مسلم لیگ (ن) کا مستقبل

سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی سمیت پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن پارٹی تنظیم کی کمزوری کے باعث ہچکولے کھا رہی ہے۔

جمعہ 7 دسمبر 2018

muslim league N ka mustaqbil
فرخ سعید خواجہ
سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی سمیت پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن پارٹی تنظیم کی کمزوری کے باعث ہچکولے کھا رہی ہے۔ادھر ایک طرف اس کو حکمران جماعت پی ٹی آئی کی دھانسو سیاست کا سامنا ہے اور دوسری طرف اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی تاحال مثالی تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف عام انتخابات سے پہلے میدانِ سیاست میں گرج برس رہے تھے۔ ووٹ کو عزت دلانے کی مہم نے انہیں پاکستان کی سیاست میں بلند ترین مقام پر فائز کردیا تھا ،بیگم کلثوم نواز کی علالت ان کیلئے پریشانی بنی لیکن اس کے باوجود ان کی مخالفین کے خلاف سیاسی جنگ جاری رہی ۔

(جاری ہے)

حتیٰ کہ ان کی لندن میں موجودگی کے دوران ہی یہاں عدالت سے انہیںسزا ہوئی تاہم دونوں باپ بیٹی گرفتاری دینے کیلئے لندن سے لاہور چلے آئے، ان کا ارسطو کی طرح بہادری کے ساتھ اذیتوں اور مصیبتوں کا زہر پی لینا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب بن گیا۔

مسلم لیگ (ن) اس صورتحال کا سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لئے انتہا پسندی کی راہ پر چلتی تو شاید 2018ء کے عام انتخابات کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ میاں شہبازشریف نے مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے جلوس کو ایئرپورٹ نہ لے جانے کا فیصلہ کر کے بلاشبہ لاشیں گرنے سے بچا لیں لیکن الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی ناکامی سے پاکستان کی سیاست میں اُن کا یہ فیصلہ ہمیشہ متنازع قرار پائے گا۔

عام انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت بالخصوص شریف فیملی کے افراد اور پارٹی میں اُن کے پُرجوش ساتھیوں میں سے بیشتر کے خلاف نیب نے کارروائیاں کیں اور مسلم لیگ (ن) مصیبتوں میں گِھر گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی گرفتاری کے بعد ان کے صدر شہبازشریف کی بھی گرفتاری نے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پارٹی میں عام تاثر ہے کہ اگر نوازشریف، شہبازشریف جیسے چوٹی کے لیڈروں اور اُن کے خاندان کے افراد کا ناطقہ بند کر دیا گیا ہے تو ہم کس شمار قطار میں ہیں۔

اس سوچ نے پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کو ماند کردیا ہے جبکہ خود مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی پارٹی کے اندر کوئی جوش خروش پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پارٹی کا ادھورا تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ 25 جولائی کے انتخابات کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے اس پارٹی میں جو توڑ پھوڑ کروائی پارٹی قیادت نے نہ صرف اس کی مرمت کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا بلکہ پارٹی کے اندر ضلعی سطح پر مختلف اضلاع میں صدر‘ جنرل سیکرٹری و بعض دیگر عہدیداران کے آپس کے جھگڑوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔

حتیٰ کہ مرکزی اور صوبائی سطح پر خالی عہدوں کو پُر کرنے کی راہ اپنانے سے بھی گریز کیا ۔
تاہم نئی حکومتیں بننے کے لگ بھگ دو ماہ گزرنے کے بعد میاں نواز شریف کی ہدایت پر پارٹی کی تنظیم نو کیلئے میاں شہباز شریف نے چودھری احسن اقبال کو پارٹی کا مرکزی چیف آرگنائزر مقرر کر دیا۔ قبل ازیںسندھ کی تنظیمیں توڑ دی گئیں تھیں اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی سربراہی میں 25 رکنی آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھیںحالانکہ سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ اور کراچی ڈویژن کے صدر علی اکبر گجر کی قیادت میں وہاں تنظیمیں ٹیک آف کرنے کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔

محمد زبیر کا مسلم لیگ (ن) سے پچھلے چند سالوں میں تعلق قائم ہوا ،مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگیوں سے ان کی واقفیت واجبی سی ہے البتہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں مریم نواز شریف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور یہی ان کی کوالیفکیشن ہے۔
محمد زبیر نے آج تک سندھ کی آرگنائزنگ کمیٹی کا صرف ایک ہی اجلاس منعقد کیا جبکہ پارٹی کی تنظیم نو کا معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے ۔

ادھر بلوچستان مسلم لیگ (ن) انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ بلوچستان مسلم لیگ (ن) کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے پارٹی کے ایسے متنازع الیکشن کروائے ہیں جن پر بلوچستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری سیدال خان ناصر‘ مرکزی عہدیداران سردار یعقوب ناصر‘ رفیق اعوان‘ نوابزادہ چنگیز خان مری کو بھی اعتراض ہے۔ جنرل صاحب کے اعلان کے مطابق الیکشن کی پریزائیڈنگ افسر سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ خان درانی تھیں جبکہ محترمہ راحیلہ خان درانی نے باقاعدہ پریس ریلیز اخبارات میں شائع کروا دی کہ ان کا ان انتخابات سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ان انتخابات کی پریزائیڈنگ افسر نہیں تھیں۔

اس تمام صورت حال سے سیدال خان ناصر کی جانب سے مرکزی چیف آرگنائزر چودھری احسن اقبال کو آگاہ کیا گیا لیکن تاحال ادھر سے خاموشی ہے۔ بلوچستان کے جن زعما کو شکایت ہے وہ پارٹی اور پارٹی قائدین نواز شریف‘ شہباز شریف کو مصیبتوں میں گرفتار سمجھتے ہوئے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کو ذیادتی سمجھتے ہیں اورپارٹی پلیٹ فارم پر مسئلہ حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

بہت ممکن ہے کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اصلاح احوال کی کوئی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے یہاں شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تھے۔ جب وہ مرکزی صدر بن گئے تو ان کا کوئی قائم مقام بھی نہیں بنایا گیا۔ پنجاب کی تنظیم کی زبوں حالی بھی پارٹی کارکنوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کوئی بڑی سیاسی لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے سو حکمران جماعت کے پو بارہ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کوئی بڑی غلطی نہ کی تو ان کی حکومت پانچ سال کی مدت آسانی سے پوری کر لے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

muslim league N ka mustaqbil is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 December 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.