"نہ نومن تیل ہوگا،نہ رادھاناچے گی"

بدھ 30 دسمبر 2020

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

مولانا فضل الرحمان کے سیاسی خوابوں کی تعبیر ہمیشہ سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ رہی ہے۔ انتخابات کے بعد ہی مولانا نے اعلان جنگ کر دیا تھا لیکن انہیں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی چھتری کی ضرورت تھی۔نواز شریف اور آصف زرداری مقدمات کے گرداب اور سمجھوتوں، مجبوریوں کے جال میں پھنسے ہوئے تھے۔ ہچکچاہٹ، فیصلہ سازی میں کمی، ماضی کی تلخیاں، ناراضگیاں اور باہمی عدم اعتماد بھی حکومت مخالف اتحاد کی تشکیل میں رکاوٹ بنا رہا۔

مفاہمت اور مزاحمت کی سیاست سے تھک ہار کر، بالآخر نواز شریف اور آصف زرداری راضی ہو گئے اور حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم تشکیل دے گیا۔تاہم سابق صدرآصف علی زرداری خود سکرین کے پیچھے بیٹھ گئے اورسامنے بلاول کوبھیج دیااورنوازشریف اپنے بھائی شہبازشریف (جوجیل میں ہے )کو اپنی پارٹی کی قیادت اس کے ہاتھ میں دینے کی بجائے پارٹی کی باگ ڈوراپنی بیٹی مریم نوازکے سپردکردی اورخودلندن میں بیٹھ کر ویڈیولنک کے ذریعے خطاب کرتے رہے، اوراس پی ڈی ایم کاسربراہ مولانافضل الرحمن کوبنایاگیا(1973کے آئین کے تناظرمیں عمران خان کی حکومت ناجائزحکومت ہے کیونکہ اس بارکشمیرکمیٹی کی سربراہی کسی اورکودیدی گئی)اورمولانانے موجودہ حکومت کوگھربھیجنے کیلئے تمام آئینی اورقانونی حدیں پھلانگ ڈالیں اورایسی باتیں شروع کردیں جوکہ پاکستان کے ازلی دشمنوں کابیانیہ ہے۔

(جاری ہے)


حکومت مخالف اتحاد کی تحریک جب حتمی مراحل میں داخل ہو رہی ہے تو اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اپنی ہی جماعت کے پرانے ساتھیوں کی جانب سے 'بغاوت' کا سامنا کرنا پڑ ا۔ بلوچستان سے مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد اور خیبر پختونخواہ سے مولانا گل نصیب اور شجاع الملک نے مولانا کے خلاف آواز بلند کی ہے۔مولانا پر جماعت میں موروثی سیاست، بادشاہت قائم کرنے اور نظریات سے انحراف جیسے الزامات لگادئے۔

ان شخصیات کی بغاوت اور الزامات نے مولانا کے لیے ایک ذہنی اور سیاسی الجھن کھڑی کردی، حکومتی شخصیات کو مولانا پر سیاسی تیر چلانے کا موقع بھی مل گیااوردوسری طرف مولانافضل الرحمن اپنی جماعت میں اختلاف رائے برداشت نہ کرسکے اور اختلاف کرنے والے سینئرارکان کو پارٹی سے نکال دیا گیا،جمعیت علما ئے اسلام کے سربراہ کی مخالفت پر پارٹی سے نکالے جانے والے رہنما مولانا شجاع الملک نے ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا،مرادن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا شجاع الملک کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان بندگلی میں پھنس چکے ہیں، اگر ان کا دامن صاف ہے تو نیب میں کیوں پیش نہیں ہوتے ۔

شجاع الملک کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ایک پیج پر نہیں ہے اس لیے یہ حکومت نہیں گراسکتے، مولانا فضل الرحمان کو قوم کی نہیں بلکہ اپنی فکر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل کسی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے، اداروں کے سامنے دھرنوں کی باتیں بچگانہ ہیں، مولانافضل الرحمن نیب سے بچنے کے لیے یہ سارے ڈرامے کررہے ہیں۔شجاع الملک کا کہنا تھا کہ مولانانے کرپشن چھپانے کیلئے پوری جماعت کو یرغمال بنایاہوا ہے، مجھے یا دیگر رہنماؤں کی رکنیت صفائی کا موقع دیے بغیر ہی ختم کردی گئی جبکہ میں مرکزی شوری کا ممبر بھی ہوں مگر اجلاس میں نہیں بلایا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اکیلے نہیں چاروں صوبوں کے کارکن ہمارے ساتھ ہیں، فضل الرحمان سے اختلافات آج سے نہیں بلکہ 13 سال پرانے ہیں۔ اداروں کے خلاف بیانیہ جمعیت علما ئے اسلام کا نہیں بلکہ' مسلم لیگ ن 'کا ہے۔
رواں ہفتے منگل کے روزمولانا شیرانی نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان (جے یو آئی - پی) کو جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)سے الگ کرنے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں جے یو آئی کے ناراض ارکان کی پریس کانفرنس میں مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے جے یو آئی ف کے نام سے اپنا گروپ تشکیل دیا ، اب جو کچھ ہو رہا ہے دیانت اور صداقت سے عاری ہے، وہ جے یو آئی کے دستور کے مطابق پارٹی کے رکن ہیں اور رہیں گے ۔اپنے بیان میں مولانا شیرانی نے کہا کہ ہمارا کوئی بھی رکن قرآن و سنت کے منافی کوئی اقدام نہیں کرے گا، اب جو کچھ ہورہا ہے وہ صداقت اور دیانت سے خالی ہے، ہمیں اکابرین سے سیاست وراثت میں ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک قرارداد پاس کی جائے کہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کیاجائے، نیا نوٹیفکیشن جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے نام سے جاری کیاجائے اور الیکشن کمیشن میں جمع کرایاجائے۔خیال رہے کہ گزشتہ دنوں ایک بیان میں سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان خود سلیکٹڈ ہیں، وہ عمران خان کو کیسے کہتے ہیں کہ وہ سلیکٹڈ ہے، میرا ماننا ہے کہ یہ پارٹی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، اگر کوئی ایسا سوچ رہاہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔


اُدھرکراچی میں بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی(سی ای سی) کا اجلاس ہوا جس میں شرکا کی اکثریت نے اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کردی۔شرکا نے کہا کہ اگر سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس آکر لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہیں تو استعفوں پر غور کیا جاسکتا ہے، قبل ازوقت استعفوں سے حکومت کو اٹھارہویں آئینی ترمیم اور دیگر جمہوری قوانین کو ختم کر نے کا موقع مل جائے گا۔

اجلاس میں قانونی ماہرین نے رائے دی کہ استعفے سینیٹ الیکشن میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتے، استعفوں کے بعد کا لائحہ عمل بھی واضح نہیں ہے۔
حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے مسلسل مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ وہ 31 جنوری تک مستعفی ہو جائے اور اگر حکومت مستعفی نہیں ہوتی تو یکم فروری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اسلام آباد کی طرف مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گااور ساتھ ہی مولانافضل الرحمن پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہوں کوزوردے کرکہہ رہے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دیں ،ضمنی اورسینٹ انتخابات میں حصہ نہ لیں، پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی(سی ای سی) کا اجلاس ہوا جس میں شرکا کی اکثریت نے اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کردی،اس سے قبل پیپلزپارٹی کے سندھ کے وزیراعلیٰ دوٹوک اعلان کرچکے تھے کہ ہم استعفے نہیں دیں گے ،ضمنی اورسینٹ انتخابات میں بھی حصہ لیں ۔

اس ساری صورت حال کودیکھ کرایسالگتاہے کہ مولانافضل الرحمن نہ گھرکے رہے ہیں نہ گھاٹ کے کیونکہ پی ایم ڈی کی سربراہی کے چکرمیں اپنی پارٹی میں بھی ٹوٹ گئی ،پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) نے انہیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا،جب مبینہ طورپرمعاملات طے ہوگئے توپیپلزپارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کیلئے ایسی شرط رکھ دی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس آکر لانگ مارچ کی قیادت کریں تواستعفوں کے بارے میں سوچاجائے گاکیونکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کومعلوم ہوگیاتھاکہ (ن) لیگ انہیں استعمال کرنے کوشش میں ہے اس ایسی شرط رکھ کہ نہ نوازشریف واپس آئیں گے اورنہ ہی انہیں استعفوں کیلئے مولانافضل الرحمن کہہ سکے گاکیونکہ اس لئے کہتے ہیں کہ "نہ نومن تیل ہوگا،نہ رادھاناچے گی"۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :