وزیراعظم عمران خان کا دورہ کراچی کامیاب یا ناکام!

کراچی کا اسٹیٹ گیسٹ 5 سال سے صدر ممنون حسین کے زیراستعمال تھا جنہوں نے حلف اٹھانے سے ایک ماہ قبل ہی اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کو اپنا گھر بنا لیا تھا‘ اب اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کے مکین بدل گئے۔ وزیراعظم نے دو عشروں کے بعد اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کی شکل دیکھی۔

جمعرات 20 ستمبر 2018

wazeer e azam Imran Khan ka dora Karachi kamyaab ya nakaam
شہزاد چغتائی

وزیراعظم عمران خان کی میگا سٹی سے واپسی کے بعدیہ بحث شروع ہوگئی کہ ان کاکراچی مشن کتنا کامیاب تھا۔ اپوزیشن نے وزیراعظم کے دورے کو ناکام قرار دیدیا لیکن تحریک انصاف نے دورے کو کامیاب قرار دے کر آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ کراچی کا اسٹیٹ گیسٹ 5 سال سے صدر ممنون حسین کے زیراستعمال تھا جنہوں نے حلف اٹھانے سے ایک ماہ قبل ہی اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کو اپنا گھر بنا لیا تھا‘ اب اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کے مکین بدل گئے۔ وزیراعظم نے دو عشروں کے بعد اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کی شکل دیکھی۔ سابق صدر پرویز مشرف تو کبھی اسٹیٹ گیسٹ ہائوس نہیں گئے۔آصف علی زرداری بلاول ہائوس میں قیام کرتے تھے جب کراچی میں امن وامان کی صورتحال خراب تھی تو بے نظیر بھٹو وہاں اعلیٰ سطح کے اجلاس کرتی تھیں۔

(جاری ہے)

سابق وزیر داخلہ نصیر اللہ‘ بابر معین الدین حیدر اورسابق وزیر خارجہ خورشید قصوری وہاں پریس کانفرنس کرنے جاتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں 10گھنٹے قیام کیا‘ مختلف اجلاسوں کی صدارت کی اور اتحادیوں سے ملاقات کی اس دوران ایم کیو ایم اورگرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے وفود نے بھی عمران خان سے ملاقات کی اور مطالبات پیش کئے۔

ایم کیو ایم نے 100 ارب مانگ لئے لیکن وزیراعظم عروس البلاد کو پیسے دینے کے بجائے پیسے لے کر چلے گئے۔ انہوں نے کراچی کیلئے بہت سارے اعلانات کئے لیکن شہر کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے پھوٹی کوڑی نہیں دی۔ گرین لائن منصوبے کے انچارج نے وزیراعظم کو یہ مژدہ سنا کر مطمئن کر دیا کہ گرین لائن منصوبہ مکمل ہو گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گرین لائن منصوبے پر 35 فیصد کام مکمل نہیں ہوا‘ نئی حکومت آنے کے بعد سے اس پر کام بند ہے اورگرومندر سے لیکر پی ٹی گیٹ تک منصوبے کی ایک اینٹ نہیں رکھی گئی جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس منصوبہ پر آئندہ کئی سالوں میں کام مکمل نہیں ہو گا۔

کراچی کیلئے اب تک مسلم لیگ اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں کئی ترقیاتی پیکج پیش کرچکی ہیں لیکن اب تک کراچی کے مسائل حل نہیں ہوسکے۔ کچھ ترقیاتی منصوبوں پر جزوی عمل ہوا لیکن ایک ترقیاتی پیکج ایسا بھی ہے جوہڑپ کرلیا گیا۔کراچی کیلئے 100 ارب کے اس ترقیاتی پیکج کا اعلان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کیا تھا لیکن 100ارب میں سے 100 روپے بھی خرچ نہیں ہوئے اب میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی کو 9 ہزار ارب روپے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سندھ اور کراچی میں اب سارے ترقیاتی فنڈز ہڑپ کئے جا رہے ہیں یہ بیماری اب کراچی بھی آ گئی میئر کراچی وسیم اختر 9 ہزار ارب کے فنڈز تو مانگ رہے ہیں لیکن نیب ان سے اربوں روپے کا حساب کتاب مانگ رہی ہے یہ فنڈز جاری تو ہوئے لیکن خرچ نہیں ہوئے۔ سندھ کا بجٹ ویسے تو 1400 ارب روپے کا ہے لیکن سندھ کے تمام سرکاری وسائل کو اکٹھا کیاجائے تو یہ 2 ہزار ارب بنتے ہیں۔ کراچی سالانہ 100 ارب ڈالر کی دولت پیدا کرتا ہے اس دولت کا بڑا حصہ سندھ کے حکمرانوں کی جیب میں جاتا ہے‘ یہ وہ رقم ہے جو کہ انڈر ورلڈ ڈرگ مافیا‘ لینڈ مافیا‘ بلڈرز کرمنلز‘ بھتے اور رشوت کے عوض ادا کرتے ہیں۔

صرف کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کئی ارب ڈالر کا بھتہ وصول کرتے ہیں۔ پانی کی فروخت کا دھندہ 100 ارب روپے سالانہ ہے۔ اس طرح منشیات جوئے ‘سٹہ‘ ڈرگ اورعصمت فروشی کے اڈوں سے اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں۔ سندھ میں 2 سے 3 لاکھ ایسے ملازمین ہیں جن کا کوئی وجود نہیں لیکن تنخواہیں ہڑپ کر لی جاتی ہیںاورجوکام پر نہیں آتے وہ آدھی تنخواہ مافیا کو دیتے ہیں۔ ادھر ایم کیو ایم کے وفد سے وزیراعظم کی طویل ملاقات ہوئی لیکن وفد میں ڈاکٹر فاروق ستار شامل نہیں تھے۔ وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے کے بعد وزیراعظم کراچی آئے تو انہوں نے 10 گھنٹے قیام کے دوران زیادہ تر ہیلی کاپٹر میں سفر کیا۔ وزیراعظم عمران خان کراچی میں قیام کے دوران کسی سے ملاقات کرنے نہیں گئے سب ان سے ملنے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس گئے انہوں نے مزار قائد پر بھی حاضری دی اورمحترمہ فاطمہ جناح اورلیاقت علی خان کے مزار پر گئے۔ وزیراعظم کی فنڈز ریزنگ کی تقریب گورنر ہائوس میں ہوئی۔ پرنٹ میڈیاکے ساتھ انہوں نے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہفتہ کی رات پرنٹ میڈیا سے وابستہ کچھ صحافیوں کو ملاقات کی دعوت دی گئی لیکن دوپہر ملاقات ملتوی کر دی گئی۔ اس کو تبدیلی بھی کہا جا سکتا ہے۔ پرنٹ میڈیا تحریک انصاف کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ تحریک انصاف کے مقامی رہنما اخبارا ت کے چکر لگاتے ہیں اورروز بیانات جاری کرتے ہیں لیکن ان کی پارٹی کے سربراہ پرنٹ میڈیا سے ملنے کیلئے تیار نہیں۔ اس سے قبل صدر عارف علوی جب کراچی آئے تھے تو ان کا پروٹوکول موضوع بحث بن گیا تھا اورمیڈیا نے ان کی خوب خبرلی تھی جس پر صدر کو وضاحت جاری کرنا پڑی۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ایئر پورٹ پر ان کے منع کئے جانے کے باوجود پروٹوکول دیا گیا۔صدر مملکت ڈاکٹر علوی اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے اس موقع پر انہیں مکمل وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا تھا‘ ان کے قافلے میں 2 درجن سے زائد گاڑیاں شامل تھیں اور کئی اہم شاہراہوں کو بند کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے ٹوئٹر پر وضاحت دی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر ان کے ہمراہ کئی گاڑیاں تھیں حالانکہ میں نے حکام سے کہا تھا کہ مجھے عوام کے سامنے رسوا نہ کیجیے‘ میرے ساتھ سیکورٹی تناظر کی حد تک ہی گاڑیاں رکھی جائیں، ایک یا دو گاڑیاں آگے اور اتنی ہی پیچھے ہونی چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا، ہمیں اس سلسلے میں سخت اقدام اٹھانا پڑے اپنی رہائشگاہ کے باہر موجود پولیس اہلکاروں کی موجودگی اور پولیس کی جانب سے گھر کے اطراف ہوٹلوں کی بندش کے حوالے سے صدر مملکت نے کہا کہ میں کسی کیلئے اذیت کا باعث نہیں بننا چاہتا جن کے ساتھ میں نے ساری عمر گزاری ہے‘ میں سیکورٹی کو تو نہیں چھوڑ سکتا لیکن جب یہ عام شہریوں کیلئے مشکلات کا باعث بنی تو ہمیں اس کی ایک حد مقرر کرنا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

wazeer e azam Imran Khan ka dora Karachi kamyaab ya nakaam is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.