی سہولت سے محروم رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

100 roza plan log khowaboon ki tabeer mangnay lagey is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.