کیا پاکستان بڑی تبدیلی کیلئے تیارہے ؟

اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں سفارتی پیش قدمی روس کے بعد صہیونی منصوبے کے راستے میں بڑی رکاوٹ پاکستان ہے

منگل 13 نومبر 2018

kya Pakistan barri tabdeeli ke liye tayar
 محمد انیس الرحمن
گذشتہ دنوں پاکستان میں توہین رسالت کی مرتکب عیسائی عورت آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے رہائی کے اعلان کے بعد جو ہنگامہ برپا ہوا اس نے تمام ملک کو جام کر کے رکھ دیا تھا۔ بڑی مشکل
سے حکومت اور مظاہرین کی قیادت کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا جس کے بعد صورتحال معمول پر آنے لگی۔ لیکن اس شور شرابے میں ایک اور بڑا سانحہ رونما ہوگیا یعنی جمعیت علماء اسلام (س) کے رہنما اور مشہور دینی درس گاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم اعلی مولانا سمیع الحق کو نامعلوم افراد نے ان کے راولپنڈی والے گھر میں
بے دردی سے قتل کر دیا۔

ابتدائی تفتیش میں پولیس کا موقف تھا کہ یہ ذاتی دشمنی کی بنا پر بھی ہوسکتا ہے لیکن مولانا سمیع الحق شہید کے اہل خانہ
نے ذاتی دشمنی کے تاثر کی نفی کر دی۔

(جاری ہے)

ویسے بھی آٹھ دہائیوں پر مشتمل مولانا کی عملی زندگی سے واقف حلقے اس بات کو جانتے ہیں کہ ان کی
کسی سے کوئی ذاتی دشمنی ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کے بعد شکوک کی انگلیاں ان بین الاقوامی قوتوں کی جانب اٹھتی ہیں جو افغانستان میں افغان طالبان کے ہاتھ برسوں سے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔

لازمی بات
ہے کہ اس میں امریکہ اور امریکہ نواز کابل انتظامیہ سرفہرست ہے۔ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل افغان طالبان کے ایک حملے میں افغان فوج کا ایک اہم کمانڈر عبدالرزاق کچھ امریکیوں اور افغان فوجیوں کے ہمراہ مارا گیا تھا تو یہ اس کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مولانا سمیع الحق کو ایک دنیا افغان طالبان کے استاد کے طور پر جانتی ہے۔

اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل کابل انتظامیہ امریکی آشیر باد سے مولانا کے در پر حاضرتھی کہ کسی طرح سے افغان طالبان کی قیادت کو براہ راست مذاکرات کے لئے راضی کیا جائے لیکن اس معاملے میں مولانا نے پڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ” میرے کمزور کاندھے اب اس ذمہ داری کے متحمل نہیں ہوسکتے“ لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ملا عمر کے بعد سے جو بھی افغان طالبان لیڈرشپ سامنے آئی ہے ان کے نزدیک مولانا سمیع الحق کی بہت عزت توتھی لیکن افغانستان کے اندرونی معاملات میں وہ اپنے فیصلے خود کرتے
تھے۔

یہی صورتحال تاحال جاری ہے جبکہ خود مولانا کا افغانستان کے حوالے سے وہی موقف تھا جو افغان طالبان کی لیڈرشپ کا تھا کہ پہلے افغانستان سے تمام خارجی عسکری قوتیں نکلیں اس کے بعد مذاکرات کئے جائیں گے۔ اس لئے ان کا یہ موقف بھی امریکہ اور کابل انتظامیہ کے لئے تکلیف دہ تھا، اس پر نیٹو کے اجلاس میں افغان طالبان نے جو کارروائی ڈالی تھی اس نے امریکہ اور کابل انتظامیہ کو بری طرح ہلا دیا تھا اس لئے ممکن ہے کہ مولانا سمیع الحق کاقتل ان قوتوں کی جانب سے افغان طالبان کے حمایتی حلقوں کے لئے ”پیغام“ ہو۔

۔۔!!
لیکن افغانستان کے اندر کے حالات یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ اور افغان انتظامیہ یا ان کے علاقائی اتحادی کچھ بھی کر لیں معاملات کا
اونٹ اس کروٹ نہیں بیٹھ سکتا جو امریکہ یا اشرف غنی انتظامیہ چاہتی
ہے۔ وطن عزیز جو پہلے ہی معاشی گراوٹ کا شکار ہے ایسی صورتحال میں ملک میں کسی بھی قسم کا انتشار یا تصادم ملک اور قوم کے حق میں نہیں۔

ملک کے اندر کر پٹ سیاسی مافیا بھی یہی چاہتا ہے کہ وطن عزیز میں انتشار کی کیفیت ہوتا کہ حکومت اور ادارے ان کے جرائم کی جانب توجہ نہ کر سکیں۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب مشرق وسطیٰ کی آگ مزید بھڑکنے کے لئے تیار کی جارہی ہے تا کہ اس کی آنچ خطے سے نکل کر جنوبی ایشیا افغانستان اور چین تک پہنچے۔ عرب صحافتی ذرائع کے مطابق امریکہ اور اس کے عالمی صہیونی اتحادی ایک مرتبہ پھر مشرق
وسطیٰ میں ایک بڑی عسکری کارروائی کے لئے پرتول رہے ہیں۔

جنگ کاطبل بج رہا ہے اورحقیقی ”عالمی جنگ“ سے پہلے کی ابتدائی جنگ اپنے منطقی انجام کوپہنچ رہی ہے۔ شام میں بشارالاسد جس کا تعلق شام کے ایک اقلیتی فرقے سے ہے بظاہر ایک لبرل انتظامیہ کے طور پر جانا جاتا رہا مسلمانوں پر جو ظلم وستم مغربی صہیونی صلیبی قوتوں نے ڈھایا ہے سفاک بشار الاسد کی انتظامیہ بھی اس سے کسی طور پچھے نہیں رہی۔ القاعدہ کا نام لے لے کر امریکہ اور یورپ نے جس قدر اسلام اور مغرب مخالف مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا وہی کام اسد خاندان بھی گذشتہ چار دہائیوں سے شام میں کرتا آیا ہے، بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد نے جو لان کا علاقہ بغیر لڑے اسرائیل کے حوالے کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی بشار الاسد کو” اسرائیل کا دوست“ تصور کیا جاتا ہے پھر ایسی کیا وجہ ہوئی کہ امریکہ اور سارے مغرب کی نام نہاد انسانیت بشار الاسد کے خلاف کمر بستہ ہو گئے؟ مغربی صہیونی کارپوریٹیڈ میڈیا اور مغربی سرمایے پر پلنے والا لبرل عرب میڈیا مصر کے معاملے میں اندھا ہو گیا تھا لیکن شام کے معاملے میں اس نے آنکھیں پوری طرح کھولے ر کھیں۔

۔۔ کام دونوں طرف ایک جیساہی ہور ہا ہے۔۔!! ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ ہمارے قارئین کو اندازہ ہونا چاہئے کہ اس ”کیوں“ کو سمجھنے کے لئے ہمیں صرف بلاد شام ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے معاملات کو تاریخی حوالے سے سمجھنا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ شام میں بھڑ کنے والی آگ صرف شام تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ آگ اب شام کے دونوں جانب اہم دوملکوں یعنی لبنان اور ترکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرے گی اور ایسا ہی ہورہا ہے جبکہ عراق تا حال جنگ کی آگ
سے نجات نہیں پا سکا ہے۔

یہ تینوں اہم ممالک شام کے گرد بستے ہیں اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ شام میں بھڑکنے والی آگ اب رکنے والی نہیں ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نیٹو کے صہیونی صلیبی اتحادکی مدد سے جس قسم کے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہیں وہ کسی طور بھی امن کی جانب گامزن نظر نہیں آتے بلکہ ان اقدامات سے ایک طرح سے جلتی پر تیل ڈالا جارہا ہے۔
جہاں تک ترکی کی صورتحال ہے تو اس وقت بھی ترک حکومت کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔

ایسا امریکہ کے اشارے پر کیا جارہا ہے کیونکہ ترکی کی حکومت نے مصر میں ہونے والے مظالم میں سب سے زیادہ آواز اٹھائی تھی۔ شام کا قصہ پاک کرنے کے بعد سب سے پہلا نشانہ تر کی ہی بن سکتا ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل مستقبل کے بڑے دجالی منصوبے
کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں اس سلسلے میں انہیں سب سے زیادہ روس کی جانب سے عملی مزاحمت کا سامنا ہوگا اس لئے خطے میں روس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بڑی کر دریاست کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ موجودہ جغرافیائی تفریق کے حساب سے کردستان کا وسیع علاقہ مشرق وسطیٰ کے چار ممالک کے درمیان تقسیم ہے۔ جس میں سے ایران، عراق، ترکی اور شام شامل ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ چاروں ممالک ایک ہی قسم کے تنازعہ کا حصہ بنادیئے گئے ہیں۔ اسے ہم اس ”جدید مشرق وسطیٰ“ کا نقشہ بھی کہہ سکتے ہیں جو بش دور میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن اس وقت مسلمان محققین اور صحافی اسے صرف مقبوضہ فلسطین تک محدود سمجھتے تھے جبکہ درحقیقت یہ کردستان تک پھیلا ہوا تھا اور اب جوں جوں مشرق وسطیٰ کے حالات مزید خراب ہورہے ہیں ویسے ہی یہ منصوبہ بھی کھلتا جارہا ہے۔

یقینی بات ہے کہ ایک مضبوط ترک ریاست کی موجودگی میں جنوبی ترکی سے منسلک کر دستان کا علاقہ اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہی صورتحال شام کے ساتھ تھی اس لئے شام کے حالات کس جانب
 گامزن ہیں وہ اب کوئی چھپی ہوئی حقیقت نہیں رہی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین اس سلسلے میں ایک خفیہ آپریشنErgenekon Operation کے نام سے شروع کئے ہوئے ہیں۔ جس کے تحت ترکی کی ریاست کو ایک اکائی کی بجائے وفاقی نظام کے تحت کردیا جائے جہاں پر بہت سی قومیتیں بڑے گروپوں کی شکل میں اپنے اپنے علاقے کا نظم ونسق چلا لیں۔

(غور کیا جائے بالکل ایسے ہی حالات امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں نے پاکستان میں پیدا کر دیئے تھے بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں قومیت اور مسلکوں کی بنیاد پر ایک طرح سے جنگ چھیڑ دی گئی تھی)۔ عرب صحافتی ذرائع
کے مطابق ترکی میں ایک این جی Open Society Foundation کے نام سے عالمی سطح پر معروف امریکی صہیونی
تاجر جارج سوروس نے قائم کی تھی۔

یہ وہی جارج سوروس ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عالمی صہیونی حکمران خاندان روتھ شائیلڈ کے فرنٹ مینوں میں سے ایک ہے اسے ہنری کسنجر کی آشیر باد بھی حاصل ہے اور چند برس قبل یہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کر چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ تر کی میں ایک این جی او کے ذریعے ایک بڑے فتنے کی آبیاری کرتا رہا ہے اس کے بعد ترک صحافت میں ترکی میں ایک بہت بڑے جرائم پیشہ نیٹ ورک کی تحقیق کے دوران اس این جی او کا نام بھی لیا جاتا رہا۔

ذرائع کے مطابق شام کے حالیہ واقعات سے فائدہ اٹھا کر اسے
کسی نہ کسی طرح ترکی کی جانب دھکیلنا ہے۔ اسی حوالے سے ترکی کی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ شامی سرحد کے قریب واقع شہر”ادانہ“ میں موجود امریکی قونصل جنرل کو ملک بدر کیا جائے کیونکہ وہ وہاں ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جس کی وجہ سے جنگ ترکی کے علاقے تک پھیل سکتی ہے۔


امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ تھا کہ شامی حکومت کو گرا کر یہاں پر مقامی اسلام پسند قوتوں کو پہلے کچھ عرصہ کے لئے برداشت کیا جائے اس کے بعدان کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کر کے امریکہ اور اسرائیل نواز حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو شام کے زیر قبضہ کردستان
سے بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار ہو جبکہ عراق کے زیر قبضہ کردستان پہلے ہی امریکہ اور اسرائیل نواز عراقی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے۔

شام میں روس نواز حکومت گرا کر” گر یٹر کردستان“ کی بنا رکھی جائے شمالی عراق جو کردستان پرمشتمل ہے اس کے لیڈر پہلے ہی اس منصوبے میں اسرائیل کے ساتھ ساز باز کر چکے ہیں۔
جہاں تک ترکی کاتعلق ہے تو ترک عوام کی اکثریت میں کسی طور بھی اسرائیل، امریکہ اور نیٹو کو پسند نہیں کرتے۔ اس سے پہلے ترک عوام امریکہ کے میزائل شیلڈ پروگرام کی ترکی میں تنصیب پر سخت احتجاج کر چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال کو بنیاد بنا کر امریکہ اور اسرائیل اس صورتحال سے پوری طرح استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ جہاں تک نسلی گروپوں کا تعلق ہے تو
کر دترک آبادی کا 25 فیصد ہیں جبکہ دیگر چھوٹے نسلی گروپ جن میں عرب، آرمینیائی، آذربائجانی اور آسیر ین شامل ہیں یہ بھی 20 سے 25 فیصد کہلاتے ہیں۔
اس مختصر سے جائزے کے بعد اب اس اصل صورتحال کی جانب آتے ہیں جس میں شام میں امریکہ کو جان بوجھ کر راستہ دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال در حقیقت روس اور چین کے سامنے بند باندھنے کا بڑا اہتمام ہے۔ ہنری کسنجر پہلے ہی ایک امریکی اخبار کو یہ بیان دے چکا
ہے کہ” اگلی جنگ“ میں اسرائیل نصف سے زائد مشرق وسطیٰ پر قابض ہوگا یعنی مشرق و سطیٰ کا وہ حصہ جو تیل اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے اسرائیل کے قبضے میں چلا جائے گا۔

چند برس قبل” عرب
 اسپرنگ“ اور جان بوجھ کر عالم عرب میں عوامی طوفان کھڑا کرنے کا حقیقی مقصد اس” اصل جنگ“ کی تیاری تھا جو ان تنازعات کے بطن سے جلد ہی جنم لینے والی تھی اس لئے یہ عرب اسپرنگ نہیں بلکہ” یہود اسپرنگ“ تھا کیونکہ خلیج کا وہ تیل جو زیادہ تر روس اور چین کو بھی درکار ہے اس پر تصرف کی خواہش ایک بڑے تنازعے کو جنم دے گی اسی لئے وہ امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کے خلاف مشرق و سطیٰ میں مزاحمتی پالیسی اختیار
کئے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب روس کو بشارالاسد سے زیادہ شام میں اپنی کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے غرض ہے کیونکہ اگر شام میں روس اور چین مخالف انتظامیہ آ جاتی ہے تو روس کو بحیرہ روم میں طرطوس کی بندرگاہ کے طور پر جو واحد سہولت میسر ہے اس کے بھی ہاتھ سے نکل جانے کا قوی خدشہ ہے اور اگر امریکہ اور اسرائیل نیٹو کی مدد سے اپنے دجالی منصوبے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو روس اور چین کے پاس اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہوگا۔

دنیا میں اس وقت تین Ruling Capitalsہیں یعنی لندن، اس کے بعد واشنگٹن اور اب یہی درجہ مقبوضہ یروشلم کو حاصل ہونے جارہا ہے لیکن اس مقام کو حاصل کرنے سے پہلے اسرائیل کو توانائی اور طاقت کے مصادر اپنے ہاتھ میں لینا ہیں، امریکہ اسی دن کے لئے پولینڈ میں میزائل شیلڈ منصوبے پر عمل چاہتا تھا تا کہ مستقبل میں جب اسرائیل اپنی حدود سے باہر نکل کر ایک طرف نیل کے مشرقی ڈیلٹا تک اور دوسری جانب عراق اور خلیجی ممالک کے تیل کے ذخائر کا رُخ کرے تو ردعمل میں روس کے بیلاسٹک میزائلوں سے اسرائیل کو محفوظ رکھنے کے
لئے پہلے سے ہی میزائل شیلڈ منصوبے کے تحت اس کا دفاع مضبوط بنایا جا سکے۔

لیکن پولینڈ میں روس نے اس منصوبے کی سخت مخالفت کی اور امریکہ کو اپنے بڑھتے قدم روکنا پڑے اس کے بعد روس کے پہلو میں واقع جارجیا میں اس منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہاں روس
نے کمال جرات کا مظاہرہ کر کے اپنی فوجیں داخل کر کے امریکہ اور اسرائیل کو بے بس کر دیا تھا اب آزاد کردستان کی ریاست ہی میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے تا کہ اسرائیل کوشمال سے آنے والے میزائلوں کی زد سے محفوظ رکھا جا سکے۔

شام میں مقاصد حاصل
کرنے کے بعد اسرائیل کے لئے فورا عرب ممالک کے تیل کی جانب رخ کرنا مشکل ہوگا، اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان
کے جوہری ہتھیار بنیں گے اسی کے سد باب کے لئے امریکہ نے نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر افغانستان کا رخ کیا تھا اور پلان بی کے تحت مشرف انتظامیہ سے لا جسٹک سہولت حاصل کر کے کراچی سے چمن کی
بندرگاہ تک نیٹو اسلحے کی ترسیل کی راہ داری حاصل کی گئی تھی۔

اسی مقصد
کے لئے افغانستان میں نیٹو فوجوں کو لایا گیا تھا تا کہ بھارت کو خطے میں بڑا کردار سونپ کر پاکستان کی گردن کے گردپھندہ سخت کیا جائے اور پاکستان کے جوہری ہتھیار تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں کا تحفظ نہ کرسکیں۔ اس سلسلے میں بھارت خطے میں اسرائیل کے ایما پر ”بڑے
کردار“ کے لئے پر تول رہا تھا۔
اس وقت جبکہ پاکستان کی سیاست اور الیکٹرانک میڈیا میں سیاسی نوٹنکی عروج پرتھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی بھی عالمی سطح پر اس تبدیلی سے واقف نہیں۔

حالانکہ اس وقت پاکستان میں اس قسم کے موضوعات زیر بحث ہونے چاہئیں کہ
”امریکہ اور اسرائیل کے مشرق وسطیٰ میں عزائم کیا ہیں؟ پاکستان مشرق وسطیٰ میں آنے والی بڑی تبدیلی کے وقت کہاں کھڑا ہوگا؟ امریکہ اور اسرائیل بھارت کو افغانستان میں بڑا کردار دینے پر کیوں بضد تھے؟ کیا بڑے امتحان کے وقت پاکستان اپنے دیرینہ دوست ملک چین کی توقعات پر پورا اتر سکے گا؟ کیا پاکستان کو امریکہ کی معاشی بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے چین، روس اور جنوب مشرقی ایشیا کی منڈیوں
 کا رخ کرنا چاہئے؟ دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے لئے ہم نے اپنی قوم کو کتنا تیار کیا ہے؟
لیکن کتنے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے میڈیا کے بڑے حصے کو ایک نوٹنکی بنادیا گیا یہاں کیا موضوعات زیر بحث رہے۔

۔۔ کیا
لڑکی کی شادی بغیر دلی کی مرضی کے ہوسکتی ہے؟ کیا پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا؟ کیا قائد اعظم نے لبرل پاکستان بنایا تھا؟ پاک بھارت تجارت خطے میں ترقی کا سبب ہوگی؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہیں ہمارے” قومی“ ذرائع ابلاغ کے موضوعات۔۔۔ دنیا کہاں جارہی
ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔ پاکستانی قوم کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل مشرق و سطیٰ میں ترکی کے ساتھ بھی ہاتھ کر کے ایک گریٹر کر در یاست کا منصو بہ تشکیل دے چکے ہیں جس کا واحد مقصد روس کی جانب سے ایک بڑی اور اہم روس مخالف ریاست کا قیام ہے امریکہ روسی دباؤ پر جو کام پولینڈ اور جارجیا میں نہیں کر سکا وہ اب کرد ریاست میں کرنیکا ارادہ رکھتا ہے میزائل شیلڈ کا منصوبہ اس
ایک ہدف کی اہم ترین کڑی ہے۔

اسرائیل اپنے وجود کونیل کے مشرقی ڈیلٹا تک کے علاقے کو شامل کئے بغیرنا مکمل سمجھتا ہے جس میں پوراصحرائے سینا کا علاقہ شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل سینا
کے اس علاقے میں دہشت گردی کی وارداتیں کروا کر خود اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبے بنارہا ہے جبکہ اس اعانت کے لئے
لیبیا میں موجودنیٹو عسکری دستے اور فضائیہ تیار بیٹھی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے اس مختصر سے منظر نامے کو دیکھنے کے بعد اب اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہ جاتا ہے کہ دنیا جلد ہی کس قسم کی صورتحال سے دوچار ہونے جارہی
ہے۔۔۔۔نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکہ کی قیادت میں اہم مسلم ملکوں کی فوجوں کے ذریعے
 ان اسلامی تحریکوں کے خلاف کریک ڈاؤن کروایا گیا جو مستقبل میں اسرائیل کے عسکری منصوبوں کے سامنے دیوار بن سکتی تھیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے جلد انہیں بھی سب کچھ سمجھ آنا
شروع ہوجائے گا اگر ہم آج مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا حال دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے عسکری اداروں نے کس قدر بے جگری سے ملکی استحکام کے لئے قربانیاں دی ہیں۔

خطے کی اس صورتحال کے بعد پاکستان میں امن ایک معجزے اور نعمت سے کم ہیں جسے ہر صورت برقرار رکھنا ہوگا۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اغیار کے تنخواہ داروں اور معاشی دہشت گردوں کا جلد از جلد قلع قمع کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kya Pakistan barri tabdeeli ke liye tayar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.