ماسکو کا نفرنس اور افغانستان میں امریکی ناکامی

روس، چین،ترکی اور ایران ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے پر راضی، پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت جلد واپس لانے سے بحران سے بروقت نمٹا جا سکتا ہے

بدھ 29 اگست 2018

moscow conference aur afghanistan miain amrici nakami
 محمد انیس الرحمن
اطلاعات یہ ہیں کہ آنے والے چند دنوں میں بڑے واقعات رونما ہوں گے پاکستان کی حد تک 5ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائک پو مپیو اسلام آباد آرہے ہیں اس سے ایک دن پہلے یعنی4 ستمبر کو پاکستان میں صدارتی انتخاب کا دن ہے جبکہ اسی دن ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے ایک اہم کا نفرنس ہو نے جارہی ہے جس میں امریکہ اور کابل میں موجود اس کی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت شامل نہیں ۔

باقی تمام علاقائی فریق چین ،پاکستان ،ایران اور افغان طالبان اس کانفرنس میں شرکت کرنے جارہے ہیں ۔یہ ساری صورتحال ایک ایسے وقت میں رونما ہورہی ہے جب افغانستان میں افغان طالبان طاقت کا بھر پور مظاہرہ کررہے ہیں کابل حکومت انتشار کا شکا رہے ۔افغانستان کے مشیر برائے قومی امن حنیف اتمر مع سیکورٹی کا بینہ مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ امریکہ میں اس حوالے سے ٹر مپ انتظامیہ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ میں بڑا پھڈا پڑ تا نظر آرہا ہے ۔

(جاری ہے)

کابل ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کئے گئے انٹیلی جنس معاہدوں کی پا سداری نہ کرنا ،ماسکو کا نفرنس میں کابل حکومت کی عد م شرکت سے افغان قومی سلامتی کے مشیر کو تحفظات تھے ذرائع اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ افغان کا بینہ سے مزید استعفے بھی آسکتے ہیں جس کے بعد نئے وزراء کے لئے افغان پارلیمنٹ سے منظوری لینا مشکل ہو جائے گا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی نے امریکی دباؤ پر ماسکو کانفرنس میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا جس بنا پر بھی حنیف اتمر اور صدارتی محل میں فاصلے بڑھے اس کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ افغان حکام کے ساتھ علاقائی اور بین الا قوامی امور پر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں ۔

کابل کے بعض صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی حنیف اتمر کے روسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور ان کا ماضی بھی کچھ اس قسم کے حوالوں سے بھرا پڑا ہے اس لئے امریکہ کی جانب سے ایسی فضا پیدا کی گئی کہ وہ خود ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئندہ برس افغانستان میں ہو نے والے عام انتخابات میں حنیف اتمر حامد کرزئی اور حکمت یار کے حمایت یا فتہ مشتر کہ صدارتی امیدوار بھی ہو سکتے ہیں اور انہوں نے ان دونوں فریقوں سے تفصیلی مشاورت کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے ۔

بہر حال صورتحال کچھ بھی ہو آنے والے دنوں میں امریکہ کی مزید پریشانیاں بڑھنے جارہی ہیں کیونکہ افغانستان میں موجود سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھانے کے لئے افغان طالبان نے غزنی اور قند ھار سمیت مزید آٹھ افغان صوبوں پر قبضہ کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ایسی صورت میں انتشار کا شکار کا بل انتظامیہ اور اس کی مقامی عسکری قوت افغان طالبان کا کیسے سامنا کریں گے ۔

اس سوال کا جواب ہر گزرتے وقت کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اگر افغا ن فوجی دستے اس انتشار کی فضا میں کار آمد نہیں رہتے تو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو براہ راست خود اپنے عسکری قوت کو میدان میں جھو نکنا پڑے گا جس کے لئے مغربی اسٹیبلشمنٹ خاصی پریشان دکھائی دے رہی ہے کیونکہ منصوبے کے مطابق افغان مقامی فورس پر امریکہ اور اس کے صہیونی دجالی اتحادیوں نے اسی لئے بھاری سرمایہ کاری کی تھی کہ افغان طالبان کے سامنے مقامی افغان فورس کو ہی رکھا جائے تا کہ جتنا جانی نقصان ہو وہ مقا می افغانوں کاہو امریکہ اور یورپی فوجی افغانستان میں اپنے محفوظ اڈوں میں بیٹھ کر اس جنگ کا نظارہ کریں اور اگر زیادہ ضرورت ہو تو طیاروں اور جنگی ہیلی کا پٹروں کے ذریعے افغان فورس کا مدد پہنچائی جائے ۔

لیکن اگر کابل حکومت کے انتشار سے افغان نیشنل آرمی میں بددلی پھیل گئی تو یہی گمان کیا جارہا ہے کہ ان کی بڑی تعداد افغان طالبان سے نہ جا ملے۔دوسری مشکل یہ پیش آئے گی کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے فوجی دستوں کو خود میدان میں نکلنا پڑے گا اس صورت میں کیا ہو سکتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اس صورتحال میں امریکی خارجہ سیکرٹری مائک پو مپیو اسلام آباد پہنچ کر یقینا ایک مرتبہ پھر ڈومور کی رٹ لگا ئیں گے اور اسلام آباد کے بعد جب وہ نیو دہلی پہنچیں گے تو ان کے بیانات میں مزید سختی آسکتی ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان میں پی ٹی آئی کی نئی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ کس انداز میں اس صورتحال سے نمٹتی ہے ۔کیونکہ ایک طرف پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال اور صدارتی انتخابات ہیں ،تباہ حال معیشت کا عفریت دوسری جانب منہ کھولے کھڑا ہے ۔پاکستان کی کمزور معیشت جسے اس مقام پر پہنچا نے میں زرداری اور نواز حکومتوں نے گذشتہ دس برس کے دوران مل کر” کام“ کیا ہے، امریکہ کی معاشی بلیک میلنگ کا سامنا کر سکے گی ؟یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ امریکہ نے ترکی کے خلاف یہی ہتھیا ر استعمال کرکے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن تر کی میں چونکہ تعلیمی تناسب پاکستان کی نسبت زیادہ ہے وہاں کے عوام اپنی حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں اس لئے بڑی حد تک امریکہ کو ابھی تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے پاکستان کے پاس ایک ہی حربہ رہ جاتا ہے کہ وہ سعودی فارمولہ استعمال کرتے ہوئے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لے آئے ۔

افغانستان کے بعد اب ملکی صورتحال کی جانب بڑھتے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں وطن عزیز میں صدارتی انتخابات 4ستمبر کو منعقد ہونے جا رہے ہیں لیکن اپوزیشن تا حال اپنا مشتر کہ امیدوار لانے میں نا کام رہی ۔جبکہ آصف زرداری کے لئے پاکستان میں صدارتی انتخاب ہی ایک ایسی آڑرہ گئی تھی جس کی بنا پر وہ اپنا 2018ء والا کھیل کھیلنا چا ہتے تھے کہ صدر بن کر کر پشن کے تمام معاملات سے استثنیٰ حاصل کر لیا جائے ۔

اس سلسلے میں اعتزاز احسن کانام پی پی کے صدارتی امیدوار کے طور پر لانا در حقیقت ایک سیاسی چال تھی ۔زرداری کو معلو م ہے کہ ن لیگ اس نام کی مخالفت کرے گئی اس لئے آخری وقت میں ان کا نام واپس لیکر زرداری اپنا نا م پیش کردیتے لیکن ذرائع کے مطابق وہ اس میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔اب تازہ خبر یہ ہے کہ دونوں بھائی بہن یعنی زرداری اور فریال تالپور کراچی میں بیمار ہو چکے ہیں ۔

۔۔ہمارے سیاستدانوں کا یہ پرانا حربہ ہے کہ وہ عدالتوں کا سامنا کرنے کیلئے” بیمار“ ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں معاشی تبا ہی پھیر نے والے بھگوڑے اسحاق ڈار لندن میں دوڑ دوڑ کرسڑکوں پر چلتے ہیں لیکن پاکستان آنے کے لئے انہیں کوئی بیماری لگ جاتی ہے ۔آصف زرداری کے فرنٹ مین انور مجید کی گر فتاری کے بعد مورخہ 26ستمبر کو ان کی سندھ میں موجود مبینہ شوگر ملوں پر چھا پہ مار کر تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا اس کے ساتھ ساتھ ان شوگر ملوں سے بھاری تعداد میں سرکاری اور غیر سرکاری اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیا ہے جس کی فرانزک تحقیق کے لئے اسے اسلام آباد لایا جارہا ہے ۔

لیکن قارئین اپنا ریکارڈ درست رکھیں یہ تمام شوگر ملیں انور مجید کی نہیں بلکہ آصف زرداری کی ہیں ۔لیکن ابھی تک قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو طلب کرنے تک محدود ہیں اگر ان کی جگہ کوئی عام آدمی ہوتا تو جانے اب تک کیس کا معاملہ کہاں تک پہنچ چکا ہوتاا سے واضح طور پر قانون نافذکرنے والے اداروں کی کمزوری سمجھا جائے گا ۔ذرائع کے مطابق انور مجید نے اپنے بیان میں صاف اقرار کر لیا ہے کہ یہ شوگر ملیں ان کی نہیں بلکہ وہ توزرداری صاحب کے فرنٹ مین ہیں دوسری مصیبت یہ ہوئی کہ زرداری نے اپنے بیان حلفی میں ان شوگر ملوں کو ظاہر نہیں کیا ہوا ۔

دوسری جانب پنجاب میں سابقہ حکمران خاندان کے خلاف مزید تحقیقات کی اطاعات ہیں ۔لیکن ان تمام باتوں سامنے رکھ کر یہ بات بی مد نظر رکھی جائے کہ ن لیگ اور پی پی کی اعلیٰ قیادت آج بھی پہلے کی طرح مکمل رابطے میں ہے اور دونوں نے مل کر مشتر کہ صدارتی امیدوار لانے کا کھیل شروع کیا تھا لیکن یہ کھیل آخری لمحوں مین بری طرح نام ہو چکا ہے ۔جس کی وجہ سے نہ صرف اپوزیشن کے بڑے بڑے سیسہ گروں بلکہ خود پی ٹی آئی میں مو جود بہت سے ارکان پریشانی کا شکا ر ہیں کیونکہ آنے والے وقت میں احتساب کی زد میں انہوں نے بھی آنا ہے ۔

پاکستان کے داخلی معاملات کا ذکر کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ اس وقت پاکستان کے حالت کو علاقائی اور بین الا قوامی حالات کے تنا ظر میں دیکھنا ہوگا۔ سی پیک منصوبہ کے بعد روس او ر چین کسی صورت خطے میں انتشار نہیں دیکھنا چاہتے ۔اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے ساتھ جو سلوک امریکہ نے کیا ہے اس کے تنا ظر میں علاقائی سطح پر ڈالر سے نجات اور مقامی کرنسیوں میں تجارت کے فروغ کی فکر پروان چڑھ رہی ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے افغانستان میں جنگ کی جو بھٹی دہکائی ہوئی ہے اس کی چنگاریوں سے بچنے کے لئے روس اور چین تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔اس حوالے سے سب سے پہلے جو اقدامات کئے گئے تھے وہ زرمبادلہ کے ذخائر کو ڈالر کی بجائے سونے کی شکل میں رکھنے کی پالیسی تھی جو بہت پہلے چین نے شروع کی اس کے بعد روس بھی اس میدان میں کو د گیا تھا ۔ہم نے بہت پہلے ان ہی سطور میں بیان کیا تھا کہ آج سے بارہ یا چودہ برس پہلے جس وقت عالمی منڈی میں سونے کی قیمت اچانک آسمان تک پہنچ گئی تھی تو اس کا سبب کیا تھا ۔

یقینا دنیا میں کہیں کچھ ایسا ہوا تھا جس نے سونے کی قیمت کو پر لگادئیے تھے ۔یہ سب معاملہ اس وقت ہوا تھا جب چین نے تیزی کے ساتھ بین الا قوامی منڈی سے سونا سمیٹنا شروع کیا تھا ۔کیونکہ امریکہ اور یورپ کے صہیونی سرمایہ دار چاہتے تھے کہ چین کی تجارت کو گرانے کے لئے اچانک ڈالر کی قیمت گرادی جائے یقینی بات تھی کہ جس کے پاس ڈالر میں سب سے زیادہ ذرمبادلہ ہوتا وہی سب سے پہلے دیوالیہ ہوجاتا ۔

عالمی صہیونی سرمایہ داروں نے پہلے ہی سونے پر قبضہ جمار کھا ہے اس لئے کا غذ کی اس بے وقعت کر نسی ڈالر کے گرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔لیکن چینیوں نے اس سازش کی بو بہت پہلے سونگھ لی تھی اسی لئے انہوں نے یہ اقدامات اٹھائے ۔اس سلسلے میں ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ آنے والے وقت میں جن افراد نے پاکستان سے دولت لوٹ کر مغربی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے وہ بیٹھے بیٹھے گنگال ہو جا ئیں گے ۔

پاکستان کی نئی حکومت کو چا ہئے کہ وہ ڈالر کی بجائے سونے میں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر رکھنا شروع کردے ۔پاکستان اور بھارت میں یہ بات تمام دنیا میں منفرد ہے کہ یہاں خواتین میں سونے کا بہت استعمال ہے اسلئے سونے کی وافر مقدار اس خطے میں موجود ہے ۔آنے والے وقت میں خود یہ صہیونی مالیاتی سیسہ گر ڈالر کو ختم کر دیں گے تا کہ دنیا کو ایک بڑے مالیاتی بحران سے دو چار کرکے عالمی وسائل پر اپنا قبضہ مزید مستحکم کر سکیں ۔

قذانی اس لئے مار اگیا تھا کہ اس نے ڈالر کی بجائے سونے میں اپنے تیل کی قیمت وصول کرنے کا اعلان کیا تھا آج وہ لیبیاجہاں معاشی خوشحالی کا دور دورہ تھا باہمی خانہ جنگی سے کھنڈر بن چکا ہے ۔اس لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کو جلد از جلد پاکستان لا کر اسے سونے میں منتقل کرے اسی صورت میں پاکستان آئندہ آنے والے عالمی معاشی بحران سے نمٹ سکے گا ۔چین اورروس افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کررہے ہیں جو تمام افغانوں کو قابل قبول ہو انہی معاملات کو سلجھانے کے لئے ماسکو کا نفرنس کا انعقاد عمل میں لایاجارہا ہے ۔امریکہ کو چونکہ یہ سب کچھ منظور نہیں ا س لئے وہ اس راہ میں روڑے اٹکا کر کابل سمیت پورے خطے کو غیر مستحکم کرنا چا ہتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

moscow conference aur afghanistan miain amrici nakami is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.