امیر قطر کا دورہ پاکستان اور افغان مسئلے پر بھوربن کانفرنس

امریکی انخلاء کیلئے تمام افغان قوتیں متحد․․․․․؟ قومی حکومت کے قیام کی صورت ترکی بھی افغانستان میں اسٹیک ہولڈر ہو گا

جمعہ 28 جون 2019

ameer qatar ka dora pakistan or afghan masle per bhurban conference
 محمد انیس الرحمن
امیر قطر کا دورہ پاکستان اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کاحامل تھا کہ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ مشرقی وسطی بھی اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔بھاری سرمایہ کاری کے علاوہ قطر پاکستان کے ساتھ قریبی اسٹریٹیجک روابط استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔اس سلسلے میں بعض ذرائع کا یہ بھی خیال ہے کہ 2022ء کے عالمی فٹ بال مقابلے جو قطر میں ہونے جارہے ہیں ان کی سیکورٹی اور دیگر انتظامات کے لئے بھی قطر کو پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔

جہاں تک پاکستان میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو یہ ایک خوش آئندہ دور ہ تھا جس سے تعاون اور مکانات کے نئے دروازے کھلیں گے۔یہ سب معاملات ایسے وقت میں وقوع پذیر ہیں جب امریکہ نے ایران کے ساتھ اعصابی جنگ چھیڑی ہوئی ہے دوسری جانب روس ،چین ،ترکی پاکستان کی شکل میں ایک بڑا عالمی بلاک خدوخال ترتیب دے رہا ہے۔

(جاری ہے)


اسی دوران پاکستان میں دوسرا اہم واقعہ افغانستان میں قومی حکومت کے قیام کے لئے بھوربن مری میں دو روزکانفرنس کا انعقاد ہے جس میں افغان طالبا ن سمیت شمالی اتحاد کے وہ رہنما بھی شامل تھے جو ماضی میں پاکستان مخالف رہے ہیں اس سلسلے میں عبدالرشید دوستم کو پاکستان بھجوانے میں ترکی نے اہم کردار ادا کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر قومی حکومت کی افغانستان میں بیل منڈھے چڑگئی تو مستقبل میں ترکی بھی وہاں ایک اہم اسٹیک ہولڈرہو گا۔

دوستم کے علاوہ عطا محمد نور اور استاد محمد محقق بھی شامل تھے اس میں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ان سب کو قیادت حزب اسلامی کے رہنما حکمت یار کررہے تھے ۔جنہوں نے کانفرنس کے دوران امریکہ سے افغانستان سے انخلا کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے افغانستان کے مسئلے پر فعال کردار ادا کرنے کی اپیل بھی کی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے اس لئے افغان عوام چاہتے ہیں کہ پاکستان اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے۔


ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں افغان طالبان کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے ۔جس کی تصدیق بعض ذرائع کو قطر میں موجود افغان طالبان کے دفتر نے بھی کی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ کانفرنس 25اور26جون کو منعقد کی جانی تھی لیکن امیر قطر کے دورہ پاکستان کی وجہ سے اس کی تاریخ میں تبدیلی کی گئی ۔اس کے علاوہ اس کانفرنس کے تیزی سے انعقاد کا دوسرا بڑا سبب خطے میں ایران امریکہ کشیدگی بھی تھی کیونکہ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا تو افغانستان بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا تھا ۔

اس کانفرنس افغانستان سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سیاسی جماعتوں کے پینتالیس مندوبین اس کی اہمیت اجاگر کر دینے کے لئے کافی ہیں ۔
یقینا اس سارے معاملے میں اچھی پیش رفت ہو گی لیکن امریکہ اس میں اپنے مفادات کو پہلے رکھے گا اس معاملے میں سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے امریکی عسکری انخلا ہے ۔بری طرح جوتے کھانے اور ہر طرح کی چال ناکام ہو جانے کے باوجود امریکی افغانستان سے انخلا میں تمام دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے ۔

جس وقت دوحہ میں زلمے خلیل زاد کے ساتھ افغانستان طالبان کے مذاکرات شروع ہوئے تھے تو ہم نے پہلے ہی اس بات چیت کے نتائج زلمے خلیل زاد کے ماضی کے آئینہ میں بیان کر دےئے تھے اور بعد میں فی الواقع ایسا ہی ہوا۔
دنیا تیزی کے ساتھ تبدیلی کی جانب گامزن ہے لیکن ہر انسان اس عالمی تبدیلی کو محض اپنے دائر ے میں ہی محسوس کرتا ہے ۔انفرادی طور پر انسانی دماغ میں اس قدر ہی گنجائش ہوتی ہے ۔

مثلاً کرہ ارض ہر وقت ایک مدار میں حالت سفر میں ہے اور روز اپنے مدار کے گرد چالیس ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے لیکن انسان بس یہی کہتا ہے کہ ”ایک اور دن گزر گیا“۔اسی طرح قوموں کے معاملات بھی ہوتے ہیں ،دنیا میں تبدیلی کی لہریں اٹھتی ہیں تو کچھ بے خبر قومیں دور ہونے کی وجہ سے اسے محسوس نہیں کر پاتیں لیکن جب یہ لہریں ان قوموں کے دروازوں سے ٹکراتی ہیں تو انہیں گویاہوش آجاتا ہے۔


افغان معاشرہ بھی ”جدید تقاضوں “سے کٹا ہوا ایک معاشرہ تصور کیا جاتا ہے ۔نائن الیون کے ڈرامے سے قبل امریکی تھنک ٹینکس کے نزدیک یہ ایک”بے خبر“معاشرہ تھا اسی چیز کو بنیاد بنا کر ’ایک طرف یونی کول نامی امریکی آئل کمپنی کے ذریعے وسطی ایشیاء تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب ’جمہوریت ‘’‘کے نام پر ان کے خلاف مغرب میں منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔

دوسری جانب بھارت کا اس معاشرے سے نہ تو کوئی ثقافتی میل ہے اور نہ ہی زمین اور پانی کے ذریعے کوئی رابطہ لیکن اس نے اپنے آپ کو افغانوں کا نجات دہندہ تصور کرتے ہوئے ان کی سر زمین پر اپنی عسکری فورس ،انٹیلی جنس ایجنسیاں اور بے بہا مالیاتی فنڈز اتار دےئے۔
پوری ڈیڑھ دہائی امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی نیٹو فورسز اس کی پشت پناہی کرتی رہیں مگر آج اس عرصے کے بعد بھی بھارت افغانستان میں خالی ہاتھ نظر آتا ہے ۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کو جوکام ایک اس دوران سے قبل کرنا چاہئے تھا وہ اسے اب اپنے ترکش کے آخری لیکن کار آمد تیر کے طورپر کرنا پڑاجی ہاں”گوادر“چین اور روس کے لئے وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان ایک بڑا معاشی اور عسکری پل۔۔۔پاکستان کے خلاف جب ساتھ آٹھ برس قبل امریکہ میں ”نئے نقشے“ترتیب دےئے جارہے تھے اور اس کے ساتھ یہ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ چند برسوں بعد تک پاکستان کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتاہے یہ بات صرف پاکستان تک محدود نہیں تھی بلکہ مشرق وسطی کے نئے نقشے بھی معرض وجود میں لائے جارہے تھے ۔


لیکن اس قسم کی مہم جوئی کا اب وقت گزر چکا تھا دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے جب خلافت اسلامیہ کو پاراپاراکیا گیا اور مسلمانوں کو دوبارہ متحدنہ کرنے کی غرض سے واشنگٹن ،لندن اور پیرس میں جو”نقشہ نویسی“کی گئی اس وقت روس اپنی حدود سے باہر نکلنے کے قابل نہیں تھا اور چین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ قراقرم سے اس پار بھی دیکھ سکے اس لئے اس دور میں کی جانے والی”نقشہ نویسی “قابل عمل قرار پائی تھی جس کی بنیاد پر شمالی اور وسطیٰ افریقہ سے لے کر مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک کی مختلف ریاستوں کی شکل میں کاٹ چھانٹ کردی گئی تھی یہ سب کچھ مغرب کے صہیونی دجالی مفادات کے تحت کیا گیا تھا ۔

لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے اب امریکہ اور مغرب میں جس عالمی”نقشہ نویسی“کی کوشش کی گئی تھی وہ روس اور چین کے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی غرض سے کی جارہی تھی ۔
ان دودہائیوں میں جب امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی معدنی دولت پر قبضے کی خاطر نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر اسلامی دنیا پر چڑھ دوڑے تھے اور افغانستان اور عراق میں بربریت کی تاریخ رقم کررہے تھے روس اور چین وسطیٰ ایشیا سے نکل کر مشرق وسطی اور شمالی اور وسطی افریقہ میں اپنے معاشی منصوبوں کے لئے بھاری سرمایہ کاری کررہے تھے بیس برس بعد جب امریکہ کو عراق اور افغانستان میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے بلکہ اس کی اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے اپنے گھروں میں معاشی زوال کی بنا پر خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں تو انہوں نے وہ کام کرنے کا فیصلہ کیا جو امریکہ نے ویت نام سے نکلنے سے پہلے کیا تھا۔


ویت نام کے حریت پسندوں جنہیں ویت کانگ کہا جاتا تھا نے جب روس اور چین کی مدد سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کمر توڑ دی تو امریکہ نے ویت نام کی بندرگاہوں اور صنعتی علاقوں کو بارودلگا کر تباہ کرنا شروع کردیا تھا تاکہ مستقبل میں روس اور چین ان سہولتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اسی قسم کی صورتحال کا اسے اب افغانستان اور عراق میں سامنا تھا اس لئے اس نے روس اور چین کے بڑھتے قدم روکنے کے لئے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کی نئی”نقشہ نویسی“کا پلان ترتیب دیا لیکن امریکی اور یورپی”سیسہ گر“بھی آخر گوشت پوست کے انسان ہی ہیں بھلے ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دیگر خطوں کے انسانوں سے کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو مگر”فطرت“کا مقابلہ کون کرے۔


جلد ہی انہیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ خاصی دیر ہو چکی ۔مغرب کے معاشی ماہرین کے مطابق اگر امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی اپنی موجودہ جنگ مزید جاری رکھتے ہیں تو نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ بھی ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہو جائے گا۔گزشتہ آٹھ برس تک برطانیہ کی معاشیات تمام یورپ میں سب سے زیادہ مضبوط تصور کی جارہی تھی لیکن اب اس کایہ حال ہے کہ برطانوی پونڈنہیں سنبھل پارہا جب حکومت کے سامنے قرضوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہو چکا ہے ۔

2005ء میں مغربی معاشی ماہرین کا خیال تھا کہ اگر امریکہ کی معیشت دیوالیہ ہوتی ہے تو یورپ کے ذریعے اسے سہارا دیا جا سکے گالیکن اب یورپ کی معاشی حالت بھی امریکہ کے برابر ہوچکی ہے اس لئے کون کس کو سہارا دے گا اس کا تاحال تعین نہیں ہو سکا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو جو عالمی حلقے اور ان کے مقامی مچھندرقوم کو ڈرانے کے لئے مغرب کے صہیونی صلیبی منصوبے پیش کررہے تھے انہیں اس بات کی خبر ہونی چاہیے کہ پاکستان دنیا کی مہنگی ترین”راہداری“ہے تو دوسری جانب باہر کی دنیا کے لئے پاکستان چین کی”لائف انشورنس‘کا مقام بھی رکھتا ہے ۔

نکسن نے بھٹو کو استعمال کرکے امریکہ کے لئے چین کا دروازہ کھلوایا تھا لیکن در حقیقت اس کا اس قدر ہی فائدہ ہو سکا کہ سوویت لیڈر خروشیف کو واشنگٹن کا دورہ کرنا پڑا چینیوں نے امریکیوں کو اپنے ہاں تو گھسا لیا لیکن انہیں خطے کی پالیسی سازی کا کبھی اختیار نہیں دیا جلد ہی مورخ یہ بھی لکھے گا کہ نکسن کے بیجنگ جانے کا فائدہ امریکیوں سے زیادہ خود چینیوں نے اٹھایا۔

۔۔اب صورتحال یہ ہے کہ یورپ کی گیس کابٹن روس کے ہاتھوں میں ہے گوادر پورٹ کے فعال ہوتے ہی اس خطے کی عالمی تجارت کا بٹن چین کے یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کے ہاتھ میں آجائے گا۔یہی وہ صورتحال ہے جس سے خوفزدہ ہو کر مشرق وسطی سے لیکر بلوچستان اور خیبر پی کے میں فتنوں کی آگ بچھائی گئی فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کرانے کی سر توڑ کوشش کی گئی۔


اب ذراسی صورتحال کو لیکر افغانستان اور خطے کے دوسرے علاقوں کی جانب آتے ہیں ۔کیا اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال سامنے آنے کے بعد ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب چین اور پاکستان کی دوستی نئے مراحل طے کرتی نظر آنے لگی اور آنے والی نئی صورتحال کے تناظر میں نئے کرداروں کا تعین شروع ہو گیا۔

ایسے منصوبے طے پانے کی شنید ہے جس میں چشمہ پاور پلانٹ ،قراقرم ریلوئے لائن ،پاکستان بھر میں عوامی ہاؤسنگ کالونیاں اور ایسے صنعتی زونز کاقیام جہاں پر چینی مصنوعات تیار ہو سکیں ۔یہ ایسے معاملات ہیں جو نئی دہلی اور واشنگٹن کے ماتھے پر تیوری لانے کے لئے کافی ہیں۔
اس کے بعد امریکی دباؤ کے غبارے سے اس وقت ہوا تیزی سے نکلتی محسوس ہوئی جب پاکستان کی جانب سے گوادر کا کنٹرول چین کے حوالے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال نے ہندوبرہمن اشرافیہ کی سانسیں پھلادی ہیں۔

سی آئی اے اور ایف بی آئی کی پوشیدہ قربت کا حامل”وائس آف امریکہ“مختلف شعبوں میں بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات کو علاقے میں بھارت کے سامنے باڑھ لگانے کے مترادف قرار دیتا رہاہے ۔اس کا کہنا ہے کہ پاکستان نہ صرف افغانستان کی جانب چین کی ”تزویراتی کھڑ کی “ہے بلکہ پاکستان اس جنگ زدہ ملک میں چینی مفادات کا ضامن بھی ہے ۔امریکہ کی انڈیا نا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے ہندو پر وفیسر ”سمیت گنگولی“کا کہنا تھا کہ ”ایسے وقت میں جبکہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور اپنے انفراسٹر کچر کی تعمیر نوکے لئے چین کی جانب دیکھ رہا ہے تو چین بھی افغانستان کے مستقبل کے معاملات کو سمجھنے کے لئے ہے تو چین بھی افغانستان کے مستقبل کے معاملات کو سمجھنے کے لئے پاکستان کی جانب دیکھ رہا ہے۔


ایک امریکی تھنک ٹنک Carnegie Endowment for International Peace in Washingtonکے فیلورکن میچل سوانے کے مطابق ”اگر افغانستان میں پاکستان کے لئے کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوتی ہے تو چین اس میں اپنے آپ کو برابر کا شریک تصور کرے گا ،کیونکہ اس قسم کی صورتحال سے افغانستان کے استحکام اور مستقبل پر سوال اٹھ سکتے ہیں “۔دوسری جانب American Enterprise Institute in Washingtonکے ڈان بلیو منتھل کے مطابق”پاک چین تعلقات کا یہ تقاضا نظر آتا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کی کسی بھی بڑی کامیابی کے سامنے رکاوٹ کھڑی کردیں۔


اس تمام صورتحال کاجائزہ لینے کے بعد امریکی انتظامیہ کے صہیونی کا ر پردازوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی انخلا کے تاثر کو زیادہ سے زیادہ کم کردیں اور اس بات کا بار بار اعادہ کریں کہ امریکہ کی کئی ہزار فوج امریکہ اور نیٹو کے انخلاء کے بعد بھی افغانستان کے مختلف علاقوں میں امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطرر ہیں گے۔


اس حوالے سے امریکی حلقوں نے پہلے ہی افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔امریکہ کے صہیونی مقاصد کی بار آوری کے لئے کام کرنے والے بہت سے تھنک ٹینک کے ”تجزیہ نگاروں“نے ابھی سے افغانستان کو پاکستان کا بچھواڑاBackyardبنا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔دوسری جانب جوں جوں افغانستان میں افغان طالبان کی صورتحال مستحکم ہونا شروع ہوئی بھارت امریکہ تعلقات ”قریب تر“ہوتے گئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں ”دہشت گردانہ“وارداتوں کا نیا سلسلہ سامنے آیا ہے۔

لندن سے شائع ہونے والے عربی اخبار “الشرق الاوسط“کے ایک تجزیے کے مطابق خطے تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی صورتحال نہ تو امریکہ کے حق میں ہے اور نہ ہی بھارت کے لیکن آنے والا وقت پاکستان اور چین کے لئے یہ یقینا موافق ہے۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو روس اور چین جتنے وقت تک امریکہ کو افغانستان میں دیکھنا چاہتے تھے امریکہ وہاں رہا ۔۔۔2006ء سے پہلے افغانستان مزاحمت قدرے کمزور رہی یا جان بوجھ کر اسے کمزور رکھا گیا ۔

کیونکہ جو صورتحال اس وقت ہے اگر 2006ء سے پہلے پیدا ہو جاتی تو یقینا امریکی وہاں سے نکلنے کا سوچنے لگتے لیکن یہ ایک ایسا وقت تھا جب چین ایک طرف اقتصادی طور پر مستحکم ہورہا تھا تو دوسری جانب روس عالمی قرضوں سے تیزی کے ساتھ نجات حاصل کرکے اپنی معیشت کو مستحکم کررہا تھا۔اس دوران روس نے انتہائی دانشمندی کے ساتھ امریکہ کی وسطی ایشیاء اور قفقاز کی جانب پیش قدمی کو برداشت کیا۔


 یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے کسی دشمن فوج کو منصوبہ بندی کے تحت اپنے علاقے میں آنے دیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی استعماریت کے قیام کے لئے کوشاں رہا وہاں وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے میں روس کے ساتھ جنگی اڈوں کے قیام کی سردجنگ برپارہی جس کے نتائج آنے والے وقت میں روس کے حق میں برآمد ہوئے ۔پولینڈ میں امریکی میزائل شیلڈ کے معاہدے پر دستخط اسی امریکی بدحواسی کا شاخسانہ ہے جو اسے خطے میں روس کے ساتھ عسکری اڈون کے قیام کے سلسلے میں ہزیمت کی شکل میں اٹھانا پڑی ہے ۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے ہی روس اور چین نے ”شنگھائی تعاون کو نسل“کی بنیاد رکھی تھی تاکہ امریکہ کے خطے سے انخلا کے بعد امریکی اثرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اس تمام صورتحال میں ایک دلیر اور قوم پرست لیڈر شپ کے فقدان کی وجہ سے خطے میں سب سے زیادہ قیمت پاکستان کو چکانا پڑی ہے ۔مشرف کے فاشسٹ آمرانہ دور میں پاکستان میں لیبرل قوتوں نے نئی صف بندی کی اور پاکستان کا نظر یاتی حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

پچھلے دو دوروں میں یہ قوتیں جمہوریت کے نام پر پھر اسلام آباد پر قابض رہیں جن کے شخصی مفادات میں مغرب کے شیطانی مقاصد پوشیدہ تھے۔افسوسناک آمر یہ ہے کہ یہ لولی لنگڑی نام نہاد جمہوری قوتیں خطے میں اس بڑی تبدیلی کا ادراک تو دور کی بات قومی سطح پر کسی بھی مثبت تبدیل ی کی متحمل نہ ہو سکیں۔ان تمام قوتوں کا زور صرف پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے پر رہا۔


یہ بات بھی مشاہدے میں رہی ہے کہ جب خطے میں کوئی بڑی قوت وار دہونے لگے تو بھی تباہی مچانے کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں اور جس وقت کوئی بڑی طاقت شکست کے بعد خطے سے فرار اختیار کر رہی ہوتو اس وقت بھی اس قسم کی صورتحال سامنے آتی ہے اس لئے یہ زیادہ دور کی بات نہیں ہے جب اسی کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین افغانستان سے نکل رہا تھا اس وقت بھی پاکستان پر آزمائش کا کڑاوقت تھا وطن عزیز میں دہشت گردانہ دھماکوں سے تباہی مچائی گئی تھی ۔


آج جب امریکہ خطے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے تو سب سے زیادہ اس کی سزا دہشت گردی کی صورت میں پاکستان کو دی گئی ۔یہ بات ٹھیک ہے کہ افغانستان کو بڑی سا مراجی قوتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ سوویت یونین کے تجربے کے بعد دنیا اب یہ سمجھتی ہے کہ جہاں افغانستان بڑی قوتوں کا قبر ستان ہے تو وہاں پاکستان بھی اس قبرستان بڑی قوتوں کے لئے کسی”گورکن“سے کم نہیں۔


افغانستان میں دودہائیوں کے قیام کے دوران امریکہ جہاں روس کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کرتا رہا وہاں دوسری جانب اس کی پوری کوشش تھی کہ چین اور گوادر کے جغرافیہ کے درمیان ناقابل عبور دیوار کھڑی کردی جائے یہی وجہ ہے کہ سوات سے لیکر بلوچستان تک دہشت گردی کی آگ بھڑ کائی گئی ۔لیکن ثابت ہو گیا کہ آنے والا وقت خطے میں اجنبی قوتوں کے لئے نہیں ہے ۔

افغانستان جتنا امریکیوں کے لئے اجنبی ہے بھارت کے لئے بھی اتنا ہی اجنبی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو افغانستان میں طالبان حکومت کے سقوط کے بعد جنوبی افغانستان سے فرار ہونے والے بہت سے سکھ آج بھی بھارت میں قیام کے لئے اپنے ویزوں کی سالانہ تجدید نہ کرواتے۔جبکہ بھارت کی نسبت وہ افغانستان میں تمدنی اور معاشی لحاظ سے زیادہ خوشحال تھے۔
ان تمام حالات کے تناطر میں وسطی اور جنوبی ایشیاء بڑی جوہری تبدیلیوں کی زد مین نظر آتا ہے ۔

امریکہ جب ویت نام اور پھر کوریا کی جنگ سے شکست کھا کر نکلا تھا تو اسے پورے جنوب مشرق ایشیا سے ہاتھ دھونا پڑے تھے آج اسے افغانستان میں ناکامی کا سامنا ہے اسے خدشہ ہے کہ اس مرتبہ بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے اور افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکہ کو باقی ماندہ ایشیا سے بھی اپنے مفادات نہ سمیٹنے پڑ جائیں۔ امریکیوں کے خدشات کس حد تک درست ہیں اس کا صحیح ادراک تو آنے والے وقت میں ہو گا لیکن یہ بات خاصی معنی خیز ہے کہ اب افغانستان میں ناکامی کے بعد وہ افریقہ میں اپنے قدم جمانے کی بھر پور کوشش کررہا ہے برطانیہ اور فرانس دیگر نیٹو ممالک اس کے ساتھ ہیں۔


 ماضی قریب میں مالی کی جنگ اور اس میں فرانس کی سربراہی میں نیٹوکی کارروائیاں اس بات کی غماز ہیں کہ آنے والے وقت میں روس اور چین کی پیش قدمی کے سامنے امریکہ اور اس کے صہیونی سلیبی اتحادی افریقہ کو بیس کیمپ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بڑی کارروائی نہ کرنے میں یہی ایک راز پوشیدہ تھا کہ ایک طرف روس کو اس صورتحال میں الجھایا جائے تو دوسری جانب یہاں پر ”فرقہ واریت “کی ہانڈی پوری طرح پکائی جائے کیونکہ اگر شام کی حکومت فوراباغیوں کے قبضے میں آجاتی ہے تو کسی حد تک معاملات سلجھ سکتے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کو منظور نہیں کیونکہ اس طرح مشرق وسطی میں سر اٹھانے والی شورشوں کازو رکسی حد تک کم ہو جائے گا۔


اس تمام منظر نامے کو سامنے رکھیں تو ا میر قطر کا حالیہ دورہ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے اگر پاکستان قطر جیسے دوست ملک کی مدد سے حالیہ مالی بحران سے نکل جاتا ہے تو مستقبل میں قطر کے لئے گوادر پورٹ سمیت پاکستان میں بھی بہت سے امکانات موجود ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ameer qatar ka dora pakistan or afghan masle per bhurban conference is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.