مہاجر سیاست پر پابندی

شہرنگاراں میں 30سال تک مہاجروں کے نام سے سیاست ہوتی رہی لیکن اب کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ باتیں ہورہی ہیں کہ کیا ایم کیو ایم کا باب بند ہونے والا ہے۔ اس دوران 10سالہ پلان تیار کرلیا گیا ہے

پیر 17 ستمبر 2018

mohajir siyasat par pabandi
شہزاد چغتائی
شہرنگاراں میں 30سال تک مہاجروں کے نام سے سیاست ہوتی رہی لیکن اب کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ باتیں ہورہی ہیں کہ کیا ایم کیو ایم کا باب بند ہونے والا ہے۔ اس دوران 10سالہ پلان تیار کرلیا گیا ہے جس پر 2028ء تک عملدرآمد ہوگا۔ 2028ء کے بعد کیا ہوگا یہ بات واضح نہیں ہے یہ سوال بھی کیاجارہا ہے کہ ایم کیو ایم کا خلاء کون پورا کرے گا۔

آئندہ 10 سال میں ایم کیوا یم کہاں کھڑی ہو گی‘ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ فی الحال تو ایم کیوا یم کی راہیں تاریک دکھائی دیتی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کو بساط لپیٹنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ 16سال پہلے بھی کراچی کی یہ جماعت نشیب وفراز کا شکار تھی۔ جون 92ء میں بھی 10سالہ پلان کے تحت الطاف حسین کے ساتھیوں کے خلاف آپریشن کیا گیا جس کے بعد تمام رہنما زیر زمین چلے گئے تھے ۔

(جاری ہے)

اس وقت مسلم لیگ برسراقتدار تھی محمد نواز شریف آپریشن کے خلاف تھے لیکن وہ مصلحت کے تحت خاموش رہے۔ اس وقت فائیو کور کے جی او سی منیجر جنرل سلیم ملک نے فاطمید فائونڈیشن میں صحافیوں کے ایک گروپ سے غیررسمی بات چیت میں کہا کہ ہم نے ایم کیوا یم کو 10 سال کیلئے دفن کردیا ہے۔ لیکن ایک سال کے بعد ایم کیوا یم اسپرنگ کی طرح اچھل کر میدان میں آگئی اورقومی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کراچی کی سیاست بھی کرتی رہی۔

2008ء میں آصف زرداری کو ایم کیو ایم نے صدر نامزد کر دیا‘ 10 سال کے بعد 2018ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کا 30سالہ سورج غروب ہوگیا اورکراچی کے سیاسی افق پر تحریک انصاف طلوع ہوگئی۔ویسے تو تمام سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کیلئے دروازے کھول دیئے ہیں لیکن تحریک انصاف خاص طورپرایم کیوا یم کے رہنمائوں کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔

سابق رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں جس کے ساتھ تحریک انصاف کے اندر نئے آنے والوں میں ایک کشمکش موجود ہے۔تحریک انصاف کراچی کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ فاروق ستار جیسے قد آور رہنما پی ٹی آئی کا حصہ بنے تو ان کی دکانیں بند ہوجائیں گی۔ تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی نے ڈاکٹر فاروق کی شمولیت کو ویٹو کردیا اورصاف صاف کہہ دیا کہ ہم ان کو نہیں لیں گے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک یہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار کے سب سے بڑے مداح تھے اور انہوں نے اپنے گھر دو ماہ تک مسلسل فاروق ستار اور مصطفی کمال کی جماعتوں کے درمیان انضمام کیلئے مذاکرات کرائے تھے۔

ویسے تو ملک میں کئی جماعتوں پر بھی لسانی لیبل ہیں۔ لیکن انہوں نے سیاسی لبادے اوڑھ رکھے ہیں اور وہ ڈھٹائی کے ساتھ لسانی سیاست بھی کرتی ہیں۔ سندھ اوربلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا ووٹ بنک نہیں ہے ایم کیوا یم کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھا گیا لیکن اس کی سیاست نہیں بدلی اس دوران آفاق احمد نے مہاجرقومی موومنٹ بنالی آفاق احمد مہاجرسیاست سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں وہ کہتے ہیں مجھ پر بہت دبائو ہے۔

اس کے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے درمیان کئی بار تنائو پیدا ہوا لیکن محمد نوازشریف نے ہمیشہ ایم کیو ایم کو اسپیس دیا اوراب بھی دونوں جماعتوں کے درمیان مثالی تعلقات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کراچی اور حیدر آباد کیلئے 30 ارب کے پیکج کا بھی اعلان کیا اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے کراچی کے مینڈیٹ کو ہڑپ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

لیکن حالیہ انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کی ایک نشست نہیں لے سکی ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا اور کراچی کی نشستوں کے طفیل وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ ایم کیو ایم اب خالی ہاتھ ہے۔ سیاسی حلقوں میں کئی ملین ڈالر کا یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ صدر عارف علوی وزیراعظم عمران خان اورگورنر اسماعیل کی خالی کردہ نشستوں پر کون جیتے گا۔

پہلے خیال تھا کہ یہ نشستیں عمران خان ایم کیوا یم کو واگزار کردیں گے تاکہ خیرسگالی کی فضا قائم ہو۔ لیکن اب نئی پالیسی کے واضح ہونے کا انتظار ہے پاکستان کی روایت کے مطابق ضمنی الیکشن میں حکمراں جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے۔ ایک جانب مہاجرسیاست اور کراچی کارڈ کی اجازت نہیں دی جارہی دوسری جانب حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پیپلز پارٹی نے سندھ کارڈ جیب سے نکال لیا ہے۔

وہ این ایف سی ایوارڈ میں حصہ مانگ رہی ہے اور سندھ کے حقوق کی بات کررہی ہے لیکن اضلاع کو فنڈ دینے کیلئے تیار نہیں۔ سندھ ہو یا وفاق عوام ہر جگہ پریشان ہیں 22 وزیراعظم اور13صدر بدل گئے لیکن عوام کو ریلیف نہیں مل سکا ۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں شخصیات کی تقدیر بدلتی ہے عوام کی نہیں۔ 22 وزراء اعظم اور 13 صدور کی تقدیر بدل گئی۔ کروڑوں لوگوں کے پاس گھر‘ خوراک‘ روزگار نہیں‘ 8 کروڑ لوگوں کی آمدنی ایک ڈالر سے کم ہے لیکن ایوان صدر میں رہنے والے ایک شخص کا خرچ 98 کروڑ سالانہ تھا ۔

ممنون حسین کی طرح عارف علوی نے زندگی میں سوچا نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیر عمران خان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے 20 دن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی 100 روز میں بھی نہیں آئے گی‘ 22کروڑ عوام کے حالات جیسے تھے ویسے ہی رہیں گے لیکن وہ دن دور نہیں جب عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور حکمرانوں کا سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mohajir siyasat par pabandi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 September 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.