بھارت کو مسلمانوں کیلئے روہنگیا بنانے کا مذموم منصوبہ

بی جے پی مسلم شناخت و تشخص کے خاتمے کیلئے ہندو توا کے ایجنڈے پر گامزن ہے

ہفتہ 16 جنوری 2021

India Ko Muslims Ke Liye Rohingya Banane Ka Mazmoom Mansoba
رابعہ عظمت
2020ء بھی بھارتی مسلمانوں پر ظلم ڈھاتا اختتام کو پہنچ چکا ہے اور نئے سال کا سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی مودی سرکار کا ستم بھی دراز ہوتا جا رہا ہے،مسلمانوں پر ظلمت کی سیاہ شب نے گھیرا ڈال رکھا ہے اور ہر گزرتے روز کے ساتھ ہی ان پر نئے نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔بھارت میں ہندومت کے بعد اسلام کے پیروکار زیادہ ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 13.4 فیصد سے بھی زائد ہے۔

بھارت کی مسلم آبادی دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیت آبادی ہے۔سال گزشتہ میں مودی ،یوگی گٹھ جوڑ نے ہندوستان میں بسنے والے 24 کروڑ مسلم آبادی پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔ایک جانب کرونا نے قہر ڈھائے رکھا تو دوسری طرف بی جے پی کی بھگوا حکومت نے مسلم آبادی کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

(جاری ہے)

گاؤ رکشا،لو جہاد، متنازعہ شہریت قانون،قرآن پاک کی تعلیم کی بندش اور دہلی فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو خون میں نہلا کر امریکی صدر ٹرمپ کا استقبال کیا گیا۔

کرونا کی آڑ میں تبلیغی جماعت کے اراکین کو پابند سلاسل کر دیا گیا اور مسلم تعصب و نفرت کی انتہا دیکھئے کہ کس طرح ہسپتالوں،چوراہوں،گلیوں، بازاروں میں کرونا پھیلانے کا ملبہ مسلم طبقے پر ڈال کر انہیں معاشی،سماجی طور پر تنہا کرنے کی سازش رچی گئی۔
بھارتی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی اور ایک اخبار نے کارٹون چھاپا جس میں کرونا وائرس کو ایک مسلمان دہشت گرد کے روپ میں دکھایا گیا اور یہ سب آر ایس ایس کے مذموم منصوبے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

بی جے پی مسلم شناخت و تشخص کے خاتمے کیلئے سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔بابری مسجد بھی چھین لی گئی جبکہ دہلی مسلم کش فسادات 2020ء نے بھارتی سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی ہٹلر کے فاشسٹ نظریات پر عملدرآمد میں مصروف ہے اور نشانے پر مسلمان ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ کی آمد بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک بھیانک خواب ثابت ہوئی ہے ایک طرف تو امریکی صدر مودی حکومت کی مدح سرائی کرتے ہوئے ہندوستان پر امریکی نوازشوں کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری جانب بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کیخلاف احتجاج کرنے والوں کیلئے دہلی کو سلاٹر ہاؤس بنا دیا گیا۔

مودی کے حامیوں نے شہریت بل کیخلاف احتجاج کرنے والوں پر حملہ کر دیا۔ہندو انتہا پسند بلوائیوں نے احتجاجی دھرنا دینے والوں پر پتھراؤ کیا۔ہندو انتہا پسندوں نے مسلم اکثریتی علاقوں جعفر آباد اور موج پور میں مسلمانوں کی کئی بستیاں نذر آتش کر دیں اور بازاروں میں موجود متعدد دکانوں کو آگ لگا دی۔
یہ سیکولر بھارت کی پولیس کا شرمناک کردار بھی بے نقاب ہو گیا کہ جہاں پولیس بھی انتہا پسند ہندو بلوائیوں کے ساتھ مل کر گھر اور دکانیں نذر آتش کرتی رہی۔

متعدد پیٹرول پمپس، گاڑیوں اور سرکاری املاک کو جلا دیا گیا۔ہندوستان میں فسادات اور مسلم مخالف حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔مختلف مواقع پر مختلف شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے۔مساجد،مدارس اور دیگر مذہبی مقامات پر حملہ ہوتا رہا ہے اور ہر جگہ فساد میں بھارتی پولیس کا متعصبانہ کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پولیس دنگائیوں پر قابو پانے کے بجائے اس کا ساتھ دیتی ہے۔

خواہ جمشید پور فساد ہو۔نیلی کا قتل عام ہو۔ بھاگلپور فساد ہو یا پھر 2002ء کا گجرات قتل عام۔ہر ایک فساد اور قتل عام میں مسلمانوں کا جانی،مالی نقصان ہوا ہے۔یہی معاملہ 2020ء کے دہلی فساد کا بھی ہے۔یہاں بھی مسلمانوں پر یکطرفہ حملہ ہوا۔اس پورے فساد میں دہلی پولیس نے بھی دنگائیوں اور فسادیوں کا ساتھ دیا۔ اسی کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی تحریک بھی چلتی رہی۔

آر ایس ایس اور سنگھی جماعتوں کے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہندوؤں میں ایسے پیغامات تقسیم کئے جن میں مسلمان تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی اور ان کو ”ملک دشمن“ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان کی دکانوں سے سامان کی خریداری بند کرنے کو کہا گیا تھا۔اگر مستقبل میں کوئی ایسا قانون آئے جس میں کہا جائے کہ حکومت مسلم محلوں میں سڑک کی تعمیر نہیں کرائے گی،پانی،بجلی کی سہولت نہیں دے گی،صرف ہندوؤں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی تو کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہیے۔


ظاہر ہے کہ بھگوار پریوار کے نظریات کا حصہ ہے مسلم دشمنی۔سوشل میڈیا نے ہی 70 فیصد ہندو آبادی کو یہ ذہن نشین کرایا کہ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے ہندوؤں کو خطرہ ہے۔ایسے ہی ایک فرضی خبر جو غیر ذمہ دارانہ سروے کی بنیاد پر عام کی گئی تھی کہ 2050ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہو گی۔اس خوف کو اس قدر عام کیا گیا کہ مسلم دشمنی میں شدت پیداہونے لگی۔

ہندوستان میں سوشل میڈیا اور متعدد بکاؤ الیکٹرانک میڈیا چینلز وہی رول ادا کر رہے ہیں جو میانمار میں مسلمانوں کے خلاف کرتے ہوئے ساڑھے چھ لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی کرنے والے مسلم نوجوان طلبہ کو گرفتار کیا گیا جن میں، وکلاء،سینیئر مدیران ،سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے اور ان میں سے متعدد کو اپنے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیا گیا وہ ہنوز قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

جن میں یونیورسٹی طالبہ صفورا زرگر بھی نمایاں ہے انہیں حاملہ ہونے کے باوجود حراست میں لے کر دہشت گردی کے مقدمے کے تحت سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ کر بھارتی وزیراعظم آر ایس ایس کے پرچارک نے سیکولر بھارت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
بھارتی شرانگیزی تو یہ ہے کہ 5 اگست کشمیر کو ہڑپنے کی سیاہ تاریخ کو ہی رام جنم بھومی کا سنگ بنیاد کے لئے منتخب کرنا دراصل کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے اور 5 اگست 2020ء کو مودی کے ہاتھوں بت کدے کے پہلے پتھر کی تنصیب ہندوستان میں رام راج،ہندو راشٹر اور اکھنڈ بھارت کی جانب پہلا قدم ہے۔

بھارت میں کئی دہائیوں سے بالخصوص بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے رام راج کا مسلسل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اکھنڈ بھارت کی سرحدیں تین سو قبل مسیح کے بھارت میں قائم موریہ سلطنت کے حدود پر مشتمل ہو گی چندر گپت موریہ،موریہ سلطنت کا بانی تھا اور اشوک اعظم اسی سلطنت کا جانشین گزرا ہے۔دلت لیڈر امبیڈ کر کو بھی قومی ہیرو قرار دینا بنگالی مسلمانوں کی دربدری کا منصوبہ اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا شوشہ اسی مذموم مہم کا حصہ ہے۔

آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والا ہر فرد ہندو ہے دیگر قوموں کو بھی ہندو مذہب کا احترام کرنا ہو گا۔اس احترام کے تحت بھارت ماتا کی جئے سے لے کر ہندو تہواروں کو منانا اور دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنا شامل ہے۔اسلامی روایات کو فراموش کرنا بھی رام راج میں ہو گا اگر کوئی فرد اس سے انکار کرے گا تو اسے تمام شہری حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔

زعفرانی تنظیمیں مسلمانوں،عیسائیوں کو ہندو بنانے کی باقاعدہ مہم چلا رہی ہیں اس کے لئے کئی ہندو توا تنظیمیں مسلسل سرگرم ہیں۔نریندر مودی کی حکومت قائم ہوتے ہی آر ای ایس کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔کوئی بھی فیصلہ سنگھ پریوار کے بغیر نہیں ہوتا۔حساس شعبوں میں آر ایس ایس کے سیوکوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں تعلیمی کر دیا گیا ہے۔

بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن کیلئے تعلیمی اصلاحی کمیٹیاں بنائی گئی اور ان کے سربراہ آر ایس ایس کے منظور شدہ افراد ہیں۔پورے بھارت میں مرحلہ وار ہندوانہ نصاب تعلیم رائج کرنے کی پیش رفت جاری ہے۔نصاب کی تیاری ہر سطح پر ہو رہی ہے۔تاریخی کتابیں ازسر نو لکھی جا رہی ہیں۔ انڈین کونسل ہسٹریکل ریسرچ کی تشکیل نو کرکے اب اسے مکمل طور پر آر ایس ایس ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔

آر ایس ایس کے ہندی ترجمان پنج جانیہ کے سابق ایڈیٹر بلدیو شرما کو نیشنل بک ٹرسٹ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔
مسلم نوجوانوں کا مستقبل تاریک کرنے کیلئے بھارتی ریاست اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ نے”اتر پردیش ودھی ویرودھ دھرم سمیر پورتن پرتیش ادیش دیش 2020ء“ نامی قانون کی منظوری دی۔دوسری جانب”پریم یُدّھ“ کے نام پر ہندو فرقہ پرست تنظیمیں اس مسلسل سرگرم ہیں مسلم تعلیم یافتہ بچیاں ان کے نشانے پر ہیں ان کے ارتداد کا گھناؤنا منصوبہ منظر عام پر آیا ۔

جنوبی بھارت اس کا زیادہ کا شکار رہا،جس کی وجہ وہاں مخلوط ایجوکیشن میں مسلمان لڑکیوں کا تناسب زیادہ ہے اور وہ اس وقت ہندو فرقہ پرستوں کا آسان ٹارگٹ ہیں۔بھارت میں مدارس پر شب خون مارنے کیلئے مختلف حیلے اور بہانے آزمائے جا رہے ہیں۔کبھی قدامت پسندی،کبھی جہالت کبھی تو دہشت گردی کی تعلیم دیے جانے کا اڈہ کہہ کرکے مدارس کی عظمت کو پامال اور اس کی تاریخ کو داغدار کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

آسام مسلم دشمنی میں مزید بڑھتے ہوئے میں قرآن پاک کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی۔بھارت نریندر مودی کے حالیہ اقدامات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مسلمانان ہند کو اپنے مذہبی تشخص اور تہذیبی انفرادیت سے محروم کرنے اور انھیں بھی برہمنی تہذیب میں ضم کر لینے کی کوشش جو پہلے کچھ احتیاط اور ہچکچاہٹ کے ساتھ کی جاتی تھیں وہ اب کھلم کھلا اور ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہی ہیں۔

بی جے پی کے دور میں اقلیتوں بلخصوص مسلمانوں پر مظالم کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا ہے اور ان کو مختلف اور نت نئے قوانین بنا کر ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔
آج امت مسلمہ پر جو حملے ہو رہے ہیں جو سازشیں رچی جا رہی ہیں جو ناپاک عزائم ہیں وہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکے ہیں۔ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زد پر ہے۔مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لالے پڑے ہیں نت نئی دھمکیوں سے سہانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے ۔

انصاف شرمسار ہے سچائی کو مٹایا جا رہا ہے حقیقتوں کو پروپیگنڈہ میں دبایا جا رہا ہے۔اسلام میں مذہب کا تصور دیگر اقوام کی طرح صرف چند عبادات اور رسوم و رواج تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق قرآن حکیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ الٰہی ہدایات اور خدائی رہنمائیاں پیش کرتا ہے،ان پر چل کر ہی انسان مذہب اسلام کا حقیقی ماننے والا کہلاتا ہے،انہی قوانین الٰہی اور ہدایات ربانی کا وہ حصہ جو ہماری انفرادی اور عائلی زندگی سے متعلق ہے مسلم پرنسل لاء کہلاتا ہے۔

جس میں مسلمانوں کی ذاتی زندگی خاندانی معاملات اور خاندان کے مختلف افراد کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے ان قوانین کو اُردو میں ”شخصی و عائلی قوانین“ اور انگریزی میں پرنسل لاء یا عائلی قوانین کہا جاتا ہے۔مختصر یہ کہ مسلم پرنسل لاء کا تعلق دین و شریعت سے ہے اور اس کی جڑیں قرآن و حدیث میں پیوست ہیں۔بھارت کے سیکولر دستور بنیادی حقوق میں مسلم پرنسل لاء کی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

اس کے باوجود مسلم پرنسل لاء میں مختلف حیلوں بہانوں اور چور دروازوں سے میں مداخلت کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی 370 کی تنسیخ اور رام مندر کی تعمیر کے بعد اب یکساں سول کوڈ کی باری ہے۔جن سنگھ اپنے تین کلیدی اہداف میں سے دو کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے اور 2021ء کے اختتام تک یکساں سول کوڈ کو نافذ کر دیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

India Ko Muslims Ke Liye Rohingya Banane Ka Mazmoom Mansoba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.