کشمیر نیا فلسطین اور آرٹیکل 370

بھارت نے کشمیر کی علیحدگی پسند تحریکوں اور کشمیر میں آزادی کے لیے جہاد کو بھی دہشت گردی میں ضم کردیا۔ ادھر پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہاتھا، بھارتی ایجنسیاں افغانستان کو Battle Field بنائے جہاں بلوچستان میں سورش کو ہوا دے رہی تھیں

Dr Affan Qaiser ڈاکٹر عفان قیصر پیر 12 اگست 2019

Kashmir naya Palestine aur article 370
 کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ ہے۔ مواصلات کا ہر نظام مکمل طور پر بند ہے اور ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد انہیں حقِ خود ارادیت یہ ملا کہ بھارت نے چپ کرکے آئین میں ایک ترمیم کرکے کشمیر کو فلسطین بنا دیا۔ کشمیروں کا حق کشمیر پر سے چھین لیا گیا۔اب وہاں بھارت کا قانون ہوگا،کوئی بھی بھارتی باشندہ وہاں پراپرٹی لے سکے گا، جائیداد بنا سکے گا اور یوں کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا گیا۔

تھوڑی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو سردار پٹیل کا تقسیم ہند کے وقت تین ریاستوں پر پاکستان میں شمولیت کا حق چھیننے کا کارنامہ یاد آئے گا۔
 تقسیم ہند کے وقت تین بڑی ریاستیں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ اور کشمیر پاکستان میں شامل ہونا تھیں۔ یہ مسلم اکثریت ریاستیں تھیں اور یوں ان کی شمولیت پاکستان میں بنتی تھی۔

(جاری ہے)

پٹیل کسی صورت حیدر آباد کو پاکستان میں شامل نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔

وہ اسے اکھنڈ بھارت کے پیٹ میں کینسر کہتے تھے یعنی اگر ایسا ہوجاتا تو بھارت کے بیچ میں ایک بہت بڑا پاکستان ہوتا اور یہ سردار پٹیل کو منظور نہیں تھا۔ پٹیل نے کسی طور حیدرآباد کو بھارت کا حصہ بنا لیا، اب کشمیر سے پٹیل کو زیادہ لینا دینا نہیں تھا،ویسے بھی اس کی سرحد پاکستان سے ملتی تھی اور اسی فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
 جواہر لال نہرو کسی طور کشمیر کو پاکستان میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور اس ضمن میں گاندھی اور شیخ عبداللہ نہرو کے ساتھ تھے۔

نہرو خود بھی کشمیری پنڈت تھا اور اس کا دل کشمیر میں بستا تھا۔ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کو شیخ عبداللہ اور نہرو کی دوستی سے ڈر تھا کہ اگر کشمیر بھارت کا حصہ بنا تو اس کی حکمرانی شیخ عبداللہ کے پاس ہوگی۔اسی لیے ہری سنگھ کشمیر کو بھارت میں نہیں دیکھنا چاہتا ،مگر وہ کسی طور پاکستان سے بھی الحاق نہیں چاہتا تھا۔ پاکستان اور بھارت میں کشمیر کو لے کر 1948ء میں پہلی جنگ ہری سنگھ کے مدد مانگنے پر ہوئی ، بھارت نے اپنی فوج جموں کشمیر میں گھسا لی اور یوں جموں کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہوگیا۔

پاکستان کے پاس اس جنگ میں آزاد کشمیر کا حصہ آیا۔ لائن آف کنٹرول کے دونو ں پار کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلسل تنازع کی وجہ بن گیا۔ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کیا ،جس میں کشمیر پر کشمیروں کا حق محفوظ رکھا گیا اور یہ بھی طے پایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ خود کشمیری کریں گے اور تب تک بھارت کو کشمیر میں کسی حکمرانی کا اختیار نہ ہوگا۔

آنے والے سالوں میں یہ معاہدہ بھارتی قانون میں آرٹیکل 370 کی شکل اختیا ر کرگیا۔اس میں کشمیر کو ریاست کے اندر ریاست کا درجہ حاصل تھا کہ جس میں کشمیر کا اپنا جھنڈا،اپنا آئین اور اپنی آزادانہ حیثیت حاصل تھی۔ کشمیر میں1955ء تک اپنا وزیر اعظم ہوتا تھا، یوں کسی طور کشمیر کا تشخص برقرار رکھا گیا۔
 یہاں بھارت انٹرنیشنل دباؤ اور یو این کے قوانین کے سامنے مجبور تھا۔

کشمیر کو رائے حق دہی استعمال کرنے اور پاکستان ،بھارت میں شامل ہونے یا علیحدہ ریاست بنانے کے لیے ریفرنڈم درکار تھا جس کا بھارت مسلسل انکار کرتا رہا۔ اسی سب میں کشمیر میں جہاد کا جنم ہوا اور اس کو لیڈ جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ نے کیا ۔ کہنے کو یہ ایک سیاسی تنظیم تھی، مگر یہ درحقیقت کشمیر کی آزادی کے لیے مجاہدین کی تنظیم تھی۔ بھارت آنے والے سالوں میں کشمیر میں فوج بڑھاتا رہا۔

 اسی سب میں پاکستان اور بھارت میں دو مزید جنگیں ہوگئیں اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، پھر ایٹم بم کی جنگ چھڑ گئی اور غریب ترین افراد پر مشتمل دو ریاستیں وہ پیسہ جو عوام کی فلاح پر لگنا چاہیے تھا، ایک نہ ختم ہونے والی جنگ پر لگاتی گئیں۔ پاکستا ن نے روس کے خلاف امریکہ کا افغانستان میں جو ساتھ دیا وہ بھی درحقیقت کشمیر حاصل کرنے کے لیے ہی کیا گیا اور روس کا 1989ء میں جب افغانستان سے انخلاء ہوا تو وہاں پیدا کیے طالبان کشمیر جہاد کے لیے پاکستان کے لیے تیار تھے، اس دور میں کشمیر جہاد اپنے عروج کو پہنچا، مگر بعد میں کشمیر میں آزادی پسند تحریکوں کے باہمی اختلافات اور نائن الیون نے ساری بساط ہی پلٹ دی۔

وہ طالبان جن کو پاکستان نے مہاجر بھائی کہہ کر اپنے گھروں میں داخل کیا تھا، اب امریکہ کے خلاف تھے اور پاکستان کو تورا بورا بننا منظور نہیں تھا۔پاکستان نے پھر امریکہ کا ساتھ دیا اور یوں پاکستان کی ہر گلی میں بارود پھٹنے لگا۔ پاکستان داخلی طور پر انتہائی کمزور ہوگیا، اکانومی برباد ہوگئی اور ستر ہزار لوگ امریکہ کی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے جو جنگ کبھی ان کی نہیں تھی۔

 اس عرصے میں بین الاقوامی طور پر جہاد پر دہشت گردی کا لیبل لگا،تو بھارت نے کشمیر کی علیحدگی پسند تحریکوں اور کشمیر میں آزادی کے لیے جہاد کو بھی دہشت گردی میں ضم کردیا۔ ادھر پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہاتھا، بھارتی ایجنسیاں افغانستان کو Battle Field بنائے جہاں بلوچستان میں سورش کو ہوا دے رہی تھیں ،وہیں پاکستان میں دہشت گردی کو بھی مکمل بھارتی اور اسرائیلی مدد حاصل تھی۔

اسی سب میں ہم نے کشمیر کاز پر سے اپنا مقدمہ ہار لیا اور بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا حق بین الاقوامی طور پر تسلیم کرانے کے لیے کسی طور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
 حال ہی میں جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ کے لیڈریاسین ملک کو تہاڑ جیل میں قید کرکے، کشمیر میں مزید فوج داخل کی گئی،وہاں سب بلیک آؤٹ کیا گیا، تاکہ پوری دنیا یہ نہ جان پائے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے ،اور 370 آرٹیکل ہٹا دیا گیا۔

کشمیر کا جھنڈا ختم، کشمیروں کا کشمیر پر حق ختم اور اس کو بھارت میں عملی طور پر شامل کرلیا گیا۔ ایسے میں پاکستان آج بھی اندرونی سیاست کا شکار رہا۔ اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان پر الزام لگانے کے علاوہ ایوانوں میں کوئی ہلچل نہ دیکھی گئی۔ کسی طور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کو ہمارا میڈیا بھی دنیا کو نہ دکھا سکا اور ٹرمپ کا ثالثی کا کردار ادا کرنے کا وعدہ بھی بیچ میں ہی رہ گیا،یا شاید یہ صرف دکھاوے کا ہی وعدہ تھا،گجرات فسادات کا موجد اور فاشسٹ انتہا پسند ہند و سیاسی جماعت بی جے پی کا بھارتی وزیر اعظم پہلے ہی اسرائیلی لابی کی مدد سے امریکہ کو اس سب میں اپنے ساتھ ملا چکا تھا۔

 یہ آرٹیکل ہٹانے سے کشمیر تنازعہ ختم ہوگیا؟ کشمیر اب بھارت کا حصہ بن گیا؟ پاکستان ایک بہت بڑی جنگ بغیر لڑے ہی ہار گیا؟ یا ابھی بہت بڑی ایٹمی جنگ ہونا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں ،جو پچھلے دنوں میں کئی بار مجھ سے پوچھے گئے۔ جواب ایک ہی ہے ،کشمیر تنازعہ اب فلسطین بن گیا اور بھارت کشمیریوں کا اسرائیل۔ بھارت یہ سب کرنے سے پہلے یہ بھول گیا کہ ستر سال آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیری اور اپنے لیے سکون کے سانس کی زندگی کی ایک ایک بوند مانگنے والے کشمیری اپنی ریاست پر سے اپنا حق بھارتی فوج کی دہشت گردی اور بلیک آؤٹ میں ختم نہیں ہونے دیں گے۔

کشمیر پاکستان کا رہے نہ رہے، مگر کشمیر کشمیریوں کا ہے اور یہ بات یہ فیصلہ کرنے سے پہلے مودی سرکار بھول گئی۔ انہیں کشمیر چاہیے،کشمیری نہیں۔
یہ فلسطین فارمولہ ہے اور یہ کشمیر پر کسی طور لاگو نہیں ہو گا۔ ستر سالوں میں جب کشمیر میں جہاد عروج کو پہنچا تو پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا، مگر اس سب کے باوجود کشمیر میں جہادکم نہ ہوا۔

کشمیری آزادی چاہتے ہیں اور آئے روز کشمیریوں کی طرف سے بھارتی فوج پر برسائے جانے والے پتھر او ر ان کی طرف سے پیلٹ گولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہاں ایک جنگ جاری ہے اور یہ جنگ تب تک جاری رہے گی،جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوجاتا۔ اب رہی بات پاکستان کی تو کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے اور پاکستان اپنے پینتیس ملین ایکٹر کو ذرخیز بنانے والے دریاؤں کی جنم بھومی کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔

گلگت بلتستان ،آزاد کشمیر پر پاکستان کا حق اس آرٹیکل کے اٹھانے کے بعد مزید بڑھ گیا ہے، ساتھ ہی پاکستان دہشت گردی پر بھی کسی طور پر قابو پا چکا ہے۔ جوں ہی پاکستان میں اکانومی مضبوط ہوگی،پاکستان اور زیادہ طاقت کے ساتھ، کشمیر کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ دنیا جتنی مرضی آنکھیں بند کرلے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ کشمیر پوری دنیا میں نیوکلئیر وار escalation زون ہے۔

یعنی ایک ایسا تنازعہ جو پوری دنیا کو تباہ کرسکتا ہے۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کو ہتھیار بیچنے کے لیے کشمیر کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بند کرنا ہوگا۔ مودی سرکار سے کوئی توقع نہیں ،مگر انہیں پاکستان اورکشمیریوں کے ساتھ ایک میز پر آنا ہوگا، اس میں ٹرمپ ،یو این کو ثالثی کا کردار ادا کرنا ہوگا، نہیں تو یہ تنازعہ اس خطے کی عوام کے فلاحی وسائل بارود میں جھونکتا رہے گا اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اس خطے کو ہی بارود کے دھوئیں میں اڑا کر راکھ کردے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir naya Palestine aur article 370 is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.