”پی ڈی ایم“ کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا

سیاسی جماعتوں کو عوامی مسائل اور جمہوری اقدار کا احساس ”طلاق“ کے بعد کیوں آیا

پیر 23 نومبر 2020

PDM Ka Sheeraza Jald Bikhar Jaye Ga
محبوب احمد
”پی ڈی ایم“ میں شامل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن 2 ایسی جماعتیں ہیں جنہیں ایک یا دو نہیں بلکہ تین تین اور چار چار مرتبہ برسر اقتدار رہنے کا موقع ملا اور ان میں سے چند سیاسی پارٹیاں ایسی بھی ہیں کہ انہیں بھی ”حصہ بقدر جثہ“ ہر دور میں ملتا رہا جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا قصہ ہے تو ان کے تو کیا ہی کہنے کیونکہ تقریباً ہر دور حکومت میں وہ اپنی ”صلاحیتوں“ کے جوہر دکھاتے رہے لیکن اسے تحریک انصاف کی بد قسمتی کہیں گے یا پھر کچھ اور کہ 2 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی ”قابلیت“ سے استفادہ نہیں کیا جا سکا۔

تحریک انصاف حکومت کے خلاف اپوزیشن کی ”اے پی سی“،”جلسے“ اور احتجاج کی دھمکیوں کے نتائج کیا نکلیں گے بس اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ”کھایا پیا کچھ بھی نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے“۔

(جاری ہے)


 کیا اشتہاری مجرم ”دیار غیر“ میں بیٹھ کر پاکستان میں جمہوریت کو پروان چڑھا پائیں گے؟،ایک دوسرے کو ”خلائی مخلوق“ کا ”مہرہ‘ کہنے والے آج اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ختم کرنے کا مطالبہ کس سے کر رہے ہیں ؟،اپوزیشن کو اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد نہیں تو قرار داد کے ذریعے مطالبات کس کو پیش کئے گئے؟،شفاف،آزادانہ،غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانے،فوج اور ایجنسیز کا عمل دخل ختم کرنے کیلئے اصلاحات کون کرے گا؟،کیا سیاسی جماعتوں کا ”پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ“ اتحاد تحریک انصاف کو 5 سال پورے کرنے سے روک پائے گا؟،کیا اپوزیشن کو اصل خطرہ وطن عزیز میں صدارتی نظام کے رائج ہونے اور 18 ویں ترمیم کے خاتمہ کا ہے؟،سینیٹ یا پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہر بار اپنی قیادت کو شرمندہ کروانے والے پورس کے ہاتھی کون ہیں؟اور ان”ہاتھیوں“ سے اپنی اپنی جماعت کو پاک کیوں نہیں کیا جا رہا؟،اپوزیشن اپنی غلطی کی ذمہ داری محکمہ زراعت،سپر سٹیٹ اور پھر سلیکٹڈ حکومت کو ہی کیوں ٹھہراتی ہے؟۔

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل 11 سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل کا ادراک،ملکی سلامتی اور جمہوریت کو درپیش خطرات کا احساس ”طلاق“ کے بعد کیوں آیا؟یہ چند سوالات اب زبان زد عام ہیں اور ان کا جواب بھی اپوزیشن کو بخوبی معلوم ہے لیکن سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کا روایتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے ”معافی“ اور ”تلافی“ کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس کے اب دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔


نیب زدہ اپوزیشن کا ”مشروط“ اتحاد ”مزاحمتی“ نہیں بلکہ کافی حد تک ”مفاہمتی“ دکھائی دے رہا ہے اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا ہے کیونکہ متعدد کرپشن مقدمات میں ملوث سیاسی شخصیات حکومت پر دباؤ بڑھا کر ”ڈیل“ اور ”ڈھیل“ کیلئے ہر ممکن راستہ تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ماضی کی نسبت مہنگائی اور بے روزگاری کی لہر میں خوفناک اضافہ ہوا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کو اس پر کنٹرول کرنے میں کافی دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے لیکن ان نازک حالات میں ”پی ڈی ایم“ کی حکومت مخالف تحریکیں ملک دشمن عناصر کے مذموم عزائم کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد سے ان سیاسی جماعتوں کا کوئی مضبوط کردار دیکھنے میں نہیں آیا حالانکہ مولانا فضل الرحمن تو کشمیر کمیٹی کے متعدد مرتبہ چیئرمین رہ چکے ہیں اور ان کی وزارت پر کروڑوں روپے کے اخراجات بھی آتے رہے ہیں۔
عسکری اداروں کے خلاف مسلم لیگ ن کی قیادت کے ”بیانئیے“ اور ہر زہ سرائی پر اکثر رہنماء و کارکنان سخت نالاں بھی دکھائی دے رہے ہیں لہٰذا پارٹی میں فارورڈ بلاک کی جو قیاس آرائیاں تھیں وہ کھل کر سامنے آرہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر و سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا مسلم لیگ(ن) سے علیحدگی کے باضابطہ اعلان اور سنسنی خیز انکشافات نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔پی ڈیم ایم کے بیانئیے کو ملک بھر میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اسی وجہ سے بڑی سیاسی جماعتوں کی گلگت بلتستان انتخابات میں کامیابی کی راہیں بھی اب مسدودہو چکی ہیں ،یقینا قومی الیکشن کی طرح اب کی بار بھی جی بی انتخابات کے بعد اپوزیشن کی طرف سے ”دھاندلی“ کا شورو غوغا“ ہو گا۔

پاناما سکینڈل میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی عسکری اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی،پاکستان عدلیہ پر بے جا تنقید،بلاول زرداری کا کابینہ میں شدت پسندوں کے حامیوں کی موجودگی کا تواتر کے ساتھ ذکر اور مولانا فضل الرحمان کی لانگ مارچ کو موثر بنانے کیلئے انصار الاسلام فورس تشکیل دے کر قومی سلامتی کے اداروں کو للکارنے عالمی سطح پر وطن عزیز کی ساکھ کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔


اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ قیام امن کیلئے عسکری اداروں نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے لہٰذا ایسے میں پاک افواج کے خلاف بیان بازی سے وطن عزیز کی ساکھ اور سلامتی کو نقصان پہنچانے والے یقینا ملک دشمن عناصر کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں جن کے خلاف تادیبی کارروائی وقت کا تقاضا ہے۔قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ آج تباہ حالی کا شکار ہے،سٹیل مل ،پی آئی اے اور دیگر منافع بخش ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں،ماضی میں شرح خواندگی میں کمی پر قابو پانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

تحریک انصاف کی قیادت جہاں عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوشاں ہے وہیں ملک کے اندرونی مسائل کے خاتمے اور کرپشن کے خلاف کارروائیاں بھی بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کو اندرونی اور بیرونی بیک وقت دو محاذ پر نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے لہٰذا یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ محبت وطن قوتیں ور سیاسی جماعتیں اقوام عالم میں پاکستان کی گرتی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں تاکہ وطن عزیز کی سلامتی کے درپے ملک دشمن عناصر کی سازشیں ناکام بنائی جا سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

PDM Ka Sheeraza Jald Bikhar Jaye Ga is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.